فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے نیا ٹیکس نظام لانے کی تجویز دیدی

شہباز رانا  منگل 28 مئ 2019
5.550 ٹریلین روپے کا ٹیکس ریونیو اکٹھا نہ ہوا تو IMF سے معاہدہ خطرے میں پڑجائے گا
 فوٹو: فائل

5.550 ٹریلین روپے کا ٹیکس ریونیو اکٹھا نہ ہوا تو IMF سے معاہدہ خطرے میں پڑجائے گا فوٹو: فائل

 اسلام آباد: ٹیکس حکام نے برآمد و درآمدکنندگان کی حقیقی آمدن سامنے لانے کے لیے ٹیکس کا موجودہ نظام ختم کرکے نیا نظام لانے کی تجویز پیش کی ہے کہ اگر یہ اقدام کامیاب رہا تو اس سے حکومت کو معیشت کو دستاویزی بنانے میں مدد ملے گی۔

نئے ٹیکس نظام کی تجویز چیئرمین ایف بی آر شبرزیدی کے ذہن کی پیداوار ہے جو آئندہ بجٹ میں ان تمام ایریاز کو شامل کرنا چاہتے ہیں جو اب تک ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔ تاہم اس تجویز کو منظور کرنے کے لیے وزیراعظم عمران خان کو سیاسی جرأت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

شبرزیدی کے لیے آئندہ مالی سال میں کم از کم 36 فیصد سالانہ شرح نمو کے ساتھ 5.550 ٹریلین روپے کا ٹیکس ریونیو اکٹھا کرنے کا ہدف ہوگا ، اور اگر یہ ہدف حاصل نہ کیا گیا تو پھر حال ہی میں آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والا 6 ارب ڈالر کا بیل آئوٹ پیکیج خطرے میں پڑجائے گا۔

ایف بی آر برآمدکنندگان سے 32 بلین روپے حاصل کرتا ہے، برآمدکنندگان 1فیصد کی شرح سے اپنی برآمدات پر ادائیگی کرتے ہیں، ایف بی آر اس شرح کو ختم کرنا چاہتا ہے، اسی لیے یہ تجویز کیا گیا ہے کہ برآمدکنندگان انکم ٹیکس ریٹرن فائل کریں اور اپنی مکمل آمدنی اور اخراجات پیش کریں۔

درآمدکنندگان فائنل ٹیکس کے طور پر اپنی درآمدات کے طور پر 6 فیصد ادائیگی کرتے ہیں، ایف بی آر اس شرح کو بھی ختم کرنے کا متمنی ہے، رواں مالی سال کے دوران ایف بی آر نے درآمدات کی سطح پر 168 بلین روپے جمع کیے۔

ایک اور اہم تجویز یہ دی گئی ہے کہ ڈیلر اور ڈسٹری بیوٹر کاروبار کرنے کے لیے ایف بی آر کے پاس انکم ٹیکس رجسٹریشن کروائیں۔ اس تجویز کے بعد ایک بڑے غیردستاویزی سیکٹر کو دستاویزی بنانا ممکن ہوجائے گا۔

ایف بی آر بینکوں سے بے نامی اکائونٹس کی تفصیلات بھی طلب کررہا ہے جو اس سلسلے میں پس و پیش سے کام لے رہے ہیں۔ مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کے مطابق پاکستان میں موجود 50 ملین بینک اکائونٹس میں سے صرف 10 فیصد انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔