کنڈا سسٹم قانونی امر یا غیرقانونی؟

نسیم انجم  بدھ 28 اگست 2013
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

بجلی کی لوڈشیڈنگ نے کاروبار زندگی کو بے حد متاثر کیا ہے۔ ہر شخص پریشان ہے۔ اگر صاحب حیثیت ہے تو اس کا کاروبار بھی ٹھپ ہے اور اگر غریب ہے تو وہ بے چارہ بھی لوڈشیڈنگ کے جہنم میں جھلس رہا ہے۔ کارخانے، فیکٹریاں، دفاتر، تعلیمی ادارے بنا بجلی کے کوئی کام نہیں کر سکتے ہیں۔ گویا ترقی کی راہوں میں رکاوٹ ڈالنے والی یہ ہی بجلی ہے جو انسان کو محنت کے باوجود ترقی  نہیں کرنے دیتی ایک طرف تو بجلی کی کمی کا یہ عالم ہے تودوسری طرف کنڈے ڈالنے والے مزے کر رہے ہیں کسی قسم کا خرچ نہ ذہنی دباؤ۔ آج کل دیکھنے میں یہ آیا ہے غریب ہوں یا امیر کنڈا سسٹم پر چل رہے ہیں۔

بڑے بڑے گھروں کے اے سی کنڈے کے ہی زور پر چل رہے ہوتے ہیں جھونپڑیوں اور کچے مکانوں میں بھی کنڈا ہی ڈالا جاتا ہے اور تمام تعیشات زندگی سے استفادہ کرنے میں یہ لوگ پیش پیش رہتے ہیں بظاہر یہ محنت کش لوگ ہیں، رزق حلال کماتے ہیں لیکن حلال کی بجلی اور حلال کی مرغی کے بجائے چوری کی مرغی اور بجلی کی چوری دھڑلے سے کرتے ہیں۔ اسی طرح بے شمار لوگ ایسے ہیں جو ہزار، پانچ سو گز کے گھروں میں رہتے ہیں۔ تجارت کرتے ہیں یا بڑے عہدوں پر فائز ہیں ضروریات کی تمام چیزیں میسر ہیں۔ دربان بھی رکھتے ہیں اور دسترخوان بھی وسیع جس پر انواع و اقسام کے کھانے چنے جاتے ہیں مہمان نوازی کے بھی قائل ہیں، نمازی، خیرات زکوٰۃ دینے والے اور اوپر کا ہی ہاتھ اللہ کی مہربانی سے انھیں دیا گیا۔ دل بھی حاتم طائی کا ہے لیکن بجلی کی چوری میں بھی دریا دلی اور سخاوت کا مظاہرہ شان بے نیازی سے کرتے ہیں ان بجلی چوروں کی واردات کا طریقہ یکساں ہے۔

دن ڈھلا سورج اپنے کام سے فارغ ہوکر اپنے آشیانے کی طرف بڑھا۔ آسمان پر سیاہی کا ذرا رنگ گہرا ہوا، نیلے اور سیاہ مائل آسمان پر ستارے جھلملائے چندا ماموں نے کروٹ لی اور اپنا مکھڑا  دکھایا ادھر ان صاحبان نے کنڈا سنبھالا اور ایک جست میں ہی بجلی کے تاروں پر دے مارا، تیر اپنے نشانے پر بیٹھا۔ بجلی کا بل ختم، اے سی چل گئے، جنریٹر نے کام دکھایا، مزدوروں اور دہقانوں کے گھر بھی روشن ہوئے ٹی وی چل گئے ٹوٹے پھوٹے زنگ آلود پنکھے ہوا دینے لگے اور یہ غرباء و مزدور طبقہ نیند کی آغوش میں پہنچ گیا اور امراء نے لیپ ٹاپ اور ایل سی ڈی پر انڈین نئی فلمیں دیکھنی شروع کر دیں۔ بچے اپنے کمروں میں ٹی وی کے گرد بیٹھ گئے اور اپنے پسندیدہ پروگرام دیکھنے لگے اور گھر جنت کا نقشہ پیش کرنے لگا، لیکن افسوس! ان لوگوں کو جیتے جی جہنم میں جھونک دیا گیا، ایک تو اے سی گھروں میں نہیں اور ایمانداری کا یہ عالم کہ بجلی کے تار گھروں کے سامنے موجود، ان کے ایمان کی آزمائش کر رہے ہیں، لیکن ایمان پختہ ہے۔ کم آمدنی، لوڈشیڈنگ اور اس پر طرہ یہ کہ ان لوگوں کی بجلی کا وہ بل بھی ان کے ہی سر جو کنڈے پر چل رہے ہیں چونکہ کے ای ایس سی کے ادارے کے لوگ اتنے بے وقوف تو نہیں کہ بجلی چوروں کا بل اپنے ذمے لے لیں اور خسارہ اٹھائیں۔ نہیں جناب نہیں، بجلی کے پول پر ان کا اپنا ایک میٹر نصب ہوتا ہے جہاں کنڈوں سے چرائی گئی بجلی کا بل بنتا ہے اور پھر اس بل کی رقم کو بے چارے ایمان داروں کے بلوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ سوچیے ذرا کے ای ایس سی کا یہ کہاں کا انصاف ہے؟

اگر کم آمدنی والے لوگ جو کہ پلاٹوں پر جھونپڑیاں بنا کر زندگی بسر کر رہے ہیں ان سے ہی بل وصول کیا جائے تھوڑی رعایت کر دی جائے ماہانہ 300 یا 200 روپے بل مقرر کر دیا جائے تو بے چارے وہ لوگ زیادہ سے زیادہ بل دینے سے بچ جائیں گے جو اپنے گھر کے اخراجات اٹھانے میں پریشان حال ہیں لیکن دوسروں کے بلوں کی رقم دینے کے لیے خاموشی اور رازداری کے ساتھ مجبور کر دیے گئے ہیں۔ ان بد دیانت صاحب ثروت کا بل بھی یہی متوسط طبقہ ادا کرتا ہے۔

20 اگست کی ہی تو بات ہے جب پہلوان گوٹھ میں کروڑوں کی بجلی چوری پکڑی گئی۔ گویا نمبر 2 کام کرنے والوں کو ہی جینے کا حق ہے۔ پہلوان گوٹھ میں ایف آئی اے کی خصوصی ٹیم نے چھاپہ مار کر شادی ہال، درجنوں دکانوں اور رہائشی فلیٹوں میں بڑے پیمانے پر کی جانے والی بجلی کی چوری پکڑ لی اور عمارت کے مالک کو گرفتار کر لیا۔ یہ کارنامہ ایف آئی اے نے وفاقی حکومت کی ہدایت پر انجام دیا۔ لیکن افسوس کے ای ایس سی کا ادارہ اپنے فرائض سے غافل رہا۔ پہلوان گوٹھ میں کرفیو نہیں لگا ہوا تھا، برے حالات کے باوجود عام لوگوں کی آمد و رفت جاری تھی اور پی ایم ٹی بھی روڈ پر لگا ہوتا ہے گھر کے کمروں میں نہیں بات ایک دو ماہ کی نہیں برسوں پر مشتمل ہے۔ لیکن بقول کے ای ایس سی کے ذمے داران کے  خراب حالات کے باعث ہم وہاں جا نہیں سکتے تھے۔

کے ای ایس سی کی غفلت نے عام لوگوں کو بے حد پریشان کیا ہوا ہے گلستان جوہر کے کئی رہائشی اور پوش علاقوں میں کنڈا سسٹم ہے۔ کیا ان لوگوں کی ذمے داری نہیں کہ وہ چیک کریں وقت کا تعین وہ خود کریں کے ای ایس سی کا عملہ وردی میں ملبوس تو ہوتا نہیں ہے کہ لوگ حفظ ماتقدم کے تحت احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ ہم تو اس بات اور واقعے کے بھی چشم دید گواہ ہیں کہ کئی لوگوں نے باقاعدہ کے ای ایس سی سے کنڈا چوروں کی شکایت کی، تحریری بھی اور زبانی بھی، لیکن مجال ہے کے ای ایس سی کی طرف سے اقدامات کیے گئے ہوں۔ کے ای ایس سی کی اس لاپرواہی کی وجہ سے وہ لوگ ضرور غمزدہ ہوتے ہیں جو باقاعدگی سے کنڈوں کا بل اپنے بل کے ساتھ بھرتے ہیں اور لوڈشیڈنگ کی تکلیف الگ اٹھاتے ہیں۔

کے ای ایس سی کے ادارے سے ایک سوال ہے وہ یہ کہ آخر وہ کنڈا سسٹم کے خاتمے کے لیے موثر اقدامات کیوں نہیں کرتا؟ یقینا اس کی کوئی ٹھوس اور معقول وجہ ہو گی۔ یا پھر اپنی ذمے داریوں سے چشم پوشی۔ اصل میں کسی بھی ادارے کا منتظم اعلیٰ، ایم ڈی اگر دیانتدار نہیں ہو گا تب تمام ملازمین بھی اپنی ذمے داریوں کو احسن طریقوں سے انجام نہیں دیں گے۔ کے ای ایس سی کی یہ بدنصیبی ہی ہے کہ نہ اسے اپنوں نے اپنا سمجھا اور نہ غیروں نے۔ بار بار یہ ادارہ بیچا گیا، منافع خوروں نے منافع کمایا اور اپنی راہ لی۔ اور اس بے چاری بجلی کی پیداوار میں دن بہ دن کمی آتی رہی۔ اس کے ساتھ سوتیلی ماں والا حساب ہوا۔ کے ای ایس سی کے اعلیٰ عہدیداران اور حکومت نے بھی بجلی کی 13 گھنٹے لوڈشیڈنگ کر کے عوام پر ظلم کا نیا سلسلہ شروع کیا ہے۔ ماہ رمضان میں بھی نہیں بخشا گیا۔ اس ادارے کا فرض تھا اور ہے کہ وہ کنڈا سسٹم کے مکمل طور پر خاتمے کے لیے کام کرے اور عوام کو روشنی اور ٹھنڈک مہیا کرے اس ادارے کے ظلم اور لاپرواہی نے بے شمار لوگوں کو زندہ درگور کر دیا ہے روزگار ختم ہو گئے ہیں کارخانے بند کر دیے گئے ہیں۔ لوگوں کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہو چکے ہیں لوگ خودکشی کرنے پر مجبور ہیں۔ جو کام کرنے چاہئیں وہ کرتے نہیں ہیں نتیجہ اس کا یہ ہے کہ ملک میں بدامنی کا دور دورہ ہے۔ روزانہ لوگ کے ای ایس سی کے خلاف مظاہرے کرتے ہیں، لیکن فائدہ کچھ نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔