انسان ذہن کا غلام ہے

آفتاب احمد خانزادہ  اتوار 26 مئ 2019
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

تھیوڈور روز ویلٹ کا کہنا تھا کہ جب وہ صدر تھے اور انھیں کوئی مشکل مر حلہ پیش آجاتا تو وہ اپنی آرام کرسی پر تکیہ لگا کر بیٹھ جاتے اور لنکن کی قد آدم تصویر کی طرف دیکھا کرتے تھے جو ان کی میزکے اوپر وائٹ ہائوس میں آویزاں تھی اور اپنے دل سے یہ سوال کرتے تھے اگر اس وقت میری جگہ لنکن ہوتے تو اس مو قع پر کیا کرتے؟ وہ کس طرح اس مسئلے کو حل کرتے ۔ یہ تھا عظیم امریکا کے صدر روز ویلٹ کا اپنے آپ کو در پیش آنے والے مسائل کو حل کرنے کا طریقہ کار۔

پاکستان کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے بڑا ہی سیدھا سادہ سا سوال پیدا ہوتا ہے ،کیا ملک اس طرح چلتے ہیں جس طرح ہمار ے حکمران اسے چلاتے رہے ہیں ؟ کیا قومی رہنمائوں کی سیاسی بصیرت ، فیصلے ، ویژن ، عقل ودانش اس طرح کی ہونی چاہیے جیسے ہمارے قومی رہنمائوں کی ہے۔کیا ذاتی مفادات قومی مفادات سے زیادہ عزیز ہونے چاہییں ،کیا قائداعظم ، علامہ اقبال کی روحیں اپنے جانشینوں کو دیکھ کر خوش ہوتی ہوں گی ،کیا وہ بے فکر ہونگے کہ ان کے بعد ملک محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ کیا ملک قائداعظم اور علامہ اقبال کے ویژن اورتصورات کے عین مطابق چلایا جا رہا ہے۔

کیا دہشت گردی ، بد امنی ، جہالت،انتہاپسندی ، غربت ، مہنگائی ، بے روزگاری پر ہمارے قومی رہنما اس قدر ہی پریشان اور فکر مند ہیں جیسے کہ پاکستانی قوم ہے کیا ہمارے قومی رہنما اپنی ساری شان وشوکت اور عیش وآرام کو قوم کے غم میں لات مار چکے ہیں کیا موجودہ عذابوں سے باہر نکلنے کے لیے تمام قومی رہنما سرجوڑکر بیٹھے ہوئے ہیں کیا انھیں ملک اور قوم کی فکر دن رات کھائے جارہی ہے ۔کیا انھیں اس بات کا احساس ہے کہ عرب ممالک میں ہونے والی تبدیلیوں ، افغانستان اور بھارت میں ہونے والے انتخابات اور امریکا کے افغانستان سے چلے جانے کے بعد پیدا ہونے والی نئی صورتحال کے منفی اثرات سے پاکستان کو کیسے محفو ظ رکھا جائے گا۔کیا ان کا دن رات ملکی اورغیر ملکی صورتحال پر غوروفکر جاری وساری ہے،کیا پاکستان کو درپیش تمام مسائل کا حل ڈھونڈا جا رہا ہے۔

انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس سوال کا جواب شرمندگی کے علاوہ کسی کے پاس اور کچھ نہیں ہے۔ پال پارکہتا ہے ’’ لیڈر سوچتے ہیں، وہ اس لیے سوچتے ہیں کیونکہ وہ لیڈرز ہوتے ہیں اور وہ لیڈرز بھی اس لیے ہوتے ہیں کیونکہ سوچتے ہیں‘‘ آپ صرف اتنا ہی کام کرسکتے ہیں جتنا آپ سوچتے ہیںاس سے زیادہ آپ کبھی بھی کچھ نہیں کرسکتے۔

آپ کے خیال میں سب سے اہم دریافت کون سی ہے کیا منگولیا کے میدانوں میں ڈائنو سارکے انڈوں کی برآمدگی جس کے بارے میں سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ تقریباً دس ملین سال زمانہ قدیم سے تعلق رکھتے ہیں یا قدیم شہروں اور مزاروں کی دریافت جن کی بابت کسی مقدس الہامی کتاب میں تصدیق بھی موجود ہو اور ان کے بے نظیر نمونے قدیم تہذیبوں سے ملتے ہوں یا تابکاری کے ذریعے اوقات کا تعین کرنا جس کے ذریعے Tufts Collage کے پروفیسر لین نے زمین کی عمر کااندازہ ایک بلین دو سو پچاس ملین سال لگایا تھا یا ریڈیو ، ہوائی جہاز ، ایٹمی توانائی ، ہائیڈروجن بم ، بجلی ، نہیں ان میں سے کوئی بھی نہیں بلکہ سب سے عظیم دریافت سوچ ہے۔

ہر انسان تخلیقی طاقت رکھتا ہے اس کو ذہانت اور وسائل عطا کیے گئے ہیں اور وہ اس طاقت کو اس کی مرضی کے مطابق استعمال کرسکتا ہے وہ اپنے ذہن کا اسی طرح غلام ہے جس طرح الہ دین کے پرانے قصے ’’ الہ دین کا چراغ ‘‘ میں بیا ن کیاگیا تھاکہ چراغ کاجن صرف الہ دین کی بات کو سمجھتا تھا اور اسے جس چیزکی ضرورت ہوتی وہ اسے فورا ً فراہم کردیتا تھا ۔یعنی آپ اپنی سوچ سے زیادہ کچھ حاصل نہیں کرسکتے، تمام دنیا کے ماہر نفسیات اور ماہر الہیات ا س بات پر متفق ہیں کہ ذہن ہی تمام کاموں کوکنٹرول کرتاہے۔

آپ صرف وہی کام کرتے ہیں جن کا خاکہ آپ کے ذہن میں بنتا ہے۔ ویانا کے مشہور ما ہر نفسیات الفریڈ ایڈلر نے ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام ’’ مقصد زندگی ‘‘ ہے وہ اس کتاب میں لکھتے ہیں دنیا میں سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا اس شخص کو کرنا پڑتاہے اور دوسرے لوگوں کو بھی نقصان اسی شخص سے پہنچتا ہے ۔ جو اپنے بھائی بندوں میں کوئی دلچسپی نہیں لیتا، ایسے لوگ ہی بنی نوع انسان کی ناکامیوں کا سرچشمہ ہیں ۔ دنیا کے سب سے بڑے جادوگر ہاورڈ تھر سٹن سے جب اس کی کامیابی کا راز پو چھا گیا تو اس نے بتایا کہ جب بھی میں اسٹیج پر آتا تھا اپنے آپ سے کہتا تھا میں شکر گذار ہوں کہ یہ لوگ مجھے دیکھنے آئے ہیں ان لوگوں کی بدولت مجھے روزی کمانے میں بہت آسانیاں ہیں میں حتی الامکان انھیں کرتب دکھائوں گا اور انھیں خوش خوش لو ٹائوں گا وہ اسٹیج پر اس وقت تک قدم نہ رکھتا تھا جب تک وہ اپنے دل سے کئی بار یہ نہ کہہ لیتا کہ میں اپنے حاضرین سے محبت کرتا ہوں ، میں اپنے حاضرین کو دل وجان سے چاہتاہوں ۔

وہ کیا چیز ہے جوکسی شخص کو کا میاب بناتی ہے اور ہم کامیابی کو کس طرح شناخت کرسکتے ہیں بعض لوگوں کے نزدیک کامیابی سے مراد دولت مندی ہوسکتی ہے بعض دوسرے لوگوں کے نزدیک کامیابی سے مراد مقبولیت ، اچھی صحت ، اچھا گھرانہ ، خوشحالی ، دل وذہن کا سکون ہوسکتی ہے۔ اس بات سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ کامیابی ایک داخلی معاملہ ہے مختلف لوگوں کے لیے کامیابی کے معا نی مختلف ہوتے ہیں جب کہ انگیل کہتا ہے کہ کامیابی کسی عظیم مقصد کے مرحلہ وارحصول کا نام ہے ۔ مرحلہ وار کا مطلب ہے کہ کامیابی ایک سفر ہے منزل نہیں ، ہم کبھی منزل تک نہیں پہنچتے جب ہم ایک ہدف کو حاصل کرلیتے ہیں تو اگلے کی طرف چل پڑتے ہیں اور پھر اس سے اگلے کی طرف ۔کامیابی ایک داخلی احساس ہوتی ہے یہ ہی وجہ ہے کہ جو بظاہرکامیابی دکھائی دے رہی ہو، ممکن ہے وہ اندر سے سراسر کھوکھلی ہو۔

اس لیے مقصد کا عظیم ہونا ضروری ہے جوکامیابی آسودگی اور اطمینان عطا نہیں کرتی وہ کھوکھلی کامیابی ہوتی ہے صرف جینا یادولت مند ہونا یا بڑے عہدے پر فائز ہونا کامیابی نہیں ہوتی ۔ دنیا میں غربت کا کوئی وجود نہیں ہے بلکہ غربت ہمارے اندر موجود ہوتی ہے ۔ ہمارے قومی رہنمائوں اور سیاست دانوں کو ایک بات سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ خدا نے ان کوکروڑوں لوگوں میں سے کروڑوں لوگوں کی رہنمائی اور ان کے مسائل حل کرنے کے لیے چنا ہے یہ ان کی خوش قسمتی ہے لہذا خدارا اپنی خوش قسمتی کو دوسروں کی بدقسمتی نہ بنائو ۔ آئو خلق خدا کی خدمت کرو جو سب سے بڑی عبادت ہے ۔ جو سب سے بڑی کامیابی ہے ۔ وہ کامیابی جو تمہیں اندر سے خوشی اور اطمینان دے گی ، جو مرنے کے بعد بھی تمہیں زندہ رکھے گی ۔ لوگوں سے محبت کرو جس طرح تم اپنے آپ سے کرتے ہو ، پھر دیکھوکس طرح لوگ تم سے محبت کرتے ہیں ۔ سوچو ،آئو ، سوچو ۔اب وقت آگیا ہے کہ ہمارے قومی رہنما اپنی سو چ کو یکسر تبدیل کر دیں اور اپنے ہی لیے نہیں بلکہ لوگوں کے لیے جیئیں اور سوچیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔