بھارت میں سیکولر ازم کی شکست

زمرد نقوی  پير 27 مئ 2019
www.facebook.com/shah Naqvi

www.facebook.com/shah Naqvi

بھارتی انتخابات سات مرحلوں میں مکمل ہوئے جس میں ایک مہینے سے زیادہ عرصہ لگا۔ 23 مئی کو ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے پر بی جے پی اتحاد نے350 نشستیں جیت لیں جب کہ کانگریس کو بدترین شکست کا سامنا کر نا پڑا۔ لیکن موجودہ شکست 2014 کے انتخابات سے پھر بھی کچھ بہتر ہے جس میں کانگریس نے صرف 44 نشستیں حاصل کی تھیں۔ بھارت جیسے وسیع عریض ملک میں انتخابات کا طویل دورانیہ ہونے کے باوجود کہیں سے دھاندلی کی شکایت نہ آئی۔ کانگریس سمیت اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے اس بدترین شکست کو کھلے دل سے قبول کرنے میں ذرا سی بھی تاخیر نہیں کی۔ راہول گاندھی نے کہا کہ عوام مالک ہیں اور مالک نے آرڈر دیا ہے تو یہ وقت اپوزیشن کرنے کا نہیں نریندر مودی کو مبارکباد دینے کا ہے ۔

نریندر مودی نے حالیہ الیکشن میں اپنی جیت کو بھارت کی جیت قرار دیتے ہوئے کہا کہ بھارت کے عوام نے یہ الیکشن جیتا ہے۔ یہ غلط بھی نہیں۔ بھارتی عوام نے سیکولرازم کو مسترد کرتے ہوئے مذہبی قوم پرست بی جے پی کو ووٹ دیا ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارتی مسلمان ہوں یااُن کے سیاسی مذہبی لیڈر سب سیکولرازم کی تعریف میں رطب اللسان رہتے ہیں جب کہ پاکستان میں مذہبی طبقہ سیکولرازم کو لادینیت قرار دیتے ہوئے سادہ لوح عوام کو اس سے ڈراتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ نریندر مودی کی جیت سے مذہبی قوم پرست شدت پسندی مزید بڑھے گی ۔

بھارتی الیکشن میں کامیابی کے بعد نریندر مودی واضح اکثریت حاصل کرنے والے نہرو اور اندرا گاندھی کے بعد تیسرے وزیر اعظم بن گئے ہیں۔ بی جے پی اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک الائنس نے350 نشستیں جیت لی ہیں جس میں صرف بی جے پی کی300 نشستیں ہیں۔ حکومت بنانے کے لیے کسی بھی پارٹی کو272 نشستیں درکار ہیں، یعنی اتحادی پارٹیاں نریندر مودی کی کمزوری نہیں ہیں ۔ جب کہ بی جے پی نے2014کے الیکشن میں 282 نشستیں جیتی تھیں۔ موجودہ نشستیں گزشتہ انتخاب سے18 زیادہ ہیں۔ دہلی میں عام آدمی پارٹی کو ایک بھی سیٹ نہ مل سکی۔ جب کہ کانگریس کو 12 ریاستوں میں ایک بھی سیٹ نہ مل سکی۔ اس دفعہ ووٹنگ ٹرن آؤٹ 67 فیصد رہا جو بھارتی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے۔

بھارت میں ہونے والے الیکشن نتائج نے امریکی ماہرین کو کسی حیرانی کا شکار نہیں کیا۔ انھیں یقین تھا کہ یہ الیکشن بی جے پی ہی جیتے گی اور نریندر مودی دوبارہ وزیر اعظم بنیں گے۔ دلیل انھوں نے یہ دی ہے کہ جب ملک کے تمام ادارے بی جے پی کو جتوانے کے لیے سرگرم ہوں اورکچھ غیر ملکی قوتیں بھی نریندر مودی کو دوبارہ وزیراعظم دیکھنا چاہتی ہوں تو نتیجہ یہی نکلنا تھا ۔ ایک امریکی تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ اس انتخاب میںمودی لہر نے سب کو بہا دیا ۔ ایک اور امریکی تجزیہ کار نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ امریکا اور اسرائیل مودی کو دوبارہ وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہیں ۔ سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیوں؟

اس لیے کہ بھارت چین کے خلاف امریکا کا اسٹریٹجیک پارٹنر ہے اور اس کے عوض بھارت اسرائیل کے ساتھ ملکر ہمارے خطے کا کنٹرول سنبھال لے گا۔ نہ صرف یہ بلکہ بھارت امریکا کے ساتھ ملکر چین، روس، ایران، پاکستان پر مشتمل اتحاد کو وجود میں آنے سے روکے گا جس کا مقصد خطے میں امریکا اجارہ داری کو روکنا ہے۔ اگر یہ اتحاد وجود میں آتا ہے تو امریکا کا نیو ورلڈآرڈر ٹوٹ جائے گا۔

پچھلے سا ل نومبر میں بی جے پی ریاستی انتخاب میں ہار رہی تھی، پھر ایسا کیا ہوا کہ ہوا کا رخ مودی کے حق میں ہو گیا۔ گزشتہ سال فروری میں سعودی ولی عہد کے دورے سے عین پہلے پلوامہ حملہ ہوا ۔ سوال یہ ہے کہ پلوامہ حملہ ہوا۔۔۔ یا کرایا گیا ؟ پلوامہ حملے سے پاک بھارت ایٹمی جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے۔ یہ حملہ نریندر مودی کے لیے خیر مستور ثابت ہوا کہ مودی نے الیکشن سے پہلے پلوامہ حملے کو استعمال کرتے ہوئے بھارتی عوام کے دل و دماغ کو پاکستان دشمنی سے بھر دیا جس کا نتیجہ لینڈ سلائیڈ وکٹری کی شکل میں نکلا۔ ایسی مہربانیاں بلاوجہ نہیں ہوتیں جو ہمارے خطے میں عالمی سامراجی ایجنڈے کی تکمیل میں مدد گار ہوں۔

مسلم دنیا کے لیے اس سے بڑا صدمہ کیا ہو گاکہ بھارت میں آج  20 کروڑ سے زائد مسلم آبادی کا ووٹ بینک غیر موثر ہو گیا ہے۔ جیسے جیسے پاکستان میں مذہبی شدت پسندی بڑھتی گئی ویسے ویسے بھارت میں بی جے پی کی مقبولیت بھی بڑھتی چلی گئی۔ یعنی ضیاء الحق کی مذہبی شدت پسندی نے آج یہ دن دکھائے کہ مسلمان بھارت میں سیاسی طور پر اچھوت بن گئے۔ کانگریس ، بی جے پی سمیت کوئی بھی جماعت ہندو اکثریت کے خوف سے مسلم ووٹر کو منہ لگانے کو تیار نہیں ۔ پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کا رد عمل بھارت میں ہندو بنیاد پرستی کی شکل میں نکلا۔ حالانکہ آر ایس ایس ہوچکی تھی لیکن 1980  کی دہائی ضیاء الحق دور نے بی جے پی کو نئی زندگی دی۔ پھر اس کی مقبولیت بڑھتی ہی چلی گئی یہاں تک کہ 2014 کے انتخابات میں ہندو بنیاد پرستی پورے بھارت پر چھاگئی اور وہاں سیکولرازم کا جنازہ نکل گیا۔ موجودہ انتخاب نے اس کے کفن دفن کا بندوبست بھی کر دیا ہے۔

رہے نام اللہ کا ۔۔۔۔ ہمیں حکمران طبقوں کو سلام کرنا چاہے ۔

پچھلے سال اور اس سال کے آغا زمیں کہا تھا کہ برطانوی وزیر اعظم تھریسامے مئی میں استعفیٰ دے سکتی ہیں اور ایسا ہی ہوا ۔

پاک بھارت تعلقات کا مستقبل کیا ہے اس کا پتہ جولائی ، اگست تا اکتوبر نومبر میں چلے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔