جھوٹ اور فاشزم کی فتح ؟

تنویر قیصر شاہد  پير 27 مئ 2019
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

بھارتی پارلیمانی انتخابات میں کٹر ہندو نظریات کی حامل پارٹی ، بی جے پی ، اور نریندر مودی کو تاریخ ساز انتخابی کامیابی ملی ہے۔انتخابات کے دوران بی جے پی کے دو مقبول نعرے تھے: ’’پھر ایک بار ، مودی سرکار‘‘ اور ’’مودی سرکار ، اکیلے تین سو پار۔‘‘ مخالفین ان نعروں کا مذاق اڑاتے تھے۔ اب نتائج سامنے آئے ہیں تو معلوم ہُوا ہے کہ مودی جی اور اُن کے اتحادیوں کو اپنی فتح پر یقینِ کامل تھا۔ اُنہوں نے لوک سبھا ( قومی اسمبلی)کی کُل 542سیٹوں میں سے 350سیٹیں جیت لی ہیں۔ مودی کے حریف ،راہل گاندھی،  اور 20جماعتی اپوزیشن اتحاد نے خوش دلی سے اپنی شکست تسلیم کر لی ہے ۔ہمارے وزیر اعظم ، عمران خان ، کو بھی یہی توقع تھی ۔عمران خان اب مودی کو بذریعہ ٹویٹ اس شاندار کامیابی پر مبارکباد بھی دے چکے ہیں۔

بھارت بھر میں جتنے بھی ایگزٹ پول سامنے آئے، سب یہی پیشگوئیاںکر رہے تھے کہ بی جے پی اپنے اتحاد، این ڈی اے، کے ساتھ بھاری اکثریت سے کامیاب ہو کر دوباہ اقتدار میں آ رہی ہے۔ یہ بھی قیافے لگائے گئے کہ بی جے پی اکیلی ہی 300 سے زائدسیٹیں لے کر سامنے آ رہی ہے ۔ مکمل نتائج سامنے آئے ہیں تو حیرت ہورہی ہے کہ ایگزٹ پول کے نتائج کسقدر درست تھے ۔ دراصل بی جے پی نے اپنی فتح کے حوالے سے بھارت کے سب سے گنجان صوبے، اُتر پردیش، سے اونچی توقعات وابستہ کررکھی تھیں کہ اگر یہ صوبہ ہمارے ہاتھ لگ گیا تو سمجھئے ہمیں دوبارہ حکومت بنانے سے پھر کوئی نہیں روک سکتا ۔ اُترپردیش ریاست کے وزیر اعلیٰ، یوگی ادتیہ ناتھ ، کٹر بنیاد پرست ہندو ہونے کے ساتھ ساتھ بی جے پی اور آر ایس ایس کے لڑاکا سیاستدان ہیں ۔

بی جے پی کی فتح میں جن عناصر نے اساسی کردار ادا کیا ہے ، اُن میں سے نمایاں کچھ یوں ہیں : پلوامہ خود کش حملہ ،پاکستان میں بالا کوٹ پر بھارتی جنگی جہازوں کے حملے کے پس منظر میں بولا گیا بے تحاشہ جھوٹ ، ہندوتوا یعنی ہندو مذہبی بنیاد پرستی، دولتمند بھارتی صنعتکاروں کا فراہم کردہ اربوں روپے کا چندہ اور مسلمانوں کے خلاف منفی پروپیگنڈہ۔ بنیاد پرست ہندوؤں کے دل جیتنے کے لیے نریندر مودی نے تو الیکشن کے آخری دنوں یہ بھی ڈرامہ رچایا کہ کیدر ناتھ اور بدری ناتھ کے منادر میں پناہ لے لی۔ یہ دونوں مندر ہمالہ کی سیکڑوں فٹ یخ بستہ بلندیوں پر قائم ہیں اور ہندوؤں کے نزدیک بے حد مقدس سمجھے جاتے ہیں ۔ پروپیگنڈہ باز بھارتی میڈیا کو مودی کی وہ فوٹو جاری کی گئی جس میں یہ نظر آ رہا تھا کہ وہ گیروے رنگی چادر کی بُکل مارے ان مندروں کی ایک غار میں ’’عبادت‘‘ اور ’’گیان دھیان‘‘ میں یوں مگن ہیں کہ عالمِ استغراق میں اُن کی آنکھیں بند ہیں۔ اس فوٹو نے بھی مودی کی جیت میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔

تازہ بھارتی انتخابات میں تین خواتین سیاستدانوں نے بی جے پی ، آر ایس ایس اور نریندر مودی کو بڑا ٹف ٹائم دیا ہے ۔یہ خواتین تھیں: کانگریس پارٹی کی پریانکا گاندھی، ترنمول پارٹی کی چیف ممتا بینر جی اور بھوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایا وتی۔ کانگریس نے اندرا گاندھی کی پوتی اور راجیو گاندھی کی بیٹی، پریانکا گاندھی، کو پہلی بار سیاسی و انتخابی میدان میں اُتارا۔ اُنہیں پوری تیاری اور توقعات کے ساتھ حصہ لینے کے مواقعے فراہم کیے گئے ۔ اُمیدیں لگائی گئی تھیں کہ پریانکا گاندھی کی پُر کشش اور سحر انگیز شخصیت سے نہرو خاندان اور کانگریس کو خاطر خواہ فائدے ملیں گے ۔ ایسا مگر ہو نہیں ہو سکا ہے ۔ کانگریس کو 2014 کے انتخابات کے مقابلے میں اگرچہ10سیٹیں زیادہ ملی ہیں لیکن وہ فاتح جماعت سے بہت پیچھے ہے ۔

اور یوں بھارت کے سابق دو وزرائے اعظم کا پوتا اور بیٹا، راہل گاندھی، بھارتی وزیر اعظم بننے میں ناکام رہا ہے۔  پریانکا کو خاص طور پر اُتر پردیش کے مشرقی حصے کی انچارج بنایا گیا تھا ۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ موصوفہ کھل کر انتخابی مہمات میں حصہ لینے سے گریز کرتی رہیں۔ اس کا نقصان پوری کانگریس پارٹی کو ہُوا ہے ۔ راہل اور پریانکا گاندھی کی اطالوی نژاد والدہ، سونیا گاندھی ، کو یقیناً بڑا دھچکا لگاہے ۔ پریانکا گاندھی کے ساتھ ساتھ مغربی بنگال کی جنگجو وزیر اعلیٰ، ممتا بینرجی ، نے مودی کے سامنے کامیابی سے مزاحمت کی ہے ۔ ممتا بینر جی اور مودی جی کے درمیان پورے انتخابات کے دوران نہائت افسوسناک لفظی جنگ جاری رہی۔ دونوں نے کھل کر ایک دوسرے کے خلاف قابلِ اعتراض زبان بھی استعمال کی۔ مودی جی کے الفاظ نسبتاً زیادہ معیوب قرار دئیے گئے ؛ چنانچہ ممتاز بھارتی اخبار ’’دی ہندو‘‘ نے اِسی پس منظر میں ایک بڑا معنی خیز کارٹون بھی شائع کیا ۔کہا جا رہا ہے کہ مودی جی نے یہ انتخابات کذب گوئی اور فاشزم کی بنیاد پر جیتے ہیں۔ اڈولف ہٹلر نے بھی جھوٹ اور فاشزم کی بنیاد پر انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کی تھی ۔

نوین پٹنائک، اکھلیش یادیو، کے چندر شیکھر راؤ، اروندکجریوال، جگن ریڈی اور ایم کے اسٹالن ایسے تگڑے سیاستدانوں نے بھی جم کر مودی کا مقابلہ کیا ہے ۔ افسوس یہ ہے کہ راہل گاندھی کا ’’نیائے‘‘ (سب کو یکساں انصاف کی فراہمی) اور مزدوروں کی تنخواہوں میں دوگنا اضافے کے نعرے بھی فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکے ہیں۔ اس شکست سے گاندھی خاندان کو خاصا ضعف پہنچا ہے اور یہ بات ایک بار پھر ثابت ہو گئی ہے کہ نہرو اور اندرا گاندھی کی کانگریس پارٹی اب کنہیا کماری سے کشمیر تک اور کَچھ سے کمروپ تک مقبول و محبوب نہیں رہی ہے۔اس کی جگہ اب بی جے پی سنبھال چکی ہے۔ انتخابات کے دوران کانگریس میں قیادت کا فقدان واضح طور پر محسوس ہوتا رہا۔ بہت سے ووٹر بی جے پی کے متشددانہ کردار، مذہبی افکار اورتنگ نظری کے سبب اسے ووٹ نہیں دینا چاہتے تھے لیکن ساتھ ہی یہی ووٹر کہتے رہے : اگر مودی نہیں ہے تو پھر ’’اور کون ؟‘‘۔میڈیا کے توسط سے اس احساس کو بڑھاوا دیا گیا کہ بھارت بھر میں مودی کا مقابل اور متبادل کوئی نہیں ہے۔

بھارت میں نچلی ذات کی برادریوں پر مشتمل طاقتور جماعتیںاور ڈیڑھ درجن سے زائد متنوع پارٹیوں کا گٹھ بندھن بھی مودی کا راستہ نہیں روک سکی ہیں۔ان انتخابات میں اِس تصور کو اچھالا گیا کہ بھارتی مسلمان ، من حیث المجموع، بی جے پی کے حامی ہیں نہ یہ بی جے پی کو ووٹ دیں گے۔ اب جب کہ اقلیتوں کی دشمن بی جے پی اور مودی جیت چکے ہیں ، سوال یہ ہے کہ 20کروڑ سے زائد بھارتی مسلمانوں کا مستقبل کیا ہے ؟ مقتدر بی جے پی ان سے کیا سلوک کرے گی؟ آوازیں اُٹھنے لگی ہیں کہ فاتح کی حیثیت میں مودی جی مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے لیے بھارتی آئین کی شق نمبر370 اور35 Aکو ذبح کر ڈالیں گے کہ انتخابات سے قبل بی جے پی بھارتی آئین کے ان آرٹیکلزکے خاتمے کا وعدہ بھی کر چکی ہے۔

کشمیریوں میں اس بارے اب سخت تشویش پائی جا رہی ہے۔ یہ خدشات بھی ہیں کہ مودی سرکار ایک بار پھر اقتدار میں آ کر مظلوم کشمیریوں پر مزید تشدد اور سختیوں کے دروازے کھول دے گی ۔ بی جے پی کی یہ فتح20 کروڑ بھارتی مسلمانوں اور مقبوضہ کشمیر کے تین کروڑ باسیوں کے لیے آزمائشیں لیے طلوع ہُوئی ہے ۔ ہمیں اپنے ان بہن بھائیوں کو بے یارومددگار نہیں چھوڑنا چاہیے ۔اُمید رکھنی چاہیے کہ وزیر اعظم عمران خان ایل او سی کے پار کشمیری قیادت کو بھی جلد اپنے اعتماد میں لیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔