مسلم لیگیوں میں مایوسی

شیر محمد چشتی  بدھ 28 اگست 2013

پاکستان مسلم لیگ (ن) نے 11 مئی کے انتخابات میں سابقہ حکمران پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کو  شکست دیکر تاریخی کامیابی حاصل کی۔ اس کامیابی میں جہاں تک گزشتہ حکمرانوں کی ناقص طرز حکومت، دہشت گردی، عوام کے جان و مال کے عدم تحفظ، بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے ہزاروں کارخانوں اور فیکٹریوں کی بندش کے نتیجے کے طور پر لاکھوں افراد کی بیروزگاری تھی وہاں پر مسلم لیگ کے صدر میاں نواز شریف کی شخصیت کی قیادت میں مسلم لیگی قائدین اور کارکنوں کی مقبولیت، کاوشوں، بے لوث خدمات کا بھی دخل تھا۔ میاں نواز شریف کے بعد دوسرے قائد جن کا اس کامیابی میں اہم کردار ہے وہ صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور بہترین منتظم صوبائی مسلم لیگ کے صدر شہباز شریف ہیں۔

اس کامیابی کے بعد کئی آزاد ارکان جو اس الیکشن میں کامیاب ہوئے تھے وہ بھی مسلم لیگ کی مقبولیت دیکھ کر اس میں شامل ہو گئے اور اس طرح پارٹی کی تقویت کا باعث بنے۔ خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے اضافے کے بعد اس پارٹی کو بہت واضح اکثریت مل گئی اور اسمبلی سے بل پاس کرنے کی مطلوبہ تعداد حاصل ہو گئی ہے۔ اب کوئی پارٹی اسے بلیک میل نہیں کر سکتی۔ اﷲ تعالیٰ نے قومی اسمبلی کے ایوان میں بہت بڑی اکثریت سے نوازا ہے۔ یہی اس پارٹی کے قائد، دوسرے ساتھیوں اور کارکنوں کی خواہش تھی جو اﷲ تعالیٰ نے اس پارٹی پر اپنا انعام عطا کرتے ہوئے پوری کر دی۔ اس عظیم فتح کی خوشی میں پارٹی کے وابستگان نے جگہ جگہ خداوند تعالیٰ کے حضور شکرانے کے نوافل ادا کیے۔ مسلم لیگ کے قائدین صدر سے لے کر عام کارکن اور لاکھوں حمایتی ووٹرز شاداں و فرحاں تھے اور خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ اس کے بعد انھوں نے تاریخی کارناموں سے اپنے کاروبار حکومت کا آغاز کیا۔

صوبہ بلوچستان میں اپنی واضح اکثریت کے باوجود فراخدلی سے حکومت وہاں کی ایک نیشنلسٹ پارٹی کو دیدی۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں اتحادیوں کے ساتھ مل کر اپنی حکومت بنا سکتے تھے۔ جس کی اپنے ملک کی سیاسی تاریخ میں کئی مثالیں موجود ہیں۔ لیکن انھوں نے وسعت ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی مخالف سنگل لارجسٹ پارٹی تحریک انصاف کو حکومت بنانے کا موقع فراہم کیا۔ صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی اکثریت دیکھ کر اسے حکومت بنانے میں مدد دی۔ صرف صوبہ پنجاب میں جہاں ان کی دو تہائی سے زیادہ اکثریت سے صرف وہاں اپنی حکومت بنائی۔ بڑی گہری سوچ بچار اور بڑے غور و خوض کے بعد قومی خزانے کی حالت کو مد نظر رکھتے ہوئے چھوٹی سی مرکزی کابینہ تشکیل دی۔ یہاں تک سب ٹھیک تھا لیکن اس کے بعد کچھ مواقعے آئے جن کی وجہ سے پارٹی کے قائدین اور کارکنوں میں بدقسمتی سے کچھ مایوسی پیدا ہوئی اگر بر وقت فیصلے کیے جاتے تو یہ نہ ہوتا۔

ایک فیصلہ تو صوبہ پنجاب کے نئے گورنر کی تعیناتی کا تھا۔ صوبہ کے گورنر مخدوم احمد محمود نے اپنی حامی پارٹی کی عبرتناک شکست کے بعد دوسرے ہی دن مستعفی ہونے کا فیصلہ کر لیا اور اپنا استعفیٰ صدر مملکت کو بھیج دیا۔ لیکن وزیر اعظم پاکستان نواز شریف اور دوسرے مسلم لیگی قائدین نے مخدوم صاحب سے درخواست کی کہ کچھ دن ٹھہر جائیں تا کہ ہم کوئی مناسب سی شخصیت تلاش کر لیں۔ اس تلاش میں انھوں نے دیر کر دی اور دو ماہ کے بعد فیصلہ کیا کہ صوبہ کے آئندہ گورنر چوہدری محمد سرور ہونگے۔ چوہدری صاحب اس وقت برطانیہ میں تھے اور چالیس سال سے قیام پذیر تھے۔ انھیں اپنے کاروبار اور دیگر ضروری کاموں کو نمٹانے میں ظاہر ہے کچھ وقت لگنا تھا اس لیے وہ جلدی نہ آ سکے۔

صوبہ پنجاب میں اور بھی کئی محترم شخصیات اس عہدے کے لیے موجود تھیں ان کے دلوں میں اس عہدے کے لیے آرزو تو تھی لیکن دل کے نہاں خانے میں چھپی ہوئی تھی۔ جوں جوں اس فیصلے میں دیر ہوتی گئی یہ آرزو انگڑائیاں لینے لگ گئی اور ان شخصیات نے یہ محسوس کرنا شروع کر دیا کہ کاش اعلیٰ قیادت کی نظر ان پر پڑ جائے۔ ساتھ ہی صحافی حضرات نے اپنے فرائض منصبی کے دائرہ کار سے تجاوز کرتے ہوئے اپنی اپنی پسند کے اُمیدواروں کی حمایت میں قومی اخبارات میں کالم اور مضامین لکھنے شروع کر دیے اور کئی اُمیدوار پیدا کر دیے۔ ان محترم صحافیوں نے امیدواروں کے دلوں کی آرزو کو آگ لگا کر بھڑکا دیا۔ جب چوہدری محمد سرور کا باقاعدہ اعلان ہوا تو ان متوقع اُمیدواروں میں مایوس پیدا ہوئی اور قیادت کے بارے میں ان کے اندر شکایت نے جنم لیا۔ اگر گورنر کے بارے میں جلدی فیصلہ ہو جاتا تو یہ شکایتیں اور بدگمانیاں پیدا نہ ہوتیں۔

اب دوسرا مسئلہ آتا ہے صدارتی اُمیدوار کے چنائو کا۔ چونکہ وزیر اعظم کا تعلق صوبہ پنجاب سے ہے اس لیے صدر مملکت کا تعلق دوسرے تینوں صوبوں سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں سے کسی صوبے سے ہونا تھا۔ موجودہ سیاسی صورتحال کے مطابق صدر کی ذات کے لیے دوسرے صوبوں کے مقابلے میں بہترین چوائس صوبہ سندھ سے کسی شخصیت کے بارے میں ہونا تھی۔ یہاں بھی کئی محترم شخصیات اس عہدے کے معیار پر پوری اترتی ہیں لیکن سیاسی تجربہ پارٹی وفاداری کی بناء پر بہترین انتخاب صوبہ سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ اور صوبائی مسلم لیگ کے صدر جناب جسٹس ریٹائرڈ غوث علی شاہ کا تھا۔ انتخابات سے پہلے دیگر لوگوں کی طرح میرا یہی خیال تھا کہ آئندہ صدر مملکت شاہ صاحب ہی ہونگے۔ اس مرحلے پر بھی صحافی اور دوسرے دوستوں نے اپنی اپنی پسند کے اُمیدوار میدان میں اتارنے شروع کر دئیے اور مسلم لیگی قیادت کو مشکل میں ڈال دیا۔ سب سے زیادہ زور سید غوث علی شاہ کے بارے میں تھا۔

سندھ کے کئی شہروں اور مختلف علاقوں سے شاہ صاحب کی حمایت میں جلوس نکالے گئے اور اہم مطالبہ خیر پور میں تین ہزار وکلاء کی طرف سے آیا۔ اب ذرا غور سے سوچیے کہ شاہ صاحب نے قومی اور صوبائی اسمبلی کے الیکشن لڑے لیکن خیر پور کے عوام نے ان کو شکست دی۔ نیز صوبہ سندھ میں جہاں شاہ صاحب پارٹی کے صدر تھے وہاں بھی مسلم لیگ کی کارکردگی صفر تھی۔ لیکن پھر بھی کچھ لوگوں نے آسمان سر پر اُٹھا رکھا کہ شاہ صاحب کو صدر مملکت بنایا جائے۔ مسلم لیگی قیادت کے ہاتھ میں ایک اہم جواز آ گیا کہ شاہ صاحب کو جب ان کے اپنے علاقے کے عوام نہیں چاہتے تو ہم کیا کریں۔ کئی مسلم لیگی قائدین جن کا نمبر غوث علی شاہ کے بعد آتا تھا ظاہر ہے ان ہی میں سے کسی ایک کا انتخاب ہونا تھا اور اس سلسلے میں ہما جناب ممنون حسین کے سر پر بیٹھ گیا۔ یہاں بھی صورتحال کو مناسب انداز میں نہیں سنبھالا گیا اگر فیصلہ جلدی ہو جاتا تو مختلف حضرات کو اُمیدیں باندھنے اور پھر مایوس ہونے کا موقع نہ ملتا۔ خدا کا شکر ہے کہ صوبہ بلوچستان میں گورنر اور وزیر اعلیٰ کے بارے میں نہایت تسلی بخش فیصلے ہوئے۔ اب صوبہ سندھ اور خیبر پختونخوا میں گورنروں کا مسئلہ بھی وہاں کی سیاسی ضرورتوں کو مد نظر رکھ کر جلد سے جلد فیصلہ کیا جائے۔ یہاں بھی جتنی دیر ہوتی جا رہی ہے صحافی حضرات اپنی اپنی پسند کے اُمیدواروں کو میدان میں اُتارنے سے پیچھے نہیں ہٹ رہے۔

وفاقی کابینہ بہت مختصر ہے اس میں وزراء کا اضافہ کیا جائے، چند ممبران اسمبلی کو سفارت کار اور کچھ کو کارپوریشنوں کی سربراہی دی جائے۔ جہاں تک اخراجات کا تعلق ہے تو وہ سب وزراء کرام کی تنخواہوں اور مراعات میں کمی کر کے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ مسلم لیگی قیادت کو غیر مطمئن شخصیات کو مطمئن کرنے کے لیے کچھ کرنا پڑے گا ورنہ مایوسی بڑھ بھی سکتی ہے جو پارٹی کے نقصان کا باعث ہو گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔