یوم الغضب۔۔۔؟

ظہیر اختر بیدری  بدھ 28 اگست 2013
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

[email protected]

مشرق وسطیٰ کی بے سمت عرب بہار کو اب ایک جامع منصوبہ بندی کے ساتھ ایک واضح سمت دینے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ عرب بہار کو جو سمت دینے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ بذات خود عرب بہار کی بے سمتی سے زیادہ بے سمت اور بے معنی ہے۔ مصر میں حسنی مبارک کا تختہ الٹنے کے بعد مصر میں جو سیاسی خلا پیدا ہوا تھا اسے مصر کی مذہبی جماعت اخوان المسلمون نے پر کرنے کی کوشش کی۔ مصر کے عوام نے اس امید پر کہ شاید اخوان ان کے مسائل کا حل ڈھونڈ سکے انتخابات میں اخوان المسلمون کو کامیابی دلائی لیکن مصری عوام کا یہ مینڈیٹ اس قدر بٹا ہوا اور منقسم تھا کہ اخوان المسلمون کی حریف جماعت نے بھی اتنی بڑی تعداد میں ووٹ حاصل کیے کہ اخوان اور اس کی اپوزیشن میں 20-19 کا فرق رہ گیا۔

اس نازک صورت حال میں اخوان حکومت کی یہ ذمے داری تھی کہ وہ مصری عوام کی محرومیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کرتی لیکن اس کے مقرر کردہ صدر محمد مرسی جمہوری آمر بننے کے لیے سارے وہ اختیارات جو جمہوری حکومتوں میں پارلیمنٹ کے پاس ہوتے ہیں اپنے ہاتھوں میں سمیٹنے کی کوشش کرنے لگے حتیٰ کہ عدالتی اختیارات پر بھی موصوف نے قبضہ کرنا شروع کیا اس آمرانہ روش کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام میں بے چینی پیدا ہوگئی اور عوام کی اس بے چینی کا فائدہ حزب اختلاف نے اٹھایا اور التحریر اسکوائر پر لاکھوں مصریوں کو لے آئے لیکن یہ اقدام بھی کیونکہ غیر منصوبہ بند تھا لہٰذا مصری عوام کی اس بے چینی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مصری فوج نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ مصری فوج کا یہ اقدام بھی غیر عاقلانہ مہم جوئی تھا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مصر ایک بار پھر عدم استحکام کا شکار ہوگیا۔

مصر کی فوجی جنتا یہ سمجھنے سے قاصر رہی کہ اخوان المسلمون ایک ایسی منظم جماعت ہے جس کے پاس نظریاتی کارکنوں کا ایک ہجوم ہے اور اس کی جڑیں مصر سے باہر تک پھیلی ہوئی ہیں اور اس کا رشتہ ان مذہبی انتہا پسندوں سے بہت قریبی ہے جو خودکش حملوں، بارودی گاڑیوں اور دہشت گردی کے ذریعے دنیا پر قبضہ کرنے کے راستے پر چل رہے ہیں۔ مصر کی اس بدتر صورت حال سے فائدہ اٹھانے کے لیے یہ منظم طاقت حرکت میں آئی اور اس نے مصر کی فوجی حکومت کے خلاف منظم اور منصوبہ بند انداز میں نہ صرف مصر میں احتجاجی تحریک شروع کی بلکہ دوسرے عرب ملکوں یمن اور اردن وغیرہ میں بھی مصر کی فوجی حکومت کے خلاف بڑے بڑے منظم مظاہرے شروع کردیے اور ہماری 1977 کی جمہوری تحریک کی طرح مصر کی اس تحریک کو بھی ہائی جیک کرکے منتشر عوام کے ہاتھوں میں وہی جھنڈے ان کے منہ میں وہی نعرے ڈال دیے جو 1977 کی تحریک کے قائدین نے پاکستانی عوام کے منہ میں ٹھونسنے کی کوشش کی تھی۔ فرق یہ ہے کہ پاکستان کی بھٹو کے خلاف تحریک کو ہائی جیک کرنے والے کمزور اور موقع پرست تھے مصر کی عوامی تحریک کو ہائی جیک کرنے والے طاقتور بھی ہیں منظم بھی اور مصر سے باہر بھی اپنی جڑیں رکھتے ہیں اس لیے لگ یہی رہا ہے کہ مصر یا تو دہشت گردوں کے قبضے میں چلا جائے گا یا پھر ایک خطرناک خانہ جنگی کا شکار ہوجائے گا۔

جمعہ 16 اگست کو مصر میں جو مظاہرے کیے گئے ان مظاہروں کا نام ’’یوم الغضب‘‘ رکھا گیا اور اخوان کے رہنماؤں نے اعلان کیا ہے کہ مظاہروں کے اس سلسلے کو جاری رکھا جائے گا۔ اور امکان یہ ہے کہ یہ مظاہرے نہ صرف جاری رہیں گے بلکہ ان میں وسعت بھی آتی جائے گی اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ مصر کی فوجی جنتا ان مظاہروں کو روکنے کے لیے طاقت کا جو بے دریغ استعمال کر رہی ہے اس سے اس تحریک کو اور طاقت مل رہی ہے۔ مصرکی اس انتہائی گنجلک صورت حال کو انتشار سے بچانے کے لیے مرسی کی حمایت کی اس تحریک کو جمہوری تحریک کا نام دیا جارہا ہے اور دنیا بھر کے جمہوریت پسند حلقوں میں یہ کشمکش جاری ہے کہ کیا اس جمہوری تحریک کی حمایت کی جانی چاہیے یا مخالفت؟ یمن اور اردن کی طرح پاکستان کی مذہبی جماعتوں نے بھی اس ’’جمہوری تحریک‘‘ کی حمایت میں ریلیوں اور مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا ہے اور اسے نواز حکومت کے خلاف تحریک کا رخ دینے کی کوشش بھی اس لیے کر رہے ہیں کہ نواز حکومت بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے اور دونوں ملکوں میں تجارت بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے جو ہماری مذہبی جماعتوں کے خیال میں دین دشمنی کے مترادف ہے لیکن یہاں اس تحریک کی عوامی پذیرائی اس لیے مشکل ہے کہ یہاں کے عوام کا مزاج ہمیشہ سے مذہبی جماعتوں سے میل نہیں کھاتا ہے۔

مشرق وسطیٰ کی تحریکوں کو سمجھنے کے لیے اس بات کا ادراک ضروری ہے کہ یہ تحریکیں اصل میں ان کرپٹ حکمرانوں کے خلاف اٹھی تھیں جو عشروں سے ان کے سروں پر مسلط تھے اور ملک و قوم کے بہتر مستقبل کے بجائے اپنی ساری توانائیاں اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل کو بہتر بنانے میں لگا رہے تھے۔ لیبیا، تیونس اور مصر میں یہ تحریکیں کامیاب تو ہوئیں لیکن ان تحریکوں کا کوئی وژن تھا نہ قیادت تھی سو یہ تحریکیں بھول بھلیوں میں بھٹکتی رہیں۔ آج مصر میں اگر اس تحریک کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے تو تیونس میں مذہبی حکمرانوں کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ سمیت ساری دنیا میں پھیلی ہوئی اس عوامی بے چینی کی اصل وجہ سرمایہ دارانہ نظام کی چیرہ دستیاں ہیں سرمایہ دارانہ نظام نے انسانوں کو طبقات میں بانٹ کر دنیا کے لگ بھگ 6 ارب انسانوں کو جس طرح غربت، بھوک، بیماری اور بے کاری کے صحراؤں میں دھکیل دیا ہے اور ایک چھوٹے سے طبقے کے ہاتھوں میں دولت کے انبار لگا دیے ہیں اسی ناانصافی نے دنیا بھر کے عوام میں بے چینی اور اشتعال پیدا کردیا ہے۔

دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جو واحد نظام سوشلزم کی صورت میں متعارف کرایا گیا اس میں وہ عناصر موجود تھے جو سرمایہ دارانہ استحصال کی ناک میں نکیل ڈالنے کی اہلیت رکھتے تھے لیکن امریکا اور اس کے حواریوں نے محض اپنے نظام کو بچانے کے لیے سوشلزم کے خلاف ایسی شش جہت سازشیں کیں کہ اس نسبتاً منصفانہ نظام کا تیا پانچہ ہوگیا۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں کو غالباً یہ احساس نہیں رہا کہ اس کے نظام کے خلاف ساری دنیا کے عوام میں پائی جانے والی بے چینی اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک اس کے متبادل کوئی ایسا منصفانہ نظام نہیں لایا جاتا جو عوام کو معاشی انصاف دلائے اس وقت تک دنیا بھر کے عوام میں پائی جانے والی بے چینی ختم نہیں ہوسکتی۔

عوام کی اس محرومی اور خلا کو پورا کرنے کے لیے جو طاقتیں عوام کے سامنے مختلف لبادوں میں آرہی ہیں ان کی جھولی میں سوائے مجرد نعروں کے کوئی مربوط منظم سیاسی اور معاشی نظام نہیں اور المیہ یہ ہے کہ وہ ان مجرد نعروںکو بھی عوام پر قتل وغارت گری خوف و دہشت کے ذریعے مسلط کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جس کی وجہ سے ان کے حصے میں صرف عوامی نفرت آرہی ہے، ہوسکتا ہے وہ اپنے ’’یوم الغضب‘‘ قسم کی تحریکوں کے ذریعے اقتدار پر قبضے میں کامیاب ہوجائیں لیکن ہر جگہ انھیں التحریر کا جوابی سامنا کرنا پڑے گا اس لیے کہ ان کے پاس دلکش نعروں کے علاوہ کوئی ٹھوس اقتصادی اور سیاسی منصفانہ نظام نہیں ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کا بہتر متبادل بن سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔