بھارتی انتخابات میں جیت کا راز

شاہد اللہ اخوند  اتوار 26 مئ 2019
مودی نے ہندو انتہاپسند تنظیموں کے دل میں اپنےلیے جگہ بنالی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

مودی نے ہندو انتہاپسند تنظیموں کے دل میں اپنےلیے جگہ بنالی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

بھارتی انتخابات میں جیت اور شکست کا راز جاننا چنداں مشکل نہیں۔ بھارت کی سیاسی صورت حال اور حالات پر نظر رکھنے والا ادنیٰ طالب علم بھی بخوبی ان نتائج کا ادراک کرسکتا ہے کہ کون اس میدان کا شہ سوار بنے گا۔ کیوں کہ بھارت کے انتخابات میں جیت کےلیے تین بنیادی اصول ہیں، اگر کوئی جماعت ان اصولوں کو اپنا منشور اور مقصد بنائے گی تو جیت اس کا مقدر ہے۔

(1) اینٹی مسلم پالیسی

یہ ایک ایسا فارمولا ہے جسے مودی نے بار بار آزمایا ہے اور اسی بنیاد پر ہندو انتہاپسند تنظیموں کو اپنا پشت پناہ بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ کیوں کہ بھارت میں اینٹی مسلم پالیسی کی بنیاد پر بے شمار تنظیمیں وجود میں آئیں۔ ساٹھ سے اوپر تنظیمیں ایسی ہیں جن پر لیبل تو سیاسی جماعت کا لگا ہے، تاہم بیانیہ اور ایکٹیوٹیز ان کی اینٹی مسلم پالیسیز پر مشتمل ہیں۔

ان ہندو انتہاپسند تنظیموں کو یہ بتایا اور سمجھایا گیا ہے کہ دنیا میں اگر ہندو ازم کی سرکوبی کےلیے کوئی موجود ہے تو وہ مسلمان ہیں، جو غزوہ ہند کے خواب دیکھتے اور ان پر ایمان رکھتے ہوئے اس میں شرکت باعث اجر سمجھتے ہیں۔

ان ہندوؤں کے دماغ میں مسلم مخالف نظریہ ٹھونس دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ہندو انتہاپسند تنظیمیں مساجد کو گرانے، مسلمانوں کو گائے ماتا اور دوسرے حیلے بہانوں سے قتل کرنے سمیت پوری دنیا پر ہندو ازم کو غالب کرنے کا خواب دیکھتے ہیں۔

نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی خود ایک انتہاپسند تنظیم ہے اور یہ پارٹی سب سے زیادہ ہندو انتہاپسندوں کی پشت پناہی میں ملوث ہے۔ وہ جو کہتے ہیں یہ پارٹی ان کی خواہش پوری کرتی ہے۔

ایودھیا کی شہید بابری مسجد پر مندر بنانا ہو یا دہلی کی جامع مسجد، کھڑکی مسجد، ٹیپو سلطان مسجد یا مغل طرز تعمیر کا تاج محل؛ سب کے خلاف ان ہندو انتہاپسند تنظیموں نے سازش کی ہے۔ انھیں گرانے سمیت ان پر مندر بنانے کے منصوبے بنائے گئے، ان میں پوجا پاٹ کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ حتیٰ کہ انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن کے ذریعے تمام مساجد کی کڑی نگرانی کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ اور مودی کی جماعت نے ان کا ہمیشہ ساتھ دیا ہے، ان کی پشت پناہی کی ہے۔

ریاست آسام سے مسلمانوں کو بے دخل کرنے کی پلاننگ ہو یا ان کو مردم شماری سے محروم کرنا، سب اسی جماعت کی سازشیں رہی ہیں۔ جس کی بدولت مودی نے ہندو انتہاپسند تنظیموں کے دل میں اپنےلیے جگہ بنالی ہے۔

(2) اینٹی پاکستان پالیسی

2014 میں نریندر مودی کی جیت کی ایک بڑی وجہ اینٹی پاکستان پالیسی رہی ہے، جس میں یہ جماعت سب سے آگے ہے۔ 2014 کے انتخابات میں مودی نے یہ حربہ آزمایا تھا اور اس بار پھر سے مودی نے یہی حربہ آزمایا اور کامیاب رہے۔

کشمیر میں جب پلوامہ حملہ ہوا تو خود بھارتی فوج کے بعض جرنیلوں اور اپوزیشن نے کہا کہ یہ حملہ مودی نے کروایا، جس کے ذریعے وہ پاکستان پر حملہ کرنے کی پلاننگ کرسکیں۔ اور یوں اینٹی پاکستان پالیسی کو زندہ رکھنے میں وہ کامیاب رہے۔

جب بھارت نے پاکستان پر ناکام حملہ کیا تو خود مودی کی جماعت کے ایک شخص نے اقرار کیا کہ مودی کو اس واقعے کی وجہ سے 22 سے 25 سیٹیں مل سکتی ہیں۔

اینٹی پاکستان وہ پالیسی ہے جس پر بھارتی مسلمانوں کی بھی ذہن سازی کی گئی ہے، وہ بھی پاکستان کے شدید ترین مخالف دیکھے گئے ہیں۔

(3) مسئلہ کشمیر

مسئلہ کشمیر کا بھی بھارتی سیاست میں بڑا دخل ہے۔ کشمیر کو جتنا ہم اپنی شہ رگ سمجھتے ہیں، بھارت اس سے بھی زیادہ اسے اپنا سمجھتا ہے۔ کیوں کہ بھارت وہاں پر قابض ہے اور بھارتی عوام کے سامنے تاریخ کو مسخ کرکے یہ باور کرانے میں کامیاب رہا ہے کہ کشمیر تقسیم میں ان کو ملا تھا اور یہ بھارت کا حصہ ہے۔ بھارتی عوام کو یہ بھی باور کرایا گیا ہے کہ کشمیر کے لیے لڑنا بھی جہاد ہے۔ صرف یہ نہیں بلکہ وہاں کے علما سے کشمیر کے سلسلے میں باقاعدہ فتوے لیے گئے ہیں کہ کشمیر میں مجاہدین اور آزادی کشمیر کے نوجوان جو لڑ رہے ہیں وہ ناحق ہے، اور وہ جہاد نہیں فساد پھیلانے میں ملوث ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ بھارتی افواج نے گزشتہ برسوں میں کشمیریوں پر وہ مظالم ڈھائے جن کو تاریخ بھی رقم کرتے ہوئے شرمسار ہے۔
ایس اے ٹی پی کے مطابق 2014 سے 2018 کے درمیان عام لوگوں کی ہلاکتوں میں 33.71 فیصد اضافہ ہوا، جن کو بھارتی ظالم افواج نے نشانہ بنایا۔ مودی نے 2014 سے حالیہ انتخابات تک ان ہی حربوں کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا۔

بھارت کے عام انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی دربارہ جیت میں ان تین فارمولوں کا بہت بڑا دخل ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔