’’لوگ درلوگ‘‘

راؤ منظر حیات  پير 27 مئ 2019

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

ہفتہ پہلے فرخ گوئندی گھرآیا۔باتیں شروع ہوگئیں۔ترکی واپس جانے کی حتمی تیاریاں کر رہا تھا۔ بتانے لگا کہ اب چند مہینے ملاقات نہ ہو پائے گی کیونکہ یہ تمام وقت استنبول میں گزرے گا۔دراصل گوئندی اور ریما بھابھی نے وہاں ایک خوبصورت ٹھکانہ لے رکھا ہے۔ جب یہ دونوں کھرے لوگ پاکستان کی وحشتوں سے تنگ آجاتے ہیں، تو استنبول لوٹ جاتے ہیں۔ لاہور میں گوئندی کا ’’جمہوری پبلیکشنز‘‘ بدستور چلتا رہتا ہے۔ اس لیے کہ گوئندی نے کاروبار بھی نایاب طریقے سے کر رکھا ہے۔

پبلشنگ ہاؤس میں کام کرنے والے تمام لوگ، اس کے منافع اور نقصان میں شریک ہیں۔ کاروبار کرنے کا یہ ماڈل پورے پاکستان میں صرف گوئندی چلا رہا ہے۔ تمام ملازمین بھی مالک ہیں۔ گوئندی نہ بھی ہو تو کاروبار چلتا رہتاہے۔ گوئندی کاروبار کرنے کے لیے پیدا نہیں ہوا۔ پیسہ اس کے نزدیک بے معنی ہے۔ فرخ تو ’’انسانی حقوق‘‘ ، ’’قانون کی بالادستی‘‘ ،کمزور طبقے کے حقوق اورجدوجہد کے لیے پیدا ہوا ہے۔ اس کی ساری زندگی ایک جدوجہد ہے۔ گوئندی کو بڑے قریب سے دیکھا ہے، بہت کچھ سیکھا ہے۔ وہ سماج کے ان پہلوؤں پر غور کرتا ہے، جس پر نناوے فیصد لوگ بات نہیں کرتے۔ ’’پسے ہوئے لوگوں‘‘ کے متعلق جس بھرپور طریقے سے آواز اُٹھاتا ہے، کوئی نہیں اُٹھاتا۔ گوئندی جاتے جاتے اپنی کتاب ’’لوگ درلوگ‘‘ ہاتھ میں تھما گیا۔ کتاب کی تقریب رونمائی پر کوشش کے باوجود نہ جا سکا۔

اسلیے کہ مقامی دانشوروں کی باتیں سمجھ نہیں پاتا۔ شائد میری جہالت آڑے آ جاتی ہے۔ پھر جہاں بہت زیادہ لوگ ہوں، وہاں جم کر گفتگو نہیں ہو سکتی۔ ویسے بھی کافی عرصے سے تنہائی پسند ہو چکا ہوں۔ کتابیں، مطالعہ اور چند پرانے دوست۔ یہی اب میرا طرز ِزندگی ہے۔ ویسے گوئندی بھی حد درجہ اکیلا انسان ہے۔ جس مضبوطی سے ریما بھابھی نے گوئندی کا ساتھ دیا ہے، وہ بھی حد درجہ قابل تعریف ہے۔ بھابھی، لبنان کے ایک بہت آسودہ خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ بلا کی ذہین  ہیں۔ گوئندی پر ریما بھابھی کا بے حد مثبت اثر ہے۔

جب گوئندی نے کتاب میرے حوالے کی، تو بے ساختہ کہا کہ آج رات تو اسکو پڑھنے میں گزر جائے گی۔ ایسے ہی ہوا۔ تقریباً رات میں کتاب کو پڑھ لیا۔ اگلے دو چار دن، دوبارہ پڑھنے بلکہ سمجھنے میں گزر گئے۔ مضامین کی فہرست پڑھ کر پہلی بار اندازہ ہوا کہ گوئندی کس کس سطح کے اہم ترین قائدین کے ساتھ وقت گزارتا رہا ہے۔ ترکی کے وزیر اعظم جناب بلند ایجوت کی بابت تو معلوم تھاکہ گوئندی کے انتہائی قریبی دوست تھے۔ مگر مضامین کی فہرست سے اندازہ ہوا کہ اس خوش بخت نے تو بھٹو سے لے کر اندر کمار گجرال، خشونت سنگھ سے لے کر ڈاکٹر انور سجاد اور حنیف رامے سے لے کر اُردن کے شاہ حسین سمیت، تقریباً دنیا کے انتہائی اہم لوگوں سے واسطہ رکھا ہوا تھا۔ گوئندی کی زندگی پر اگر کسی سیاسی شخصیت کی چھاپ ہے تو وہ صرف اور صرف ذوالفقار علی بھٹو تھا۔ بھٹو اس کی سوچ کا پہلا اور آخری عشق تھا۔

’’میں نے بھٹوکو دیکھا‘‘، اس کتاب کا پہلا مضمون ہے۔ گوئندی نے لکھا ہے کہ، ’’بھٹو، لاہور اور پاکستان، فروری1974ء کو وہ جس قدر خوش تھے، شائد وہ کبھی اتنے خوش نہ ہوئے ہوں گے۔ اس روز بھٹو، لاہور اور پاکستان اسلامی دنیا کے میزبان بنے۔ بتائیں اس سے بڑی خوشی کوئی ہو سکتی ہے۔

میں نے اس لاہور کی سڑکوں پر یاسر عرفات، شاہ فیصل، انور سادات، الجزائر کے بومدین، شیخ مجیب، مفتی اعظم امین الحسینی، عیدی امین، اور ساری مسلمان دنیاکے لیڈروں کے ہمراہ بھٹوکودیکھااوراسی اسلامی کانفرنس میں انھیں یہ کہتے دیکھااورسنا’’ہم بیت المقدس ایک فاتح کی حیثیت سے داخل ہوںگے،چاہے اس کے لیے میری جان ہی چلی جائے‘‘۔انھوں نے عدالت سے اپنے آخری خطاب میں کہا،’’آپ بھی جانتے ہیں کہ یہ سب عدالتیں کیوں سجائی گئی ہیں۔مسئلہ میری جان نہیں،معاملہ کچھ اورہے۔پاکستان آج وہ طاقت حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکاہے،جس کے لیے انڈیا نے بیس سال لگادیے‘‘۔میرے مخالفوں نے مجھے کافر،میری والدہ،میری بیوی اورمیرے بچوں کی کردار کشی کی مگرمیں نے برداشت کیا۔اب وہ میری عوام کو گالی نکالنے لگے ہیں،نہیں میں یہ برداشت نہیں کر سکتا، میں کبھی معاف نہیں کرسکتا‘‘۔

’’بینظیربھٹو‘‘سے’’پہلی ملاقات‘‘ میں گوئندی 1977 کے اس پاکستان کی طرف کھل کربات کرتاہے جسکوآج لوگ بھول چکے ہیں۔’’پورے ملک پرسکوت طاری تھا۔آمریت نے ’’امن کی فضا‘‘کچھ ایسی مسلط کردی تھی کہ ہرطرف ہوکاعالم تھا۔کہیں کہیں کسی شہرکی گلیوں میں چندایک نوجوان اکٹھے ہوتے اورنعرہ بلندکرتے ’’بھٹو کورہا کرو‘‘ ’’جمہوریت بحال کرو‘‘توانکوپولیس کی وردی میں ملبوس نوجوان دبوچ لیتے۔فوجی عدالت انھیں فٹافٹ ’’دس دس کوڑے اورپانچ پانچ سال قید‘‘کی سزاسنا دیتی۔ یہ ایک نیاپاکستان تھا‘‘۔’’اس لیڈرکی بیٹی کے پہلومیں کھڑایہ نوجوان کئی خواب دیکھ رہاتھا۔جب آنسہ بینظیر بھٹونے تقریرختم کرلی توایک کارکن اپنے قائدکی بیٹی کے کان میں کچھ سرگوشی کررہاتھا۔فرطِ جذبات میں اس کی  آنکھیں پُرنم ہوگئیں۔

سرگوشی کرنے والایہ محنت کش چند روزبعد لاہورمیں احتجاج کررہاتھا۔سرکلرروڈسے داتا صاحب اورشاہ عالمی تک اس احتجاجی کواس کے دوسرے ساتھی کے ہمراہ گرفتارکرنے کے لیے پولیس ناکہ لگاچکی تھی۔ عبدالرشیدعاجزاوریعقوب پرویزمسیح کہ دونوں نے یہ اعلان کیاتھاکہ بھاٹی دروازے کے سامنے بھٹوکی رہائی کے لیے خودسوزی کرینگے۔ہرطرف ہُوکا عالم تھا۔ سناٹا تھا کہ وہ دونوں نوجوان ’’بھٹوکو رہا کرو‘‘کے نعرے بلند کرتے ہوئے آئے اورمیرے سامنے یکایک شعلوں میں بدل گئے۔جلتے جسم راکھ ہوئے۔اس محنت کش عبدالرشیدکی سرگوشی جووہ ذوالفقارعلی بھٹوکی بیٹی کے کان میں کچھ کہہ رہاتھا،اب پورے ملک میں خبربن چکاتھا۔سناٹے میں خبرکہ ذوالفقارعلی بھٹوکے دو جیالوںنے خودکونذرِآتش کرلیا‘‘۔

’’جوش اورمایوسی کی عجیب کیفیت۔جن کا رہبر پابند سلاسل ہو،وہی اس کیفیت کوسمجھ سکتے ہیں۔آنسہ بینظیر بھٹونے نیلے رنگ کی شلوارقمیص پہن رکھی تھی۔وہ گھرکے اندرسے نکلیں تو جیالوں نے نعرے بازی شروع کر دی۔ گھرکے باہردوتین سوپولیس والے بمعہ درجنوں خفیہ والوںکے جمع تھے جوگھرکے اندرموجودلوگوں کے نام جاننے کے لیے بے چین تھے۔مجھے اس جدوجہدمیں بھرپور طریقے سے شامل ہونے کاجنون تھا۔ آنسہ بینظیرگھرکے اندرسے لان میں آگئیں۔قیوم نظامی نے ان چند جیالوں سے خطاب کے لیے ایک کرسی آنسہ بینظیربھٹوکے سامنے رکھ دی اوروہ اس پرچڑھ کرخطاب کرنے لگیں۔ ’’ہمیں جنرل ضیاکی آمریت کے خلاف بھرپور جدوجہد کرناہوگی،ملک سے مارشل لاء کے خلاف ، جمہوریت اور آئین کی بحالی،فوجی آمریت کے خلاف جدوجہد کو تیز کرناہوگا۔اس فوجی ڈکٹیٹرکوذوالفقارعلی بھٹو کو رہاکرنا ہوگا‘‘۔ایک نہتی لڑکی ایک فوجی آمرکوللکاررہی تھی‘‘۔

’’سفرکی کہانی‘‘میں گوئندی نے ایک برطانوی خاتون مریناوہیلرکے متعلق بہت اہم باتیں لکھی ہیں۔ مرینابذاتِ خودملکہ برطانیہ کی وکیل اوران کے شوہربورس جانسن برطانیہ کے وزیرخارجہ تھے۔گوئندی کاتعلق سرگودھا سے ہے اورمریناوہیلرکی سکھ والدہ بھی اسی شہرسے تعلق رکھتی تھیں۔گوئندی نے مریناکوسرگودھامیں پرانے گردوارے دکھائے جن میں سے ایک امام بارگاہ بن چکی تھی ۔

’’ابدی نیندسوئے ہوئے دوست سے ملاقات‘‘ میں گوئندی درج کرتاہے۔اور’’میرے سفر،اب پیچھے مڑکردیکھتاہوں تویقین نہیں آتاکہ اس سیاسی جہاں گردی میں مجھے کیسی کیسی ہستیوں سے ملاقاتوں کا شرف ہوا اورکئی دوستیوں میں بدل گئیں۔مشرقی تیمورکےJose Ramos Horta،حسنین ہیکل، پیلومودی، رمزے کلارک،اردال اِنونو(عصمت اِنونوکے بیٹے)،جمال نکرومہ(مشہورافریقی رہنماکوامے نکرومہ کے بیٹے)، اُردن کے شاہ حسین،پرنس حسن بن طلال،ایک طویل فہرست ہے۔لیکن ایسی دوستی جومحبت میں بدل گئی،یہ دوستی ترکی کے چارمرتبہ وزیراعظم بننے والے مرحوم بلندایجوت سے ہے۔ایک ایسی محبت جوعزت اور احترام سے لبریز ہے۔اعتمادکاایک ناقابل یقین تعلق۔ ایک درمیانے طبقے کے نوجوان کی دوستی ایک سابق وزیراعظم سے،جواَسی کی دہائی میں فوجی آمریت کے دنوں میں آئین کے تحت دس سال سیاست کرنے سے محروم کردیاگیا۔ساٹھ،ستر،اَسی اورنوے کی دہائیوں تک اپنے ملک کے مقبول ترین رہنما کااعزازرکھنے والی شخصیت جواپنی وفات کے بعداپنی شفافیت کے حوالے سے مشرقِ وسطیٰ اور یورپ میں ترکی کی سب سے قابل احترام سیاسی شخصیت کے طورپرجانی جاتی ہے‘‘۔

’’لوگ درلوگ‘‘پڑھتے پڑھتے،رات کیسے گزری، پتہ نہیں چلا۔مگراس وقت سے یہ بھی سوچ رہاہوں،کہ یہ فرخ سہل گوئندی،دراصل ہے کون۔کیاہے۔ایساکیوں ہے۔میرے پاس اس سوال کاکوئی جواب نہیں ہے۔ شائدگوئندی ایک مزاحمتی درویش ہے یاشائدکچھ اور؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔