تاریخ کا سبق

زاہدہ حنا  اتوار 26 مئ 2019
zahedahina@gmail.com

[email protected]

پاکستان کے حق میں سندھ اسمبلی نے سب سے پہلے قرارداد منظورکی جس میں دیگر کے علاوہ جی ایم سید نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ تقسیم کے بعد بڑے پیمانے پر سرحد کے آر پار تاریخ کی ایک بڑی نقل مکانی ہوئی۔ ہندوستان سے آنے والوں کی ایک بڑی تعداد کا رخ سندھ کی طرف موڑ دیا گیا۔سندھیوں نے آنے والوں کی راہ میں دیدہ ودل فرشِ راہ کردئیے۔ وقت گزرتا رہا۔

پاکستان کی تخلیق کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ مسلم لیگ کمزور مرکز اور زیادہ سے زیادہ خود مختاری والے صوبے چاہتی تھی جب کہ کانگریس ایک مضبوط مرکز چاہتی تھی۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد مسلم لیگ نے پینترا بدلا اور مضبوط مرکز کی حامی بن گئی۔ گویا جس اصول پر ملک تخلیق ہوا اس اصول کو ہی فراموش کردیا گیا۔آزادی کے فوراً بعد صوبہ سندھ اور سرحد کی صوبائی حکومتیں تحلیل کردی گئیں۔ یہیں سے اس بحران کا آغازہوا جو آج تک جاری ہے۔ مضبوط مرکزکے چکر میں مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش بنا اور آج 18 ویں ترمیم کو نشانہ بنا کر صوبوں سے اختیارات واپس لینے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔

سندھ نے ون یونٹ کے خلاف تحریک میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا تھا اور مضبوط مرکزکے نام پر آمریت مسلط کرنے کی ہمیشہ زبردست مزاحمت کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی وفاقی نظام کوکمزور کرنے کی مہم چلائی جاتی ہے تو سندھ اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوتا ہے۔ ایسے مواقع پر سندھ کو تقسیم کرنے کے نعرے بلند ہوتے سنائی دیتے ہیں۔ ان دنوں بھی ایسی ہی ایک صورتحال پائی جاتی ہے جس کے باعث سندھ کے عوام میں فطری طور پر غیرمعمولی تشویش نظر آتی ہے۔

اس صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے کبھی پریس کلب کے سامنے مظاہرہ ہوا اور کبھی کسی افطار پارٹی میں ملک میں غیر جمہوری قوتوں کو دیوار سے لگانے کے لیے عوام کے حق حاکمیت کو قائم کرنے کی بات کی گئی۔ برملا یہ کہا گیا کہ کٹھ پتلیاں جلد اپنا تماشا دکھاکرچلی جائیں گی اورملک پر جن ٹیکنوکریٹس کا راج ہے، وہ بساط لپٹتے ہی اپنا بوریا بستر سمیٹ کر ان ملکوں کو چلے جائیں گے جہاں سے درآمد کیے گئے ہیں۔ سندھ کے اہم سیاستدان شاہ محمد شاہ نے سابق صدر مملکت ممنون حسین، سابق گورنر سندھ محمدزبیر، سابق وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کے علاوہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) کے اہم رہنمائوں، نیشنل پارٹی کے صدر عبدالمالک بلوچ، سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان سردار ثناء اللہ زہری اور دوسرے اہم رہنمائوں کو اکٹھا کیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو پاکستان کے تمام مسائل کا حل جمہوریت میں ڈھونڈتے ہیں اور سندھ کی وحدت کو عزیز رکھتے ہیں۔

اس موقع پر سندھ کے بہت بڑے قومی رہنما اور پاکستان کے بانی جی ایم سید یاد آتے ہیں جنہوں نے سندھ کے اہم ترین شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کے اشعارکے حوالے سے ہمیں بتایا کہ شاہ صاحب سندھ کے جملہ باشندوں کو ہندو مسلم کی تفریق کے بغیر سندھی تصورکرتے تھے۔ اپنے کلام میں انھوں نے جن کرداروں کی ستائش کی ہے وہ بیشتر ہندو تھے۔ مثلاً رائے ڈیاج ہندو راجہ تھا، لاکھو پھلانی ’’کچھ‘‘ کا ہندو سردار تھا۔ رانا سوڈھا تھر کا راجپوت سردار تھا۔ مومل ہندو رانی تھی، سسی بھی ہندو قبیلے کی فرد تھی، ان ہیرو ہیروئنوں کے علاوہ اوڈ، جاڑیجا، ریباڑا یا ریباڑی، جوگی، بابو، سنیاسی اور آدیسی وغیرہ جن کا ذکر شاہ صاحب کے کلام میں جا بجا ہے وہ بھی سب ہندو تھے۔ شاہ صاحب نے اپنے قلم سے نہ محمد قاسم کی تعریف کی ہے نہ محمود غزنوی کی توصیف۔ان کے کلام میں ان کا یا ان جیسے دیگر فاتحین کا ذکر تک نہیں ہے۔

اورنگزیب یا کلہوڑوں کی مذہبی سیاست بھی اگر ان پر اثر انداز ہوتی توکم از کم ان کا نام وہ اپنے کلام میں ضرور شامل کرتے۔ مگر ایسا قطعی نہیں ہے۔ بلوچوں کی انھوں نے بے شک تعریف کی ہے۔ لیکن اس کی سب سے اہم وجہ صرف یہ ہے کہ بلوچوں نے کلہوڑوں سے اقتدار چھینا اور ان کی مذہب گردی کی بجائے ملک کے روادارانہ دستورکوکاروبار حکومت کی بنیاد ٹھہرایا۔ پورے کلام میں شاہ صاحب نے کہیں بھی کسی مولوی ملا کی ستائش نہیں کی۔ اس کے مقابلہ میں انھوں نے ہنگلاج جانے والے، گنگا نہانے والے اور سنکھ بجانے والے جوگیوں کو یاد کرکے اشک بہائے ہیں۔

آبادی کے جس طبقہ کی شاہ لطیف نے سب سے زیادہ ستائش کی ہے وہ طبقہ عوام کا ہے۔ جس میں سندھی، دہقانی، خانہ بدوش چرواہے، ڈُتھ (ایک قسم کی گھاس کے بیج) پر گزارا کرنے والے صحرائی، ماہی گیر، اپنے بنائے ہوئے اونی کمبل اور چادریں اوڑھنے والے، نیم برہنہ غریب اور جنگلوں، بیابانوں کے خستہ حال لوگ شامل ہیں۔ شاہ صاحب نے ان ہی عوام میں سندھ کی حقیقی روح جھلکتی دیکھی اور ان ہی کی مفلسی، خانماں بربادی ، جہالت اور مصیبتوں پر دکھ محسوس کیا اور آنسو بہائے۔ وہ سندھ اور عوام کے مستقبل کو ایک دوسرے سے وابستہ تصورکرتے تھے اور ان کے آلام و مصائب کو سندھ کی بپتا سمجھتے تھے۔اسی طرح وہ ان ہی کی آزادیوں اور ترقی میں سندھ کی بھلائی اور سرفرازی خیال کرتے تھے۔

ہر قوم کو دنیا کی تعمیر نو میں اپنا حصہ ادا کرنا ہے، شاہ صاحب کے تئیں سندھیوں کو بھی اس سلسلہ میں اپنا خاص کردار پیش کرنا ہے اور یہ بات جب ہی ہوسکتی ہے جب سندھی اپنی ہزاروں سال کی تہذیب کو جوکہ انھوں نے صدیوں کے تجربات کے نتیجے میں حاصل کی ہے، ترقی دے کر اوج کمال پر پہنچا دیں۔ وہ جانتے تھے کہ دنیا کی دوسری اقوام کے مقابلہ میں سندھی پسماندہ ہیں۔ ان کی معاشرت بدویانہ نوعیت کی حامل تھی اور قومی پیداوارکی سطح دوسروں سے بہت کم تھی لیکن اس کے باوجود انھیں قومی احساس کمتری سے محفوظ رکھنے کے لیے وہ سندھیوں کو اپنی ہرپسماندہ چیز پر فخرکرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ جب تک قوم میں خود شناسی اور خود داری کا جوہر پیدا نہ ہوگا اس وقت تک وہ اپنے پیروں پرکھڑا ہونے اور دنیا کو اپنا پیغام دینے کے قابل نہ ہوسکے گی اور سندھی دوسروں کی سیاسی، اقتصادی اور ذہنی غلامی میں گرفتار رہیں گے۔

سید صاحب نے سندھ کو اپنے نئے وطن کے طور پر اختیارکرنے والوں کو سندھیوں کی طرح ہمت سے کام لینے کا سبق دیا ہے۔وہ کہتے ہیں جو قوم خوف کی بیماری میں مبتلا ہوگی وہ آزادی حاصل کرسکے گی نہ ترقی۔ جہاں ایمان ہوگا وہاںخوف نہ ہوگا اور جہاں خوف ہو سمجھو وہاں ایمان نہیں ہے۔ خوف صرف بزدلی جہالت، احساس کمتری اور نا اتفاقی کی وجہ سے اپناسکہ جماتا ہے۔ جب کچھ مقامی خود پرست عناصر جبر وتشدد سے کام لے کر اپنے اقتدار کے لیے عوام کو دبا لیتے ہیں تو ایسے خود غرض عناصر کی باہمی کشمکش اورخانہ جنگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بیرونی عناصر پوری قوم کو اپنی دہشتگردی سے غلام بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اور عوام احساس کمتری اور خوف کی وجہ سے پست ہمت ہوجاتے ہیں۔ ان حالات میں ’’آزادی کی جدوجہد‘‘ ایسا کھیل نہیں ہوتا جسے بچے کھیل سکیں۔ اس راہ میں سرکو نیزے کی انی پر اچھال کر دو نیم کرنا ہوتا ہے۔

دہشت کے بے انت سمندروں کو تیر کر پارکرنا پڑتا ہے جن میں خوفناک موجیں، مدو جزر اور بھنور ہوتے ہیں۔ بڑے بڑے بیڑے ان میں پھنس کر غائب ہوجاتے ہیں۔ ہر طرف مگرمچھ، گھڑیال اور لاتعداد سمندری بلائیں منہ کھولے ہر شے کو ہڑپ کرنے کے لیے بے قرار ہوتی ہیں۔ یہ صورتحال بڑی نازک ہوتی ہے مگر مقصد سے جن کی لگن سچی ہوتی ہے اور جن کی ہمتیں بلند ہوتی ہیں وہ پار جا لگتے ہیں۔ جی ایم سید نے شاہ لطیف کے کلام کا سہارا لیتے ہوئے پرانے اور نئے سندھیوں کو تشدد سے حکومت کرنے والوںکے بارے میں کہا ہے کہ وہ دوسروں کے سامنے ہر گز سر نہ جھکائیں اور بلند حوصلگی سے مزاحمت و مقاومت کریں۔

آج عوام کومختلف بنیادوں پر تقسیم در تقسیم کرنے کی کوشش ہے۔ تقسیم کو ردکرتے ہوئے اور لوگوں کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے جی ایم سید ایک بار پھر شاہ کی شاعری کا حوالہ دیتے ہیں اور عوام کو آمروں اور آمروں کے بستہ داروں کی غلامی کا جوا اتارنے، خوف اور دہشت سے خشک ہو جانے والے حوصلوں کو عزم و یقین کی بارشوں سے سرسبز ہونے اور ذخیرہ اندوزوں اور چور بازاری کرنے والے موذیوں کا خاتمہ ہونے کی بشارتیں دیتے ہیں۔سندھ میں رہنے والوں اور سندھ کو اختیار کرنے والوں کے لیے شاہ کے کلام میں بہت سے بشارتیں ہیں۔ ان بشارتوں سے اپنا سینہ اور اپنی آنکھیں روشن کرکے ہی ہم سندھ کا اور اپنا مستقبل سنوار سکتے ہیں۔ تقسیم تو کبھی بھی مسائل کا حل نہیں رہی ہے، ہم حالیہ تاریخ میں اس کی مثالیں بھی دیکھ چکے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔