حکومت کے لیے لمحہ فکریہ

شکیل فاروقی  منگل 28 مئ 2019
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

موجودہ حکومت کی جانب سے قومی خزانے کے خالی ہونے کا مسلسل واویلا کوئی نئی بات نہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں برسر اقتدار آنے والی ہر نئی حکومت کا یہی وطیرہ رہا ہے، لیکن پی ٹی آئی کی حکومت نے اس سلسلے میں مبالغہ آرائی کی انتہا کردی ہے جس کا مقصد اپنی نااہلی اور ناکامی کو چھپانے کے لیے سارا ملبہ سابقہ حکومت پر گرا کر اپنی جان چھڑانے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

اگر غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت آشکار ہوجائے گی کہ 25 جولائی 2018 کو جب ملک میں نئے عام انتخابات ہورہے تھے اس وقت بھی ملک کی معاشی صورتحال اتنی خراب نہیں تھی جتنی آج ہوچکی ہے۔

صاف ظاہر ہے کہ اگر حالات اس قدر دگرگوں ہوتے تو نگران حکومت بھلا کیوں خاموش رہ سکتی تھی۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ سابقہ حکومت کے دور میں بیشتر عالمی مالیاتی ادارے مثبت اشارے دے رہے تھے۔ یہ بات بھی ریکارڈ سے ثابت ہے کہ اس وقت پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ نہایت تیزی سے ابھر رہی تھی جب کہ ٹیکسوں سے حاصل ہونے والے محصولات اپنے مقررہ اہداف سے تجاوز کر رہے تھے۔ دوسری جانب ٹیکس فائلرز کی تعداد بڑھتے بڑھتے 18 لاکھ کے قریب ہوچکی تھی۔ اتنے مختصر عرصے میں ایک ملین ٹیکس فائلرز کا اضافہ اپنی جگہ خود ایک ریکارڈ ہے۔ ادھر زرمبادلہ کے ذخائر 24 ارب ڈالر کی بلندی کو چھو رہے تھے۔

2013 میں جب میاں نواز شریف نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تھی تو اس وقت حالات بہت خراب تھے۔ ملک میں دہشت گردی کا راج تھا اور کوئی جگہ خودکش حملوں اور بم دھماکوں سے محفوظ نہیں تھی۔کراچی شہر جو ملک کا تجارتی اور کاروباری مرکز کہلاتا ہے عرصہ دراز سے خون خرابے اور آئے دن کی ہڑتالوں کے عذاب سے دوچار تھا اور شہریوں کی زندگی بھتہ خوروں کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی تھی۔

ملک میں توانائی کا شدید ترین بحران تھا اور چودہ چودہ گھنٹے کی طویل لوڈ شیڈنگ نے صنعتی شعبے کا پہیہ جام کر دیا تھا۔ اس وقت کی حکومت کو اس بات کا کریڈٹ دینا پڑے گا کہ اس نے افواج پاکستان اور رینجرز کی مدد سے نا صرف کراچی شہر کو پھر سے امن کا گہوارہ بنادیا بلکہ پورے ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کی جانب زبردست پیش رفت کی۔ میاں صاحب کی حکومت جب برسر اقتدار آئی تھی تو قومی خزانے میں صرف 6 ارب ڈالرز باقی رہ گئے تھے لیکن جب میاں صاحب کو معزول کیا گیا تو اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر 18 ارب ڈالرز سے زیادہ تھے۔

پھر اس کے بعد جب سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے ملک کا اقتدار نگران حکومت کے حوالے کیا تو تب بھی قومی خزانے میں 16 ارب ڈالر سے زائد رقم محفوظ تھی۔ ان حقائق کے باوجود اگر یہ کہا جائے کہ جب اقتدار موجودہ حکمرانوں کو حاصل ہوا تو قومی خزانہ خالی تھا تو اس سے بڑھ کر دروغ گوئی یا غلط بیانی بھلا اور کیا ہوگی۔ اس طرح کی غلط بیانی قوم کو بے وقوف بنانے کے مترادف ہے مگر یہ حربہ زیادہ عرصے تک نہیں چل سکتا کیونکہ تلخ حقائق روز روشن کی طرح عیاں ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ جی ڈی پی کی شرح 5.88 سے کم ہوتے ہوتے 2.5 تک پہنچ چکی ہے۔ ملکی کرنسی کی قدر تیزی کے ساتھ گر رہی ہے اور معلوم نہیں کہ یہ سلسلہ کہاں جاکر رکے گا۔ ایسی شدید بحرانی کیفیت گزشتہ 70 سال میں کبھی نہیں ہوئی۔ حکومت کی کوئی سمت اور منزل نظر نہیں آرہی۔ گویا:

زندگی ایسی کہ جس کا کوئی حاصل بھی نہیں

چل رہے ہیں رات دن اور کوئی منزل بھی نہیں

بینک دولت پاکستان کے مطابق مہنگائی کی شرح رواں مالی سال میں 7.5 فیصد تک پہنچ گئی ہے جب کہ آیندہ مالی سال کے دوران یہ شرح اس سے بھی زیادہ بڑھنے کا امکان ہے۔ بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک پر حکومتی قرضوں کا انحصار بھی مہنگائی میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ مثبت تبدیلی کی امید میں غربت، بے روزگاری اور مہنگائی کی چکی میں پستے ہوئے عوام حکومت سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں پے در پے مسلسل اضافے نے متوسط طبقے کی چیخیں نکال دی ہیں۔ پٹرول، اشیا خورونوش اور خام مال کی قیمتوں میں روز افزوں اضافہ مہنگائی کے بنیادی عوامل میں شامل ہے جس پر روپے کی مسلسل بے قدری نے جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کیا ہے۔

آمدن کم اور اخراجات میں اضافے نے حکومت کا قرضوں پر انحصار بڑھا دیا ہے جس کے نتیجے میں مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے۔ رواں مالی سال کے دوران جولائی تا اپریل مہنگائی کی اوسط شرح گزشتہ سال کے مقابلے میں تقریباً دو گنا ہوکر 7.0 فیصد تک پہنچ گئی ہے جب کہ پچھلے سال کی اسی مدت میں یہ شرح 3.8 فیصد تھی۔ اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ آیندہ بجٹ میں ٹیکسوں میں کی جانے والی رد و بدل، بجلی اور گیس کے نرخوں میں ممکنہ تبدیلیوں اور تیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں اضافے سے پیدا ہونے والے خطرات مہنگائی میں مزید اضافہ کرسکتے ہیں۔ یہ تمام اشاریے جہاں ملکی عوام کے لیے انتہائی تشویش اور مایوسی کا باعث ہیں وہاں ارباب اختیار کے لیے چشم کشا ہیں۔ حالات اور وقت کا تقاضا ہے کہ ملک کی کشتی کے ناخدا غفلت اور نااہلی کا دامن چھوڑ کر تدبر اور دور اندیشی کا مظاہرہ کریں، بقول شاعر:

یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہ محشر میں ہے

پیش کر غافل اگر کوئی عمل دفتر میں ہے

وطن عزیز اپنی تاریخ کی خوفناک ترین مہنگائی اور کاروباری مندی کی زد میں ہے۔ سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے بالکل ٹھیک کہا تھا کہ عوام کی چیخیں نکلیں گی۔ واقعی عوام چیخ رہے ہیں لیکن حکومت ان کی چیخوں کو سننے کے لیے تیار نہیں۔ تحریک انصاف کی قیادت کو یہ احساس ہوجانا چاہیے کہ اس معاشی تباہی کی اصل ذمے داری اسد عمر پر عائد ہوتی ہے۔ اگر وہ تحریک انصاف کی حکومت بنتے ہی آئی ایم ایف کے پاس چلے جاتے تو آئی ایم ایف اتنی کڑی شرائط نہ منواتا۔ افسوس صد افسوس کہ وزیر اعظم عمران خان نے اسد عمر کی معاشی ناکامی کا اعتراف 9 ماہ بعد کیا ہے جب کہ پانی سر سے اونچا ہوچکا ہے اور معاشی بحران مست ہاتھی کی طرح قابو سے باہر ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

پی ٹی آئی کی حکومت نے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ اور چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کو معیشت کی ڈولتی نیا کو سنبھالا دینے کے لیے میدان میں اتار تو دیا ہے لیکن ان دنوں کے پاس بھی الٰہ دین کا چراغ نہیں ہے کہ یکدم سب کچھ ٹھیک کردیں۔ وزیر اعظم عمران خان کی مجبوری یہ ہے کہ ان کی حکومتی ٹیم کمزور اور ناتجربہ کار ہے۔ اس ٹیم کے کھلاڑی اناڑی ہیں اور ان کا بیشتر وقت اپوزیشن کے خلاف الزام تراشی اور بیان بازی کی نذر ہوجاتا ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ تحریک انصاف اپنی عوامی مقبولیت تیزی کے ساتھ کھو رہی ہے اور نہ صرف پاکستان کے عوام حکومت کی کارکردگی سے شدید طور پر مایوس ہو رہے ہیں بلکہ تحریک انصاف کے بانی رہنما اور کارکنان بھی سخت پریشان ہیں۔

موجودہ صورتحال حکومت کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ اگر حکومت مستقل قریب میں حالات سدھارنے میں کامیاب ہوگئی تو بہتر ہوگا ورنہ آنے والا وقت اس کے لیے انتہائی کٹھن اور سخت آزمائشی ہوگا۔ عوامی اور سیاسی دباؤ بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے جو حکومت کے لیے کڑا امتحان ہوگا۔ مہنگائی کا جو سونامی آنے والا ہے وہ ’’حکومتی امیج‘‘ کو شدید طور پر متاثر کرے گا۔ ادھر حزب اختلاف کی جماعتیں عید کے بعد حکومت کے خلاف دما دم مست قلندر کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ مہنگائی میں ہونے والا خوفناک اضافہ حکومت کے خلاف چلائی جانے والی کسی بھی مہم کی باآسانی بنیاد بن سکتا ہے۔

خدا کرے کہ یہ نوبت نہ آئے کیونکہ اندرونی اور بیرونی خطرات میں گھرا ہوا وطن عزیز کسی بھی مہم جوئی کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ خدا کرے کہ یہ نوبت نہ آئے کیونکہ اندرونی اور بیرونی خطرات میں گھرا ہوا وطن عزیز کسی بھی مہم جوئی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ حالات کا تقاضا ہے کہ حکومت اور حزب اختلاف قومی سلامتی اور ملکی استحکام کی خاطر انتہائی بردباری اور افہام و تفہیم کا مظاہرہ کریں اور قومی و ملکی مفاد کو مقدم رکھیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔