ضمنی انتخابات، نتائج اور عوامی رجحانات

مقتدا منصور  بدھ 28 اگست 2013
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

عوام کی اپنی اجتماعی دانش ہوتی ہے،جوعملاً معروضیت پر مبنی ہوتی ہے۔عام تصور یہ ہے کہ اہل دانش عوام کی فکری رہنمائی اور سیاسی جماعتیں ان کی قیادت کرتی ہیں۔ مگر پاکستان میں گزشتہ کئی دہائیوں سے عوام نے اپنے فیصلوں سے ثابت کیاہے کہ وہ فکری طورپر اہل دانش سے آگے جاچکے ہیں، جس کی وجہ سے سیاسی جماعتیںبھی ان کے پیچھے چلنے پر مجبور ہوئی ہیں۔عوام نے 11مئی کے عام انتخابات میں اپنی فکری معروضیت کا کھل کر مظاہرہ کیا تھا،جس میں ان کے رویوں اور رجحانات میں پیداہونے والی تبدیلی کے مظاہر واضح طور پر نظر آ رہے تھے۔ مگرکچھ سیاسی جماعتوں اور بعض دیگر عناصر نے ان انتخابات کو متنازعہ بنانے کی بھرپور کوشش کی۔

لیکن 22اگست کو ہونے والے ضمنی انتخابات ، جن کی شفافیت پر عالمی اور قومی جائزہ کار تنظیموںاورذرائع ابلاغ سمیت کسی بھی حلقے کی جانب سے کسی قسم کا کوئی اعتراض سامنے نہیں آیا،اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ عوام نے بغیر کسی بیرونی مداخلت اوردبائو اپنا حقِ رائے دہی آزادانہ طورپر استعمال کیا۔ یوں ان انتخابات کے جو نتائج سامنے آئے ،وہ عوام کے رویوں اور رجحانات میں جنم لینے والی تبدیلوں کے مظہر ہیں۔ان انتخابات سے یہ بھی ثابت ہوا کہ سیاسی جماعتوں کی عوامی قبولیت کے بارے میںاہل دانش جن خیالات کا اظہارکرتے رہے ہیں، عوام کی سوچ اس سے قطعی مختلف اور معروضیت پر مبنی ہے۔ان انتخابات نے اگر ایک طرف سیاسی جماعتوں کی عوامی قبولیت کا تعین کیا ہے،تو دوسری طرف کچھ جماعتوں کو نیا اعتماد بخشنے کے علاوہ دیگر کچھ جماعتوں کی مقبولیت کا بھرم زمیں بوس بھی کیا ہے۔

حالیہ ضمنی انتخابات نے پیپلز پارٹی کونئی آکسیجن مہیاکی ہے۔ جس کے بارے میں بعض تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ تیزی کے ساتھ غیر مقبول ہونے کی وجہ سے اس کا سیاسی وجودخطرے میںپڑچکاہے۔پیپلز پارٹی نے نہ صرف جنوبی پنجاب سے قومی اسمبلی کی نشست واپس حاصل کی، بلکہ سانگھڑ کے اس حلقے میں بھی کامیابی حاصل کی جو 1970 سے11مئی کے عام انتخابات تک مسلم لیگ(فنکشنل) کاحلقہ رہا تھا اور اس میں اسے کسی بھی عام یا ضمنی انتخاب میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی تھی۔ اس حلقے میںپیپلز پارٹی کی کامیابی عوامی رجحان میں اس چونکادینے والی تبدیلی کوظاہر کرتی ہے،جو محض تین ماہ 10دن کے دوران میں پیدا ہوئی۔ بعض تجزیہ نگار اس حلقے میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کو مسلم لیگ(فنکشنل) کی سیاست اور پالیسیوں سے عوامی بیزاری کا اظہار قرار دیتے ہیں۔بہرحال اسباب کچھ ہی کیوں نہ ہوں، پیپلز پارٹی نے مختصر سے عرصے میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کی کوشش ضرور کی ہے۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پیپلز پارٹی اپنی تمام تر خامیوں اور خرابیوں کے باوجود ایک ملک گیر سیاسی جماعت ہے،جس کی تاریخ اس کے سربراہوں کے خون سے رنگی ہوئی ہے۔پیپلز پارٹی میں ہر طبقہ، ہر مکتبہ فکر اور ہر لسانی گروپ کی بھرپور نمائندگی بھی پائی جاتی ہے۔مگر اس پر حاوی فیوڈل Mindset اس کے ایک حقیقی ترقی پسند جماعت بننے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔جس کی وجہ سے وہ اقتدار واختیار کی عدم مرکزیت سے گریز پر اصرار کرتی ہے۔ان کمزوریوں کے باوجود ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے ووٹروں کی ایک نمایاں تعداد آج بھی اسے اپنے مسائل کا مداوا سمجھتی ہے۔پیپلزپارٹی کا یہ بھی المیہ رہا ہے کہ اس کی میڈیا مینجمنٹ شروع ہی سے کمزور رہی ہے۔جس کی وجہ سے اس کے اچھے کاموں کی کبھی مناسب تشہیر نہیں ہوسکی۔ بلکہ ہمیشہ میڈیا پر اس کی خامیوں، کوتاہیوں اور کمزوریوںکا ہی چرچا ہوا ہے۔اس کے علاوہ اقتدار کے ایوانوں کے اطراف میں موجود ایک بااثر طبقہ ایسا بھی ہے، جو اس کے اقتدار میں آتے ہی اس کی حکومت کے خلاف محاذ کھول کراسے دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبورکردیتا ہے۔یوں وہ اپنی صلاحیتوں کا بھرپورمظاہرہ نہیں کرپاتی۔

ایم کیو ایم وہ دوسری جماعت جسے ان ضمنی انتخابات کے نتیجے میں نہ صرف ہراس نشست پر کامیابی حاصل ہوئی ہے،جس پر اس نے انتخابات میں حصہ لیا۔ بلکہ اس پر لگنے والے دھاندلی کے الزامات بھی منطقی انجام تک پہنچے ہیں۔ بعض سیاسی وصحافتی حلقے ایم کیوایم کے مینڈیٹ کے بارے میں کئی دہائیوں سے شک وشبہ کا اظہار کرتے رہے ہیں۔خاص طورپرتحریک انصاف نے گزشتہ عام انتخابات میں ایم کیو ایم پر دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے دعویٰ کیاتھاکہ اگر انتخابات فوج کی نگرانی میں ہوتے تو کراچی کی نصف کے قریب نشستیں وہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی۔مگر ضمنی انتخابات میں ایک قومی اور دوصوبائی حلقوں میں اس کے امیدواروں نے دوسے ڈھائی ہزار ووٹ لے کر اس کے اس دعوے کو باطل ثابت کردیا۔جب کہ کراچی سمیت میرپورخاص سے ایم کیو ایم کی بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی نے ایک بارپھرثابت کیاہے کہ وہ آج بھی اربن سندھ کی مقبول ترین جماعت ہے۔

ایم کیو ایم کی سیاست سے اتفاق یااختلاف اپنی جگہ، مگر ایک صحافی اور تجزیہ نگار کے لیے غیر جانبدارانہ تفتیشی رپورٹنگ سب سے زیادہ اہم ہوتی ہے۔اس میں شک نہیں کہ ایم کیو ایم انتخابات میں اپنی سیاسی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کرتی ہے۔ لیکن جن صحافیوں اور جائزہ کاروں نے اس کی انتخابی تیاریوں کا بذات خودغیر جانبداری کے ساتھ مشاہدہ کیاہے ،وہ جانتے ہیں کہ یہ جماعت کس قدر محنت، جانفشانی اور باریک بینی سے انتخابی عمل میں شریک ہوتی ہے

۔وہ دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ سائنٹیفک اور معروضی اندازمیں انتخابی عمل کا حصہ بنتی ہے،جو اس کی کامیابی کو مہمیز لگانے کا سبب بنتی ہے۔کچھ دوستوں اور قارئین کو شاید میرا تجزیہ گراں گذرے،لیکن پیشہ ورانہ دیانت داری پر مبنی میری سوچ یہ ہے کہ جب تک سندھ میں دیہی شہری کا فرق موجود ہے،کسی دوسری جماعت کے لیے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی کامیابی پر نقب لگانا مشکل ہے۔لہٰذا یہ سمجھنا کہ حلقہ بندیوںمیں ردو بدل یا فوج کی پولنگ اسٹیشنوں پر تعیناتی کے ذریعے ان دونوں جماعتوںکے ووٹ بینک اور نشستوں میں کمی لائی جاسکتی ہے،محض دیوانے کا خواب اور غیر سیاسی خواہش ہے۔ البتہ جو سیاسی جماعتیں ایم کیو ایم سے اس کا مینڈیٹ چھیننا چاہتی ہیں، انھیں اس سے زیادہ سائنٹیفک انداز میں کام کرنا ہوگا اورکراچی سمیت اربن سندھ کے لیے ایک ایسا سیاسی ایجنڈاپیش کرنا ہوگا جو اربنائزڈ ہونے کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم کے سیاسی ایجنڈے سے زیادہ فعال اور بہتر ہو۔

اس پورے تناظر میں جس جماعت کو حالیہ ضمنی انتخابات میں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے، وہ تحریک انصاف ہے۔اس سال مئی میں ہونے والے عام انتخابات میں تحریک انصاف نے ملک کے دیگر اربن سینٹروں کی طرح سندھ کے اربن مراکز میں بھی چونکا دینے والی تعداد میں ووٹ حاصل کیے تھے ۔جس کے باعث کچھ تجزیہ نگار یہ سمجھنے لگے کہ شاید PTIسندھ میں ایم کیوایم کے لیے چیلنج بن چکی ہے۔اس میں شک نہیں کہ PTI نے گزشتہ عام انتخابات میں ایم کیو ایم کے حلقوں میں گھسنے کی کوشش ضرور کی تھی  مگر اس کا تنظیمی ڈھانچہ اور الیکشن مینجمنٹ سسٹم اتنافعال نہیںکہ وہ مستقبل قریب میں ایم کیو ایم کے لیے چیلنج بن سکے۔

اس میں شک نہیں کہ پنجاب کی طرح اربن سندھ کا ایک مخصوص طبقہ متبادل قیادت کی خواہش میں PTI کی طرف ضرور متوجہ ہوا تھا۔مگر KPK میں اس کی حکومت کی خراب کارکردگی، پارٹی کے اندرونی اختلافات اور اہم قومی امور پر کنفیوژڈ نقطہ نظر نے محض تین ماہ10دن کے اندرہی پورے ملک میں اس کی مقبولیت کوگہنا کر رکھ دیا ہے۔ جس کا ثبوت پارٹی سربراہ کی چھوڑی ہوئی دونوں نشستوں پراس کا شکست کھا جانا ہے۔حالانکہ مسلم لیگ(ن) کو بھی وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی خالی کردہ صوبائی نشست کے ہاتھ سے نکل جانے کا جھٹکا لگا ہے،لیکن اس نے مجموعی طور پر ضمنی انتخابات میں اپنی سابقہ مقبولیت کو خاصی حد تک برقرار رکھا ہے اور میانوالی میں عمران خان کی آبائی نشست بھی حاصل کرلی۔ جب کہ تحریک انصاف میانوالی کے علاوہ پشاور کی نشست بھی کھو چکی ہے۔

تحریک انصاف کا مختصر ترین مدت میںگراف کا نیچے آنا،دیگر تمام جماعتوں کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ہر سیاسی جماعت کو یہ بات اب ذہن میں رکھنا ہوگی کہ سیٹلائیٹ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں محض جذباتی نعروں کی بنیاد پر سیاست نہیں کی جا سکتی۔کوئی بھی سیاسی جماعت اس وقت تک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس کی نظر عوامی مفاد کے تمام پہلوئوں پر نہ ہو اور عوام اس کی صلاحیتوں اور اہلیت کے بارے میں کسی شک وشبہ کا شکار نہ ہوں۔آج مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی برے بھلے ہر ادوار سے گذرنے کے باوجود اس لیے سیاسی میدان میں ثابت قدمی کے ساتھ موجود ہیں کہ ان کے ووٹروں کو ان کی اہلیت پر کسی قسم کا شک وشبہ نہیں ہے۔تحریک انصاف جو پہلی بار عوام کے سامنے آئی تھی،اپنی عجلت پسندی اور غلط فیصلہ سازی کے باعث زوال آمادگی کی راہ پر گامزن ہوئی ہے۔وہ اس صورتحال سے نکل سکتی ہے، بشرطیکہ دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ غیر مناسب رویہ رکھنے کی بجائے اپنی پالیسیوں کو درست کرنے پر توجہ دے اور تسلیم کرے کہ اس کی حالیہ ضمنی انتخابات میں شکست کسی اور کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی اپنی خامیوں کوتاہیوں اور کمزوریوں کا نتیجہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔