وہ گھاٹ جس پر شیر اور بکری…

سعد اللہ جان برق  منگل 28 مئ 2019
barq@email.com

[email protected]

ان دنوں چونکہ راوی ہر طرف بلکہ راوی ،چناب، ستلج اور بیاس کے ساتھ ساتھ دریائے کابل وسندھ بھی’’چین ہی چین‘‘لکھ رہاہے۔ ہرطرف خیروخیریت ہے۔

’’ریاست مدینہ‘‘ قائم ہوچکی ہے۔اس لیے ہمارے پاس بھی ’’تحقیق‘‘کا پراجیکٹ نہیں تھا، ہم بھی ہاتھ پرہاتھ دھرے بور ہورہے تھے اور ہمارا ٹٹوئے تحقیق یعنی ذریعہ سفر وسیلہ ظفر اور ڈفرابن ڈفر بھی خوب کھاکھاکر موٹا ہورہا تھاجس کے نتیجے میں وہ اڑوس پڑوس کی ’’ٹٹوائینوں‘‘ کو ہراساں کیے ہوئے تھا۔سوچا بزرگوں نے ’’بیکاری‘‘ کو تمام برائیوں کی ’’والدہ ماجدہ‘‘ قرار دیا ہوا ہے۔ کچھ کریں تو کیا کریں۔

اچانک ذہن میں ایک جھماکا ہوا ، پھردھماکا ہوا اور لمباکھاہوا، اچھا ہوا اس وقت ہم آئن اسٹائن کی طرح غسل خانے میں نہیں تھے ورنہ ایسے ہی ٹٹوئے تحقیق کو خوش خبری سنانے دوڑپڑتے۔ٹٹوئے تحقیق نے ہمارا تحقیقی پراجیکٹ سنا تو خلاف معمول اتفاق کرنے کا مظاہرہ کیا، وہ بھی پراجیکٹ کے اس حصے پر جس میں شیر اور بکری ایک گھاٹ پرپانی پیتے تھے حالانکہ ہم نے چین کی بانسری بجانے اور سونا اگانے  کی بات بھی کی تھی لیکن ہم نسل ہونے کی وجہ سے اس نے ’’شیراوربکری‘‘والاپراجیکٹ منظورکرلیا۔یعنی شیراور بکری جس گھاٹ پرپانی پیتے تھے وہ گھاٹ کہاں تھا اور پانی پینے کے بعد شیراوربکری بلکہ خاص طور پر وہ بکری کہاں چلی جاتی تھی۔

آپ کو ’’علم تحقیق‘‘کے بارے میں علم ہرگز ہرگزنہیں ہوگا کہ نہ آپ اکیڈمیوں کے فیض یافتہ ہیں اور نہ قانونی اور تفتیشی اداروں کے تربیت یافتہ ہیں، اس لیے ہم ہی بتائے دیتے ہیں کہ علم تحقیق کا پہلا اور آخری یعنی بنیادی اصول ’’معلوم‘‘سے نامعلوم کا پتہ لگانا۔سو ہم نے بھی شیراوربکری کے ’’معلوم‘‘سے اس’’نامعلوم‘‘کا پتہ کرنا شروع کر دیا۔ کہ آخر’’شیر‘‘کے مقابلے میں ’’بکری‘‘ ہی کیوں؟ ’’بکرا‘‘ کیوں نہیں تھا؟ جب’’شیر‘‘نرتھا تو بکری کی جگہ بھی ’’نر‘‘یعنی بکرا ہوناچاہئے تھا، ایسے بڑے بڑے تحقیقی منصوبے، ایسی چھوٹی چھوٹی’’باتیں‘‘ ہی بڑی بڑی باتیں بن جاتی ہیں۔

گرچہ چھوٹی ہے ذات بکری کی

دل کو لگتی ہے بات بکری کی

پہلے تو خیال آیاکہ شاید اس جنگل کے سارے ’’بکروں‘‘کو قصائیوںنے ’’دعوت‘‘پربلایا ہو اور صرف  ’’بکریاں‘‘ دستیاب تھیں لیکن اس بات کو’’رد‘‘اس لیے کرنا پڑا کہ جس جنگل میں انصاف کا یہ عالم تھا کہ شیراور بکری ایک گھاٹ پرپانی پیتے تھے’’بکرے‘‘کیسے سارے کے سارے قصائیوں کے انصاف یعنی نصف نصف کرنے کا شکار ہوسکتے تھے، ضرور کوئی بات اور ہے اور یہ بات ہمارے’’ٹٹوئے تحقیق‘‘ کی سمجھ میں آگئی کہ وہ بھی نسلی لحاظ سے جانور ہی تھا۔

بولا،دراصل بکری اور بکرے میں بہت فرق ہوتاہے۔ بکرے کے بڑے بڑے سیدھے اور تیزنوک دار سینگ ہوتے ہیں، بکری کے بھی ہوتے ہیں لیکن محض برائے نام جیسے خواتین اور مردوں میں بھی بہت ساری قدریں مشترک ہیں لیکن وہ کمزور اور نازک ہوتی ہیں۔اور پھر بکرے میں یہ بری عادت بھی ہوتی ہے کہ وہ سینگ لڑانے اور ٹکرمارنے کا بھی شوقین ہوتاہے چنانچہ اسکرپٹ لکھنے والوں نے سوچا کہ پانی پینے کے لیے اگر ’’بکرا‘‘ بھیجاگیا تو کبھی بھی کسی بھی وقت ’’اسکرپٹ‘‘ سے باہر نکل کر شیر پر اپنے سینگ اور ٹکرمارنے کا مظاہرہ کر سکتاہے۔ انجام کچھ بھی ہو لیکن وہ ایک گھاٹ پر امن وشانتی سے پانی پینے کا ’’ایکٹ‘‘تو گڑبڑہوجائے گا،اس لیے بکری کا انتخاب کیا گیا تاکہ کوئی’’اپ سیٹ‘‘نہ ہوجائے اور انصاف کا ڈرامہ بخیروخوبی اختتام پزیرہوجائے۔

یہ مسئلہ تو سلجھ گیا لیکن اصل سوال اور الجھ گیا کہ آخر پانی پینے کے بعد یہ دونوں کردار کہاں چلے گئے۔ شیر کا تو یہ ہے کہ جنگل کا بادشاہ ہے ،کہیں بھی نکل سکتاہے لیکن ’’بکری‘‘بچاری تو بکری تھی، درندوں سے لے کر انسانوں تک اس کے دشمن تھے اور بچاری کے پاس کوئی حفاظتی سامان بھی نہیں تھا، اس لیے وہ کہاں چلی گئی یا چلی گئی ہوگی۔بڑی آسانی یہ ہوگئی کہ بات’’جنگل بک‘‘کی تھی اور ہمارا ٹٹوئے تحقیق بھی، گر واں نہیں یہ واں کا نکالا ہوا توتھا چنانچہ کلیو دیا کہ اس نے اپنے بزرگوں اور ان بزرگوں نے اپنے بزرگوں سے جو جنگل کے باسی تھے، یہ سناہے کہ وہ گھاٹ کسی جنگل میں تھا لیکن جنگل تو اب رہے نہیں، ملین ٹری کے صدقے ہوگئے۔

البتہ سیمنٹ اور لوہے کے جنگل بہت تھے جہاں لوہے کے درندے دوڑ دوڑ کرلوگوں کوکھاتے تھے۔باہم مشورہ کرکے ہم ایک بہت بڑے جنگل میں گئے، لوہے کے درندوں سے بچتے بچاتے اسی درویش کے پاس پہنچے جو اس جنگل کے ایک بہت بڑے پیڑ کے نیچے آرام فرمارہے تھے، یہ پیڑ بھی لوہے اور سیمنٹ کا تھا اور درویش بزرگ ابھی ابھی ایک خیراتی لنگر سے آسودہ ہوکرآئے تھے۔ہم نے اپنا سوال داغا تو گویا ہوا، اوئے آرام سے تم بھی کسی ایسے پیڑ کے نیچے آرام فرماؤ، جاؤ لنگرخانے ، کھاؤ پیو اور کسی پیڑ کے نیچے اﷲ اﷲ کیاکرو۔لیکن ہم نے بھی ضد پکڑی کہ ہم تو اس بکری کا پتہ لگاکر رہیں گے۔کہ آخر وہ پانی پینے کے بعد کہاں چلی گئی؟ وہ نہیں مان رہاتھا، جب ہم نے اسے ایک ’’رنگین‘‘ کاغذدکھایا جس پر ایک بڑے بزرگ کی تصویر چھپی تھی تو جھٹ سے کھڑا ہوکر ہمیں پیچھے آنے کا حکم دیا۔

اس کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے ہم ایک بہت بڑے کوڑے کے ڈھیر پر پہنچے جس پر بہت ساری ہڈیاں اور ایک کھوپڑی پڑی تھی۔ کھوپڑی اٹھاکردیتے ہوئے بولا ، یہی ہے وہ کھوپڑی۔ہم  اس کے کہے پر یقین کیسے کرتے ، آخرتحقیق بھی کوئی چیز ہے چنانچہ اس کھوپڑی کو ایک لیبارٹری لے گئے جس پر ’’تھانہ‘‘لکھاہوا تھا وہاں کے سائنس دان اس کھوپڑی کو ایک کمرے میں لے گئے اور اس کمرے سے چیخیں بلند ہونے لگیں کہ ہاں میں ہی وہ بکری ہوں جس نے شیرکے  ساتھ ایک گھاٹ پرپانی پینے کی گستاخی کی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔