اگلے مالی سال کے بجٹ کی تیاریاں آخری مرحلے میں داخل ہو گئیں

ارشاد انصاری  بدھ 29 مئ 2019
حکومتی اداروں اور شعبہ توانائی میں خرچے کم کرنے سے وسائل و مالی خسارہ کم ہوگا۔ فوٹو: فائل

حکومتی اداروں اور شعبہ توانائی میں خرچے کم کرنے سے وسائل و مالی خسارہ کم ہوگا۔ فوٹو: فائل

 اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کی حکومت گیارہ جون کو اپنا پہلا باضابطہ بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے جس کی تیاری اختتامی مراحل میں ہے اور کپتان کی معاشی ٹیم کے سربراہ مشیر خزانہ بجٹ تجاویز کو حتمی شکل دینے کیلئے وزارت خزانہ اور ایف بی آر سمیت دیگر متعلقہ وزارتوں میں دن رات کام جاری رکھے ہوئے ہیں ۔

وزارت منصوبہ بندی کی جانب سے اگلے مالی سال کیلئے وفاقی پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت ترقیاتی بجٹ کا حجم 925 ارب روپے تجویز کیا گیا ہے جس میں اڑھائی سو ارب روپے کے لگ بھگ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت رکھے جا رہے ہیں۔

دوسری جانب مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ ہفتہ وار تعطیلات کو خاطر میں لائے بغیر بجٹ تخمینہ جات کی تیاری میں مصروف ہیں اور گذشتہ تین روز کے مسلسل اجلاسوں کے بعد اگلے مالی سال کیلئے بجٹ سٹریٹجی پیپر تیارکیا گیا ہے جس کا وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت منگل کو ہونیوالے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں جائزہ لیا گیا ہے اور توقع کی جا رہی ہے جون کے پہلے ہفتے بجٹ کو حتمی شکل دیدی جائے گی۔

کپتان کی اقتصادی ٹیم کے سربراہ حفیظ شیخ نے وزیر منصوبہ بندی خسرو بختیار، وزیر توانائی عمر ایوب، مشیر اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان، وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر، سیکرٹری خزانہ نوید کامران بلوچ اورچیئرمین ایف بی آڑ شبر زیدی کے ہمراہ پچھلے ہفتے بھرپور پریس کانفرنس میں حکومتی روڈ میپ کا اعلان کرتے ہوئے اگلے بجٹ کو معاشی استحکام کا بجٹ قرار دیا ہے اور عوام کو مشکل وقت ختم ہونے کی بھی نوید سنائی ہے اور اگلے چھ سے آٹھ ماہ ترقی کے قرار دئیے ہیں۔

مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے اگلے بجٹ میں مالی کفایت شعاری اپنانے کا اعلان کرتے ہوئے سول اور فوجی اخراجات میں کمی کا عندیہ بھی دیا ہے اور انکا کہنا تھا کہ اگلے بجٹ میں حکومتی اخراجات کم کرنے کیلئے سویلین اور فوج ایک پیج پر ہیں، بجٹ میں کفایت شعاری کو اپنایا جائے گا، حکومتی اخراجات کم رکھے جائیں گے، ہم سب ایک ساتھ کھڑے ہیں، تاہم ان کا کہنا تھا کہ عالمی مالیاتی فنڈ بورڈ کی منظوری تک معاہدہ منظر عام پر نہیں لا سکتے اور توقع ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری ہو جائے گی،اگلے مالی سال کے بجٹ میں ٹیکس وصولیوں کا ہدف 55 سو ارب روپے مقرر کیا جا رہا ہے۔

اگلے بجٹ میں سب کی شراکت داری (Contribution) نظر آئے گی۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ملکی خود مختاری و بقاء سب سے اولین ہے، باقی سب کچھ اس کے بعد آتا ہے اور کوئی شک میں نہ رہے، ملکی دفاع و خودمختاری کیلئے جو قربانی دے سکیں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی عوام کا مشکل وقت ختم ہونے کو ہے،آئندہ 6 سے 12مہینوں میں معاشی استحکام کی طرف جائیں گے۔ خسرو بختیار کا کہنا ہے کہ اگلے مالی سال میں پی ایس ڈی پی کے تحت وفاق کا ترقیاتی بجٹ 729 ارب روپے رکھا جا رہا ہے۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت ترقیاتی منصوبوں کیلئے اڑھائی سو ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

اگرچہ قوم کو گزشتہ ستر سال سے سہانے سپنے دکھائے جا رہے ہیں اور اب کی بارعوام کو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سے کچھ مختلف توقعات وابستہ تھیں اور اس کی بنیادی وجہ شائد وہ پرکشش بیانیہ تھا جو پی ٹی آئی نے اقتدار میں آنے سے پہلے عوام کو دیا اور اب جب حکومتی اقدامات اس بیانیے سے ٹکراتے ہیں تو عوام سوال اٹھاتے ہیں اور یہی وہ وجہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت عوامی مقبولیت کھو رہی ہے جس سے اپوزیشن مضبوط ہو رہی ہے۔

ابھی بھی پسمنادہ طبقے کو ریلیف دینے کی باتیں تو ہو رہی ہیں اور اگلے بجٹ میں صرف بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافے کے اثرات سے پسماندہ طبقے کو بچانے کیلئے دو سو سولہ ارب روپے رکھے جا رہے ہیں لیکن مہنگائی کا سونامی جس تیزی سے بڑھ رہا ہے اس سے عوام میں خوف پایا جا رہا ہے اور عوام میں عدم اعتماد بڑھتا جا رہا ہے ۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف کے سائے تلے بننے والے بجٹ میں عوام کیلئے کسی خیر کی توقع کرنا مشکل ہے اور اگرچہ مشیر خزانہ نے آئی ایم ایف بورڈ سے پروگرام کی منظوری تک آئی ایم ایف سے معاہدے کی تفصیلات سامنے نہ لانے کی مجبوری ظاہر کی ہے لیکن اس کا کیا کریں جو سٹاف سطح کے معاہدہ کے بعد آئی ایم ایف نے خود سے جاری کردیا اور اس میں جو تفصیلات سامنے آئی ہیں وہ عوام کیلئے ایک نئے امتحان سے دوچار ہونے کا پتہ دے رہی ہیں کیونکہ حکومت نے بجلی اورگیس مزید مہنگی کرنے کیلئے آئی ایم ایف کی شرط مان لی ہے اور پاکستان آئندہ بجٹ کے خسارے میں 0.6 فیصد کمی لائے گا۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کا تعین مارکیٹ کے طے کرنے سے مالی شعبے میں بہتری آئے گی۔

حکومت پاکستان نے اسٹیٹ بینک کی خود مختاری قائم رکھنے کی یقین دہانی کرائی ہے یہی نہیں کہ اسٹیٹ بینک غریبوں پر اثر انداز مہنگائی کم کرنے پر توجہ دے گا اسٹیٹ بینک کو پاکستان کے مالی استحکام پر توجہ دینا ہوگی، مارکیٹ کی جانب سے شرح تبادلہ کے تعین سے مالی شعبہ میں بہتری آئے گی، معیشت کیلئے بہتر وسائل مختص ہو سکیں گے، پاکستان آئندہ 3 سالوں میں پبلک فنانسنگ کی صورتحال میں بہتری اور انتظامی اصلاحات سے ٹیکس پالیسی کے ذریعے قرضوں میں کمی لائے گا۔

حکومتی اداروں اور شعبہ توانائی میں خرچے کم کرنے سے وسائل و مالی خسارہ کم ہوگا، لیکن آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانے پر اتفاق کے بعد سے ملک کی کیپیٹل مارکیٹ مسلسل بے یقینی کی صورتحال سے دوچار ہے اور حکومتی مداخلت کے باعث چند روز ملکی سٹاک مارکیٹ میں استحکام اور اضافہ دیکھنے میں آیا مگر یہ بڑھوتری زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکی اور منگل کو پاکستان اسٹاک ایکسچینج بھی مندی کا شکار رہی اور 100 انڈیکس میں 700 سے زائد پوائنٹس کی کمی دیکھنے میں آئی جس کے باعث انڈیکس نے 35 ہزار کی نفسیاتی حد کھو دی۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے سی ای او رچرڈ مورن نے استعفی دے دیا ہے۔

گزشتہ دنوں مفادات کے ٹکراؤ کی بناء پر پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے چیف ایگزیکٹو آفیسر رچرڈ مورن کو شوکاز نوٹس دیا گیا تھا۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے سی ای او رچرڈ مورن کا استعفیٰ منظور کر لیا ہے۔ اس کے علاوہ روپے کی قدر میں بھی کچھ دن بہتری کے بعد پھر سے گراوٹ آئی ہے اور منگل کو روپے کی قدر میں ایک بار پھر کمی دیکھنے میں آئی ہے جس کے بعد انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں ایک روپے 26 پیسے کا اضافہ ہوگیا ہے۔ گزشتہ روز روپے کی قدر میں استحکام دیکھنے میں آیا تھا، تاہم آج کاروبار کے آغاز پر روپے کی قدر میں ایک بار پھر کمی دیکھنے میں آئی ہے جس کے بعد انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت ایک روپے 26 پیسے اضافے کے بعد 151 روپے تک پہنچ گئی ہے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ عوام پر جس قدر بوجھ ڈالر جارہا ہے ایسے میں بیلنس کرنے کیلئے حکومت کو کچھ ریلیف دینا ہوگا، ورنہ یہی بجٹ حکومت کے گلے پڑ جائے گا اور ویسے بھی اپوزیشن عید کے بعد حکومت کے خلاف دما دم مست قلندر کرنے کا اعلان کر چکی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔