پھر وہی ’’ہم‘‘ اور ہم

سعد اللہ جان برق  بدھ 29 مئ 2019
barq@email.com

[email protected]

مت پوچھیے کہ ہمیں زندگی اور پھر خاص طور پر پیشہ ورانہ محققانہ زندگی میں پہلی بار کتنی بڑی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے، ہم خود تو شرم کے مارے پانی پانی، پسینہ پسینہ اور لسی لسی ہو رہے ہیں لیکن جن اداروں اور اکیڈمیوں نے ہمیں اتنی بڑی بڑی ڈگریاں، گولڈ میڈلز اور بے پناہ شاباشیاں دی ہیں وہ کیسی شرمندہ ہوں گی کہ ہم ایک چھوٹا سا تحقیقی پراجیکٹ بھی سر نہیں کر پائے کہ یہ مشہور و معروف بلکہ بدنام زمانہ اور رسوائے عالم مسمی ’’ہم‘‘ کون ہے؟ کیا  ہے ؟ کیوں ہے؟ اور کس لیے ہے؟

اور آج کل تو اس کم بخت بدبخت تیرہ بخت کا ویئر اباوٹ معلوم کرنا اس لیے ضروری ہے کہ تقریباً ہر وزیر لیڈر کے بیانوں میں اور دانا دانشوروں کی دکانوں میں ’’ہم‘‘ ہو رہا ہے، بلکہ ہماُ ہما کر بھیا۔ اس ہم ہم سے ڈر بھیا: اپنی ناکامی کا صدمہ تو ہمیں ہے لیکن اس سے زیادہ فکر اس بات کی ہے کہ اگر اس ’’ہم‘‘ کا پتہ جلدی نہیں لگایا جا سکا تو کتنا بڑا ’’انرتھ‘‘ ہو جائے گا کیونکہ پورے ستر سال کے ہزاروں کام اس کے لیے جمع ہو چکے ہیں۔ یوں کہیے کہ عدالتوں میں اتنے مقدمات پینڈنگ نہیں پڑے ہوں گے جتنے اس ’’ہم‘‘ کے ذمہ کرنے والے کام پڑے ہیں۔

اس سلسلے میں اپنے ملک کے اعداد و شمار کا تو پتہ نہیں لیکن پڑوسی ملک کے بارے میں ایک بے وثوق ذریعے سے معلوم ہوا ہے کہ اگر عدالتیں کوئی نیا مقدمہ نہ بھی لیں تو پینڈنگ مقدمات اگر تیز رفتاری سے بھی نمٹائے جائیں تو اوور ٹائم لگا کر تین سو سال میں بمشکل نپٹائے جا سکیں گے اور غالباً اسی بات پر طیش میں آ کر سنی دیول نے وہ تاریخ یہ تاریخ۔ تاریخ پہ تاریخ کا نعرہ لگایا تھا۔ ہمیں مقدمات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے صرف اس کم بخت ’’ہم‘‘ کے کرنے والے کاموں کا آپ کو اندازہ کرانا ہے۔جو ’’مقدمات‘‘ سے کم از کم دس گناہ تو ہوں گے اور یہ ہم کوئی  ہوائی نہیں اڑا رہے ہیں ابھی اسی وقت ثابت کر کے دکھا بھی دیں گے۔ بتائیے اس ملک میں کتنے لوگ ہیں۔ پچیس بیس کروڑ۔ پھر اس میں سے آدھے نکال دیں ، صافی آبادی دس کروڑ ہو گئی اور یہ دس کروڑ لوگ دن میں کتنی مرتبہ ’’ہم ہم‘‘ کرتے ہوں گے۔ ہمیں سچا مسلمان ہونا چاہیے، ہمیں سچا محب وطن ہونا چاہیے، ہمیں اپنے اعمال درست کرنے چاہیے۔ اور باقی نو کروڑ نو لاکھ نوے ہزار نو سو ننانوے لوگوں کے بھی۔ ہمیں بچت کرنا چاہیے۔

ہمیں فضول خرچی نہیں کرنا چاہیے، ہمیں ’’باتوں‘‘ میں وقت ضایع نہیں کرنا چاہیے، ہمیں پڑھنا چاہیے، پڑھانا چاہیے، ہمیں لوگوں کے کام آنا چاہیے، ہمیں ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر ملکی مفاد پر دھیان دینا چاہیے، ہمیں غیر ملکی چیزیں نہیں استعمال کرنا چاہیے، بی پاکستانی بائی پاکستانی، فہرست لمبی ہے، یوں سمجھ لیجیے کہ اب تک دنیا میں جو بھی ’’کام‘‘ پیدا ہوئے ہیں ان میں آدھے ہم کو کرنا چاہیے اور آدھے نہیں کرنا چاہیے۔ چندہ اور پھر وہ چند در چند یعنی چنیدی چنیدی کرنا۔ اتنا سارا کام پینڈنگ اور کرنے والا ’’ہم‘‘ غائب۔ ہم تو خیر ناکام ہو گئے ہیں لیکن اگر حکومت چاہے تو یہ کام کر سکتی ہے ۔کرنا صرف اتنا ہو گا کہ اپنی تمام چھوٹی بڑی سوئیوں کو جنگی بنیادوں پر اس کام میں لگا دے، ان کے منہ سے ’’بیانات‘‘ کی رپیڈ فائروں اور ہونٹوں سے میٹھے دودھ کے نپلز کچھ دنوں کے لیے چھڑانا ہوں گے۔

پھر ان سب کو مختلف کمیٹیوں ٹربیونلوں اور کمیشنوں میں تقسیم کر کے ایک جگہ بٹھانا ہو گا تاکہ وہ سر جوڑ کر اور اپنی اپنی جوئیں دوسرے سر میں چھوڑ کر معلوم کریں کہ مطلوب اور وانٹڈ اشتہاری اخباری اینکری  چنپلی بدمعاش کہاں بیٹھا ہوا ہے؟۔ اس کی ضرورت یوں آ پڑی تھی کہ پہلے تو پرچون قسم کے کام اس ’’ہم‘‘ سے کروانے ہوتے تھے ’’ہم‘‘ کو یہ کرنا چاہیے اور ہم کو وہ کرنا چاہیے۔ لیکن اب کے کچھ بڑے بڑے اکابرین اور دانا دانشوروں نے قرار دیا ہے کہ چھوڑ کر سلیم کی گلی اور اس ڈسکو انارکلی یعنی ’’ہم‘‘ کو ہنگامی اور جنگی بنیادوں پر ’’حقیقت پسندانہ سوچ‘‘ انقلابی اقدامات اور دور رس حرکات کرنا چاہیں کیونکہ ملک حسب سابق حسب تاریخ حسب حال اور حسب معمول ’’نازک دور‘‘ سے گزر رہا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ آخر اس ہمارے ملک کو یہ ’’نازک دور‘‘ اتنا پسند کیوں ہے کہ اسے چھوڑ ہی نہیں رہا ہے۔ اتنے عرصے میں تو لوگ سگریٹ، شراب، چرس یہاں تک کہ افیون تک چھوڑ دیتے ہیں لیکن یہ کم بخت ’’نازک دور،

چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی

کام مشکل ضرور ہے کیونکہ ستر سال کی عادت ہے لیکن ناممکن نہیں ہے اگر ’’ہم‘‘ صحیح کوشش کریں تو۔ ملک بہت نانا کرے گا پیر اڑائے گا کہ ’’میں نہیں جانڑا، وے میں نہیں جانڑا وے‘‘ اپنے نازک دور کو چھوڑ کر۔ لیکن کبھی کبھی عادت بد چھڑوانے کے لیے سختی بھی کرنا پڑتی ہے جیسے داغؔ دہلوی کے ساتھ اس کے دوستوں اور رشتہ داروں نے کی تھی:

داغِ وا رستہ کو ہم آج ترے کوچے سے

اس طرح کھینچ کے لائے ہیں کہ جی جانتا ہے

بہرحال اب اس ’’نازک دور‘‘ سے ملک کو چھڑانے کی یہی تدبیر رہ گئی کہ ’’ہم‘‘ کو تلاش کر کے اسے تسلی دلاسہ دے کر حوصلہ بڑھا کر پیشگی شاباشی دے کر اس کام پر آمادہ کیا جائے۔ لیکن۔ اور پھر لیکن اور سو مرتبہ لیکن یہ کہ اس ’’ہم‘‘ کو کہاں اور کیسے ڈھونڈا جائے۔ تو اس سلسلے میں ہم آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتے، اگر یہ اتنا آسان ہوتا۔ تو اب تک ہم اسے ڈھونڈ کر اپنے ماتھے پر ناکامی کا کلنک کیوں لگاتے۔ البتہ ایک شعر آپ کی نذر کر سکتے ہیں:

دور ہوتا تو اسے ڈھونڈ بھی لیتے لیکن

مجھ میں وہ چھپ کے جو بیٹھا اسے پائیں کیسے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔