حکومت کی ہوا خراب نہیں ہونی چاہیے

جاوید چوہدری  بدھ 28 اگست 2013
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

فلمی دنیا میں ایک لفظ رائج ہے ’’ہوا‘‘ یہ لفظ فلم کے مقدر کا فیصلہ کرتا ہے‘ فلم جب شوٹنگ کے عمل سے گزرتی ہے تو اس کے بارے میں ایک ’’ہوا‘‘ بندھ جاتی ہے اور یہ ہوا بعد ازاں اس کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ کرتی ہے‘ مثلاً ایک فلم ساز مارکیٹ میں آتا ہے‘یہ فلم ساز اس فلم کی پہلی ہوا ہوتا ہے‘ وہ ڈائریکٹر ہائر کرتا ہے‘یہ ڈائریکٹر فلم کی دوسری ہوا ہوتا ہے‘ ڈائریکٹر کہانی نویس‘ مکالمہ نگار‘ شاعر‘ موسیقار‘ گلوکار‘ اداکار‘ لوکیشن اور بجٹ کا فیصلہ کرتا ہے‘ یہ اس فلم کی تیسری ہوا ہوتی ہے‘ فلم کی فلم بندی شروع ہوتی ہے اور یہ لوگ شوٹنگ کے دوران جوں جوں محنت کرتے ہیں یا پھر یہ غلطیاں یا خرابیاں کرتے ہیں ان سے فلم کی ’’ہوا‘‘ مضبوط یا کمزور ہوتی چلی جاتی ہے اور یوں فلم لانچ ہونے سے قبل ہی اس فلم کی ’’ہوا‘‘ اس کا مستقبل طے کر دیتی ہے‘ فلمی دنیا میں یہ فقرہ عام ہے‘ فلاں فلم کی کہانی کمزور ہے مگر اس کی ہوا اچھی ہے یعنی فلم کی کہانی کمزورہے لیکن یہ اس کے باوجود کامیاب ہو جائے گی یا یہ ہیوی کاسٹ‘ بڑے ڈائریکٹر اور ہیوی پروڈیوسر کے باوجود فیل ہو جائے گی۔

یہ ’’ہوا‘‘ نوے فیصد کیسوں میں درست ثابت ہوتی ہے اور فلم لانچ ہونے سے قبل اسٹوڈیو کے کارکن‘ فلمی میگزین کے تجزیہ نگار اور بزرگ اداکار جو پیش گوئی کر دیتے ہیں وہ عموماً من و عن سچ ثابت ہو جاتی ہے‘ حکومت اور سیاسی پارٹیوں کی بھی ایک ’’ہوا‘‘ ہوتی ہے اور یہ ’’ہوا‘‘ آگے چل کر عموماً سچ ثابت ہو جاتی ہے‘ہمارے ملک میں روزانہ بیسیوں افواہیں جنم لیتی ہیں مگر بدقسمتی سے یہ افواہیں آگے چل کر سچ ثابت ہو جاتی ہیں اور یہ میری بیس سال کی مختصر صحافت کا تجزیہ ہے‘ عام لوگ‘ سیاسی ورکر اور میڈیا کسی حکومت کے بارے میں شروع میں جو کہہ دیتا ہے وہ آہستہ آہستہ سچ ثابت ہونے لگتا ہے‘ لوگ حکومت کی ’’ہوا‘‘ کا فیصلہ اس کی ابتدائی تقرریوں اور ٹیم کی بنیاد پر کرتے ہیں‘ حکومت اگر شروع میں کرپٹ اور نااہل لوگوں کو اعلیٰ عہدوں پر فائز کر دے یا یہ ذاتی مفاد کی بنیاد پر فیصلے کرنے لگے تو اس کی ہوا چند دنوں میںخراب ہو جاتی ہے اور یہ اس کے بعد اس کو ٹھیک کرنے کی جتنی چاہے سعی کر لے یہ ہوا درست نہیں ہوتی کیونکہ ہوا ساکھ ہوتی ہے اور ساکھ عورت کی عصمت کی طرح ہوتی ہے‘ یہ ایک بار چلی جائے تو پھر یہ واپس نہیں آتی۔

ہم اس معاملے میں صدر آصف علی زرداری کی مثال دے سکتے ہیں‘ زرداری صاحب تین بار اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوئے‘ یہ 1988ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے شوہر کی حیثیت سے اقتدار میں آئے‘ بدقسمتی سے اس وقت ان کی ہوا خراب ہو گئی‘ لوگوں نے انھیں مسٹر ٹین پرسنٹ کہنا شروع کر دیا‘ یہ 1993ء میں محترمہ کے ساتھ دوسری بار ایوان اقتدار میں آئے‘ ان کی ہوا بھی ان کے ساتھ ہی وزیراعظم ہائوس میں داخل ہوگئی‘ زرداری صاحب نے اپنی ساکھ کو سہارا دینے کے لیے اس بار میڈیا کے گروئوں کو اپنا دوست بنا لیا‘ یہ میڈیا گرو زرداری صاحب کے لیے لابنگ کرتے رہے مگر ہوا خراب تھی چنانچہ اس کوشش کا اثر الٹ ہوا‘ زرداری صاحب کے ساتھ ساتھ ان کے صحافی دوستوں کی ساکھ بھی برباد ہو گئی‘ زرداری صاحب 2008ء میں پوری طاقت کے ساتھ تیسری بار اقتدار میں آئے‘ یہ اس بار بدلے ہوئے انسان تھے ‘ ہم مانیں یا نہ مانیں مگر یہ حقیقت ہے زرداری صاحب نے اس مرتبہ کرپشن نہیں کی تاہم ان کے دوستوں‘ ان کی پارٹی کے عہدیداروں اور رشتے داروں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن کیونکہ ہوا خراب تھی چنانچہ ملک میں بجلی کے نرخ بڑھے‘ پٹرول کی قیمت میں اضافہ ہوا یا پھر موبائل فون کال اور ایس ایم ایس پر ٹیکس لگا۔

عوام نے اسے فوراً زرداری صاحب کے اکائونٹ میں ڈال دیا‘ لوگ اسے زرداری ٹیکس قرار دے دیتے تھے‘ صدر آصف علی زرداری ساکھ کے معاملے میں کس قدر بدقسمت ہیں آپ اس کا اندازہ اس واقعے سے لگا لیجیے‘ میرے ایک دوست نانگا پربت کے بیس کیمپ گئے‘ یہ مقامی پورٹر کے ساتھ دو دن پیدل سفر کر کے بیس کیمپ پہنچے‘ کیمپ کے قریب زمین کا ایک چھوٹا سا قطعہ تھا‘ کسی نے لکڑی کے ذریعے اس کی حد بندی کر رکھی تھی‘ میرے دوست نے پورٹر سے پوچھ لیا ’’ یہ کس کی زمین ہے‘‘ پورٹر نے فوراً جواب دیا ’’ یہ آصف علی زرداری کا پلاٹ ہے‘‘ میرا دوست یہ سن کر حیران رہ گیا‘آپ تصور کیجیے لوگوں نے نانگا پربت کے بیس کیمپ پر بھی زرداری کے نام پلاٹ ’’الاٹ‘‘ کر دیا‘ اسی طرح مجھے کوئی صاحب بتا رہے تھے صدر آصف علی زرداری نے چاند پر زمین خرید لی ہے‘ یہ سن کر میری ہنسی نکل گئی‘ میں نے اس سے کہا ’’ صدر کو چاند پر پلاٹ خریدنے کی کیا ضرورت ہے تاہم راولپنڈی کے ایک شخص نے چاند پر زمین ضرور خریدی ہے‘‘ اس نے جواب دیا ’’ یہ صدر آصف علی زرداری کا فرنٹ مین ہے‘‘۔ اسی طرح پانچ سال تک صدر الدین ہاشوانی کے بارے میں یہ افواہ گردش کرتی رہی صدر زرداری نے ان سے ان کے ہوٹل مانگ لیے ہیں چنانچہ یہ اپنی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد بچانے کے لیے ملک سے چلے  گئے ہیں۔

میاں منشاء‘ عقیل کریم ڈھیڈی اور طارق سہگل کے بارے میں بھی ایسی ہی افواہیں گردش کرتی رہیں مگر پھر معلوم ہوا یہ تمام لوگ پانچ برسوں میں کئی بار صدر آصف علی زرداری سے ملے اور صدر ان کی ’’ جائز‘‘ ضرورتیں بھی پوری کرتے رہے‘ مجھے ایک بزنس ٹائی کون نے بتایا‘ میں ایک بار میاں منشاء‘ طارق سہگل اور عقیل کریم ڈھیڈی کو صدر کے پاس لے کر گیا‘ صدر نے میرے سامنے ان سے پوچھا ’’ آپ کو مجھ سے‘ میری حکومت یا میرے خاندان سے کوئی تکلیف تو نہیں ‘‘ تینوں یک زبان ہو کر بولے ’’ ناں سائیں ناں‘ ہمیں کوئی تکلیف نہیں‘‘ صدر کو ایک بار کسی نے کہا ’’ آپ صدر الدین ہاشوانی کو کیوں تنگ کر رہے ہیں‘‘ صدر نے اسی وقت اپنے موبائل سے ہاشوانی صاحب کو فون ملایا اور ان سے پوچھا ’’ سائیں خیریت ہے‘‘ ہاشوانی صاحب نے گرم جوشی سے جواب دیا ’’گاڈ از ویری کائنڈ‘‘ اور اس کے بعد یہ دونوں بڑی دیر تک گپ شپ کرتے رہے‘ یہ اصل حقیقت تھی مگر لوگ یہ حقیقت ماننے کے لیے کل تیار تھے اور نہ ہی آج تیار ہیں اور اس کی وجہ زرداری صاحب کی ’’ہوا‘‘ ہے‘ زرداری صاحب کی ہوا اس قدر خراب ہے آپ کسی کو یہ بتائیں زرداری صاحب نماز پڑھتے ہیں تو لوگ آپ کو خوشامدی یا چاپلوس قرار دے دیں گے اور میرے اس کالم پر بھی ’’بِک گیا‘ بِک گیا‘‘ کے فتوے جاری ہو جائیں گے۔

میاں نواز شریف کو صدر زرداری کی ’’ہوا‘‘ سے سبق سیکھنا چاہیے‘ میاں صاحب کو وہ غلطیاں نہیں کرنی چاہئیں جن کی وجہ سے صدر زرداری کی ساکھ اتنی خراب ہوئی کہ لوگ نانگا پربت پر ایک کنال زمین کو بھی صدر زرداری کا پلاٹ قرار دے دیتے ہیں‘ حکومت کی شروعات اچھی ہیں‘ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے 45 دنوں میں بجلی کے گردشی قرضے ادا کر کے اور آئی ایم ایف سے سات ہفتوں میں چھ اعشاریہ چھ بلین ڈالر قرض لے کر حکومت کی اچھی ہوا بندھا دی‘ خواجہ آصف نے بھی کسی نہ کسی حد تک لوڈ شیڈنگ کنٹرول کر لی‘ بجلی کی پیداوار بھی ساڑھے سولہ ہزار میگاواٹ تک پہنچ گئی‘ حکومت نے ایف بی آر اور سی ڈی اے جیسے محکمے بھی بہت اچھے لوگوں کے حوالے کیے۔

چیئرمین ایف بی آر طارق باجوہ اور چیئرمین سی ڈی اے ندیم حسن آصف دونوں کی ساکھ اچھی ہے‘ لوگ انھیں ایماندار بھی سمجھتے ہیں‘ ماہر بھی‘ محنتی بھی اور قانون پسند بھی‘ چوہدری نثار علی بھی اپنی تمام تر ضد اور انا کے باوجود ایماندار اور محنتی انسان ہیں اور حکومت نے اب تک جتنے منصوبے لانچ کیے ہیں‘ یہ ٹھیک بھی ہیں اور ملک کی ضرورت بھی اوریہ بھی حکومت کی ساکھ میں اضافہ کریں گے مگر ان تمام مثبت پہلوئوں کے باوجود لوگوں کا خیال ہے حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے‘ یہ ہر انگریزی بولنے والے اور پاور پوائنٹ پریذنٹیشن دینے والے سے متاثر ہو جاتی ہے اور کستوری سمجھ کر اس کے پیچھے پیچھے چل پڑتی ہے اور آخر میں پتہ چلتا ہے اس ارسطو نے سوٹ کرائے پر لیا تھا‘ حکومت چاند پر جانے کا اعلان کر دیتی ہے مگر اسے بعد میں معلوم ہوتا ہے ہمارے پاس اتنی بڑی سیڑھی ہی نہیں‘ یہ گوادر فری پورٹ‘ گڈانی پاور کوریڈور‘ کاشغر گوادر روٹ اور کراچی لاہور موٹروے بنانے کا اعلان کر دیتی ہے لیکن یہ بھول جاتی ہے‘ کیا ہمارے پاس اس کے لیے ہیومن ریسورس بھی موجود ہے۔

ملک کی حالت یہ ہے وزارتوں کی اسی فیصد سمریاں نامکمل ڈرافٹس کی وجہ سے کابینہ سے واپس آ جاتی ہیں‘ حکومت کو سمریاں بنانے کے لیے لوگ نہیں مل رہے‘ وزیراعظم کے لیے پریس سیکریٹری نہیں مل رہا اور وزارتوں کے لیے سیکریٹری اور ایڈیشنل سیکریٹری نہیں مل رہے مگر سپنے دیوار چین سے طویل اور ہمالیہ سے اونچے ہیں اورسپنوں کی طوالت اور یہ لمبائی حکومت کی ہوا خراب کر رہی ہے‘مجھے خطرہ ہے جس طرح کرپشن کے الزامات نے صدر زرداری کی ہوا خراب کر دی تھی ‘ بالکل اسی طرح ٹیم کی کمی‘ ہیومن ریسورس کا خلاء میاں نواز شریف کی ساکھ تباہ کردے گا اور یہ بحران آگے چل کر حکومت کا تابوت ثابت ہو گا چنانچہ میاں صاحب کو اپنی ہوا پر توجہ دینی چاہیے‘ ان کی ہوا خراب نہیں ہونی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔