تیل دیکھیے اور تیل کی دھار

کشور زہرا  پير 27 مئ 2019

جنوبی ایشیاء میں بدلتے ہوئے سیاسی اور معاشی حالات خطے میں موجودکئی ارب انسانی زندگیوں کو تبدیل کرنے کی طرف گامزن ہیں۔ یہ تبدیلیاں رونما ہونے والے مستقبل کے حالات سے نبرد آزما ہونے جا رہی ہیں یا یوں کہہ لیجیے کہ شاید اب موت کو معمول اور موت بنا آہٹ نہیں بلکہ موت کے رقص کی جھنکار فضاؤں میں سنائی دے ر ہی ہے۔ میرا اشارہ سمندرکی لہروں کے اوپر اور نیچے پہنچنے والے انتہائی خطرناک جنگی سازوساما ن سے لیس جہازوں اورآبدوزوں کی متوقع آمد اور نئے کھیل میں بیرونی سپاہی کھلاڑیوں کے نمودارکردینے والی خبروں کی طرف ہے۔

نہ جانے یہ صدیوں پرانی مثال کیوں آج بھی میر ے ذہن میں گونج رہی ہے جو میں نے بچپن سے اپنے بزرگوں کی زبانی سنی تھی کہ ’’ تیل دیکھیے اور تیل کی دھار‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ اس مثال میں افادیت بہت ہے جس کی وجہ آج بھی تیل اوردھار نے پوری انسانی معیشت کو اپنے گرد پھینٹ رکھا ہے۔ بین الاقوامی تنظیم جو مالیاتی معاملات کی نگرانی اور پڑتال پر نظر رکھتی ہے۔ (فیٹف)کی جانب سے جاری کی جانے والی مالی حد بندیاں اور اس کے جانچ پڑتال کے پیمانے پوری آب وتاب کے ساتھ نافذ العمل کروا دیے گئے ہیں۔ظاہر ہے کہ ایسی بین الاقوامی پابندیوں کے خلاف کس میں ہمت ہے کہ وہ ان سے روگردانی کر ے جب کہ ملک کی معیشت بھی سسک رہی ہو۔

جب کہ ایک جانب سرمایہ کار فکرمند ہو اور صنعتکارانڈسٹری کا پہیہ رواں رکھنا چاہتا ہو۔امیرآدمی اپنی دولت کو ملکی معیشت میں داخل کرنے پرگامزن ہونا چاہتا ہو، لیکن ایسے میں مختلف قسم کی پابندیاں اس کی راہ میں آگے آرہی ہوں تو یقینا ملک کی مجموعی پیداوار میں کمی کا آنا ایک فطری امر ہوگا اور ملکی ادارے اس کی را ہ میں جگہ جگہ روڑے اٹکا رہے ہوں تو مایوسی ضرور پیدا ہوتی ہے جس کے نتیجے میں غربت اور بے روزگاری کا بڑھ جانا یقینی ہے اور جب حالات ایسے ہوں جہاں بجلی،گیس اور تیل کی قیمتوں کے علاوہ گھریلو اشیاء بھی عام آدمی کے بجٹ سے باہر ہوتی جا رہی ہوں ایسے میں قومی یکجہتی، ملکی سالمیت اور بین المذاہب ہم آہنگی کا قائم رہنا ایک سوالیہ نشان نظرآتا ہے۔

احتساب کے ادارے جب زیادہ متحر ک ہوجائیں تو تجوریوں کو قفل لگ جاتے ہیں، جہاں ایک جانب سست معاشی ترقی والے ترقی پذیر ملکوں میں پڑی یہ کرنسی Decline کی طرف جا رہی ہوتی ہے تو مضبوط اور طاقتورکرنسی اڑان بھر رہی ہوتی ہے جس میں قرض دینے والے اپنی شرائط من وعن تسلیم کرواتے ہیں۔ ظاہر ہے مقروض فطری مجبور بھی ہوتا ہے ایسے میں ایجاب وقبول کرکے نہ صرف خود کو پشیمان کرتا ہے بلکہ قوم کو بھی حیران وپریشان کرکے خوشی کی نوید سناتا ہے کہ’’ قرض ‘‘ منظور ہوگیا۔  پاکستان کے لیے عصرحاضرکی گھڑی ہے کیونکہ جن حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ لحمہ فکریہ ہیں۔

موجودہ تناظر میں داخلی وخارجی، معاشی اور عالمی میدان میں سنگین چیلنجزکا مقابلہ کی نوید ہے اس کے لیے قومی یکجہتی اور معاشی استحکام ہی ہمیں اس صورتحال سے نکالنے میں معاون ہونگے لیکن ایک طرف احتساب اور نظام عدل کی طرف سے کیے گئے بعض فیصلوں سے عام آدمی میں بے چینی اور عدم یقینی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے عام عوام پر عدالتی اور قانونی اثرات کا یکدم مرتب ہونا اوردوسری جانب امیر یا بااثرشخصیات پر سزا لیکن نرمی کے ساتھ۔ شرح مبادلہ کے توازن نے عام آدمی سے لے کر بڑے بڑے سرمایہ کاروں اور صنعتکاروں کو فکرمندکر رکھا ہے وہیں ملکی روپے کی گرتی ہوئی شرح نے مہنگائی کے سیلاب سے بے روزگاری میں اضافہ اور پس ماندگی کو تیزی سے چند ہفتوں میں بڑھا دیا ہے۔

اسٹاک مارکیٹ کے توازن نے بھی اپنے سرمایہ کاروں میں بے چینی پیدا کر رکھی ہے اور جس کے نتیجے میں معیشت غیر مستحکم ہوتی رہی ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری آج کل کے حالات میں نہ ہونے کے برابر ہوچکی ہے ویسے بھی بعض مقدمات انٹرنیشنل کورٹ میں زیر سماعت ہونے سے ریاستی اداروں پر اب غیر ملکی اعتماد کم ہوتا دکھائی دیتا ہے جو بیرونی سرمایہ کاروں کے اندر پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے ایک سوالیہ نشان ضرور سمجھا جا رہا ہوگا۔1947 میں متحدہ پاکستان کے پاس کئی بندرگاہیں تھیں بد قسمتی سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد اب ملک کی واحد بندرگاہ کراچی پورٹ پورے ملک کی ذریعہ معاش اور اکلوتی کماؤ پوت ہے۔کراچی جیسے ساحلی شہرکے جہاں فوائد ہیں، وہیں نقصانات بھی ظاہرہے کسی بیرونی جارحیت کا نشانہ سب سے پہلے اس کے ملک کی بندرگاہ ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں اس شہرکے رہنے والے جانی، مالی ومعاشی طور پر براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔

یاد رہے ہمار ے ملک کی معیشت کا سارا دارومدارکراچی سے حاصل ہونے والے ستر فیصد سے زائد ٹیکس آمدنی سے ہوتا ہے جو پورے ملک کی GDP میں 70 سال سے سب سے آگے ہے۔ لہذا میری گزارش کراچی کے شہریوں کی جانب سے ارباب واقتدار اور مقتدرحلقوں سے یہ ہے کہ حکمت عملی میں دن و رات کے اعتبار سے تبدیلیاں کی جائیں تاکہ یہ روشن ساحلی شہر اپنی آب وتاب کو قائم رکھ سکے۔ میری تجویزہے کہ موجودہ ایمنسٹی اسکیم میں ردوبدل کرکے اسے عام عوام، صنعتکاروں، سرمایہ کاروں اور مملکت کے لیے فائدہ مند بنایا جائے۔ مثال کے طور پر یعنی کسی کے پاس ایک کروڑ روپے ہیں جو اس نے ظاہر نہیں کیے تو وہ بیس افراد کو پانچ لاکھ روپے فی کس قرض دے کر ایمنسٹی میں شامل ہوجائے جو بذریعہ FBR ہو لہذا ایسے میں فیڈرل بورڈ آف ریوینو کو بھی کوئی ایسا میکنیزم تیارکرنا چاہیے جو بے روزگاری کے خاتمے میں مدد فراہم کرسکے۔ اس فیصلے سے جہاں بے روزگاری اور غربت میں کمی آئے گی وہیں حکومتی بینکوں میں اضافی رقم بھی آسکتی ہے جو قومی خزانے کی کمی کو پورا کرنے میں مدد گار ثابت ہوگی ۔

یہ ایمنسٹی اسکیم تین طرح سے فائدہ مند ہوسکتی ہے۔ بے روزگار افراد کو براہ راست فائدہ پہنچے گا، حکومتی بینکوں میں سرمائے کا بڑھ جانا اور حکومت کا بے روزگاروںکو ملازمت یا کاروبارکے لیے قرضہ فراہم کرنا جو حکومتی وعدہ ہے پورا کرنے میں مدد ملے گی اور ایک بات یہ کہ نئے ٹیکس دہندہ بھی سامنے آئیں گے۔ چند سالوں سے متواتر احتساب ،کرپشن جیسے الزامات میں شامل کرکے یا ان سے منسلک کرکے یا کرواکے ملک کی نامور شخصیات اورکارپوریٹ سیکٹر سے تعلق رکھنے والے دیگرعہدیداران اورمالکان کو قانونی گرفت میں لایا گیا ہے یا لایا جا رہا ہے ایسے میں الزامات کا ثابت کرنا اداروں کا کام اور ان پر فیصلہ دینا عدلیہ کا کام ہے لیکن اس پس منظر میں ایک بات جو ہر طبقہ فکر میں زبان زد عام ہوچکی ہے وہ ہے زندگی، عزت اور مال کا عدم تحفظ ظاہر ہے کہ انھی تین چیزوں کے گرد سب سے زیادہ ضرورت تحفظ کی ہوتی ہے جوکم سے کم ہوتا جارہا ہے۔

ایک چیز اور جو ہمارے معاشرے میں تیزی سے سرائیت کرتی چلی جا رہی ہے وہ ہے محض الزامات اور یہ ہی وہ نکتہ ہے جو سب سے زیادہ بدگمانی اور بیزاری پیدا کرتا ہے۔جس کے رد عمل میں دشمن فائدہ اٹھانے اور ریاست کو نقصان پہنچانے کی سعی میں لگا نظر آتا ہے ۔لہذا ضرورت اب اس امرکی ہے کہ اخلاقیات اور دینی ہدایات کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی کی عزت نفس کو سر راہ پارہ پارہ کرنے کے بجائے تدبر اور تدبیرکے ذریعے عوام ملک اور ریاست کو سہولت فراہم کی جائے جو ہر لحاظ سے مملکت کو فائدہ پہنچائے۔ جس کے ثمرات عوام تک پہنچیں جو خوشحالی اورترقی کی مثال بن کر سامنے آئیں۔عجلت میں کی ہوئی سزا اور جزاء دونوں نقصان دہ ہوسکتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔