سانحات اور ہمارا انصاف

شہاب احمد خان  جمعـء 31 مئ 2019
سانحہ ساہیوال کے متاثرین آج بھی انصاف کے منتظر ہیں۔ (فوٹو: فائل)

سانحہ ساہیوال کے متاثرین آج بھی انصاف کے منتظر ہیں۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں سانحات کا تسلسل معمول کی بات ہوکر رہ گئی ہے۔ پاکستانی قوم کو تو اب تک ان سانحات کا عادی ہوجانا چاہیے تھا۔ کیونکہ اس قسم کے سانحات ہمارے ملک میں متواتر ہوتے رہتے ہیں۔ کبھی سانحہ ماڈل ٹاؤن تو کبھی سانحہ ساہیوال، کبھی کچھ اور۔ متاثرین تو شاید بدل جاتے ہوں لیکن ان تمام سانحات میں ایک کردار مستقل ہوتا ہے وہ ہے ہماری پولیس۔

کبھی ہم نے غور کرنے کی زحمت بھی کی ہے کہ اس قسم کے سانحات کے متاثرین کو انصاف کیوں نہیں ملتا؟ اس کےلیے کسی طویل ریسرچ کی ضرورت ہے، نہ کسی غیر معمولی بصیرت کی۔ اس ناانصافی کی جڑیں ہمارے سیاسی نظام سے جڑی ہوئی ہیں۔ ہمارا گلا سڑا سیاسی نظام ہمیں انگریز سے ورثے میں ملا ہے۔ اس نظام کی بنیاد انگریز نے اپنے ملک میں تو انصاف پر رکھی تھی مگر اپنی کالونیوں میں اس نظام کی بنیاد بندر کے انصاف پر رکھی۔ (پاکستان میں اکثر پڑھے لکھوں نے ’’بندر کا انصاف‘‘ نامی کہانی ضرور پڑھی ہوگی)۔

انگریز یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ برصغیر میں وہ ایک غاصب کے طور پر آیا ہے۔ اور آج نہیں تو کل اس نے یہاں سے جانا ہی ہوگا۔ اس لیے اپنے اقتدار کو طول دینے کےلیے ایک ایسا نظام بنایا جس میں عوام کو قابو میں رکھنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بے تحاشا اختیارات دیئے گئے۔ ہر قسم کا ظلم کرنے کی اجازت قانون نافذ کرنے والوں کو ہمیشہ حاصل رہی۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد جب چرچل سے کسی نے پوچھا تھا کہ جنگ کی اتنی تباہ کاریوں کے بعد اب برطانیہ کا کیا بنے گا؟ تو اس کے جواب میں چرچل نے خود ایک سوال پوچھنے والے سے کیا تھا ’’کیا برطانیہ میں عدالتیں انصاف کررہی ہیں۔‘‘ اس کے جواب میں کہا گیا تھا کہ ہاں عدالتیں انصاف کررہی ہیں. تو چرچل نے کہا تھا کہ جب عدالتیں انصاف کررہی ہیں تو برطانیہ کو کچھ نہیں ہوگا۔ چرچل نے یہ نہیں پوچھا تھا کہ کیا برطانیہ کی اسلحہ ساز فیکٹریاں اسلحہ بنا رہی ہیں۔ کیوں کہ انگریز ایک پڑھی لکھی اور مہذب قوم ہے۔ انھیں معلوم ہے کہ مملکتیں اسلحے کے ڈھیر سے نہیں بلکہ انصاف کی بلاتفریق اور بلاتعصب فراہمی سے ہی قائم رہتی ہیں۔

جب انگریز یہاں سے گیا تو یہی گلا سڑا پولیس کا نظام چھوڑ کرگیا۔ اس نظام کو جوں کا توں ہم نے اپنا لیا۔ اس پر سونے پہ سہاگہ ہمارے ان پڑھ اور خودغرض سیاست دان، جنھیں ہر وقت اقتدار سے چمٹے رہنے کی فکر کھائے جاتی ہے۔ انھیں یہ نظام اپنے مفاد میں نظر آتا ہے۔ اس لیے وہ اس میں کسی بھی تبدیلی کو اپنے اقتدار کےلیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس قسم کا سانحہ چاہے کسی بھی پارٹی کے دور حکومت میں ہو، آپ کو سیاست دان ہمیشہ پولیس کی حمایت میں بیان دیتے نظر آئیں گے۔ کیوں کہ پولیس اور سیاست دان ایک دوسرے کے دست و بازو بنے ہوئے ہوتے ہیں۔

ہمارے ملک میں نئی حکومت بلند بانگ نعروں کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی۔ لیکن ان کی کارکردگی پچھلی تمام حکومتوں سے زیادہ خراب ہے۔ ہر نیا دن عوام کےلیے مصیبت کا ایک نیا پیغام لاتا ہے۔ کبھی مہنگائی کا طوفان تو کبھی بجلی اور گیس کی اچانک لوڈشیڈنگ معمول کی بات ہے۔ ہماری قوم ان تمام صدمات کو جھیلنے کی ابھی عادی بھی نہیں ہوئی تھی کہ جوڈیشل ایکٹیوازم عوام کے سر پر ایٹم بم بن کر گرا ہے۔

ہماری عدالتوں کی ساکھ تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اگر کوئی شخص کسی قانونی مسئلے میں پھنس جاتا ہے تو اسے ایک ہی مشوره دیا جاتا ہے ’’وکیل کیوں کرتے ہو، ڈائریکٹ جج کرلو‘‘۔ دنیا کی نظروں میں پاکستان کے کرپٹ ترین اداروں میں عدلیہ پہلے نمبر پر ہے۔ اس پر طرّہ یہ کہ انہی عدالتوں کا چیف جسٹس قانون کا ڈنڈا لے کر سب کچھ ٹھیک کرنے نکل کھڑا ہوا تھا۔

قوم ایسے چیف جسٹس کو بھگت کر ابھی ابھی بیٹھی ہے، جو شاید اپنے آپ کو اس شہشاہ کی مانند سمجھتا تھا جس نے زنجیر عدل اپنے دروازے پر لٹکا رکھی تھی۔ اگر کوئی دوسرا اس زنجیر کو نہیں ہلاتا تھا تو وہ خود ہی زنجیر ہلا کر انصاف کرنے پہنچ جاتا تھا۔ انصاف کی ایسی بے دریغ فراہمی کے متاثرین ہر طبقے میں بکھرے پڑے ہیں۔ اس انصاف کے نتیجے میں سیکڑوں غریب اپنے گھروں کو اپنی آنکھوں کے سامنے مسمار ہوتے دیکھ چکے ہیں. سیکڑوں انسان کراچی میں اپنے پچاس پچاس سال سے جمے ہوئے کاروبار سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ اب ان کا کوئی والی وارث نہیں ہے۔ دوسری طرف یہ سب کچھ انصاف کی فراہمی کے ذمے دار ادارے کے نام پر کیا گیا ہے۔ اس پر طرفہ تماشا یہ کہ اپنی الوداعی تقریر میں اپنے مشن کی ناکامی کا اعتراف کرکے اور بیشمار انسانوں کی ’’دعائیں‘‘ سمیٹ کر باعزت ریٹائر بھی ہوگئے۔ اپنی شاہانہ ملازمت کے بعد شاید اب دیار غیر میں استراحت کا پروگرام بنارہے ہوں گے۔

لیکن بدلا کچھ بھی نہیں ہے۔ ابھی بھی قانونی مسئلے میں پھنسے ہوئے شخص کےلیے سب سے صائب مشوره یہی ہے کہ ’’وکیل کیوں کرتے ہو، ڈائریکٹ جج کرلو‘‘۔ آج بھی دنیا کی نظروں میں پاکستان کے کرپٹ ترین اداروں میں عدلیہ کا پہلا نمبر ہے۔ ظلم اور ناانصافی کی وجہ سے اپنا آدھا وجود گنوا کر بھی اس بات کو سمجھنے کےلیے ہمارے مقتدر ادارے، جنھیں عرف عام میں اسٹیبلشمنٹ کہا جاتا ہے، تیار نہیں ہیں کہ ظلم اور سازشیں کبھی بھی مملکت کو قائم نہیں رکھ سکتیں۔ اگر اپنی مملکت کو قائم رکھنا ہے اور اس کو ترقی دینی ہے تو قانون کی بالادستی اور انصاف کی بلاتفریق فراہمی ہی اس کا واحد ذریعہ ہے۔

اتنی خوفناک صورت حال میں کیا کوئی امید کی کرن کہیں سے نظر آرہی ہے۔ اس کا بہت آسان سا حل ہے۔ پہلے تو ہمیں قابل دست اندازی پولیس جرائم کی تعداد میں کمی کرنے کی ضرورت ہے۔ پولیس کو ہر معاملے میں کود پڑنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ دوسری تجویز یہ ہے کہ مقامی پولیس کا حقیقی نظام نافذ کیا جائے، یعنی پولیس اہلکار اسی شہر اور گاؤں کا ہونا چاہیے جہاں اسے تعینات کیا جائے۔ اس کا ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ وہ اکثر لوگوں کو ان کے کام اور رہائش سے جانتا ہوگا۔ اسے معلوم ہوگا کہ فلاں شخص کیا کام کرتا ہے، کہاں رہتا ہے؟ آیا وہ دہشت گرد ہو بھی سکتا ہے یا نہیں؟ سانحہ ساہیوال میں بھی اگر کوئی پولیس اہلکار انھیں بذات خود جانتا ہوتا تو شاید یہ سانحہ نہ ہوتا۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ پولیس اور سیاست دانوں کا گٹھ جوڑ ختم کرنا ہوگا۔ ہر اہلکار کو اپنی حدود اور قیود کا سبق اچھی طرح سے پڑھا دینا چاہیے۔ ہر اہلکار کو یہ بات اچھی طرح سے معلوم ہونی چاہیے کہ کون سے حکم کی تعمیل اس کےلیے ضروری ہے اور کون سا حکم اسے غیر قانونی طور پر دیا جارہا ہے، جس سے وہ انکار کرسکتا ہو۔

ہمارے یہاں بڑے صاحب ہی قانون ہوتے ہیں اور ان کا ہر حکم قانون بن جاتا ہے۔ اس صورت حال کو ختم کرنا ہوگا۔ اگر ہم اپنے معاشرے کو بدلنا چاہتے ہیں تو ہمیں آج ہی سے اس کی کوشش کرنی ہوگی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

شہاب احمد خان

شہاب احمد خان

بلاگر اسلامک بینکنگ اور فائنانس میں ماسٹرز کی سند رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔