1 ٹرافی 10 طلبگار

حسنین انور  جمعرات 30 مئ 2019
کرکٹ کا جادو سر چڑھ کر بولنے کو تیار،ورلڈکپ کا آغازآج ہوگا۔ فوٹو: فائل

کرکٹ کا جادو سر چڑھ کر بولنے کو تیار،ورلڈکپ کا آغازآج ہوگا۔ فوٹو: فائل

کرکٹ کے سب سے بڑے میلے کا اسٹیج انگلینڈ میں سج چکا،کھیل کا جادو سر چڑھ کر بولنے کو تیار ہے، ٹرافی ایک اورطلبگار 10 ہیں، ہر ٹیم چمچماتے ٹائٹل سے اپنے شوکیس کی زینت بڑھانا چاہتی ہے۔

کسی کو اپنے ہارڈ ہٹرز پر ناز ہے تو کوئی اپنے اسپنرز کو کامیابی کی کنجی قرار دے رہا ہے، کسی کوریورس سوئنگ بولرز کا ساتھ خوشی سے سرشار کررہا ہے تو کوئی اپنی بیٹنگ پاور پر اترا رہا ہے، کوئی جدید کرکٹ کو ’ڈی کوڈ‘ کرنے کے زعم میں مبتلا ہے تو کسی کو اب بھی صلاحیتوں سے زیادہ ’دعاؤں‘ کا آسرا ہے۔

کچھ کھلاڑی اپنے کیریئر کا پہلا ورلڈ کپ کھیل رہے ہیں، کچھ اپنے آخری میگا ایونٹ کو یادگار بنانے کے خواہاں ہیں، کچھ سابق ایونٹس کے تجربوں سے ٹیم کو مستفید کرنے کے آرزو مند ہیں تو کچھ کی نظریں ذاتی تجربات پر منجمد ہیں۔

ورلڈ کپ کسی کیلیے فتح گر تو کسی کیلیے ستمگر ثابت ہوتا ہے، ہمیشہ ہی اس میں اسٹارز سامنے آتے ہیں اور یہ ایونٹ کئی اسٹارز کی جگمگاہٹ ہمیشہ کیلیے ماند بھی کرچکا ہے، اس میں پلیئرز زیرو سے ہیرو اور ہیرو سے زیرو بنتے ہیں۔

اس بار کرکٹ ورلڈ کپ کا فارمیٹ 1992 والا ہے جس کی بدولت پاکستان ٹیم نے مایوس کن آغاز کے باوجود چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ ایونٹ میں شریک تمام 10 ٹیموں کو ہر ایک سے دودو ہاتھ کرنے کا موقع میسر آئے گا، سب سے کامیاب 4 ٹیمیں سیمی فائنل میں پہنچیں گی اور پھر ٹرافی کیلیے فیصلہ کن معرکہ ہوگا۔

آئیں دیکھتے ہیں کہ ٹرافی کے 10 امیدواروں میں کتنا دم ہے، کس کی امیدوں کے سمندر میں طلاطم ہے اور کس کا پانی کم ہے۔

پاکستان

پاکستان کرکٹ ٹیم کی تیاریاں ہر بار کی طرح اس بار بھی آخری لمحات تک جاری اور انگلینڈ میں مسلسل ناکامیوں کے دوران پرانی خامیوں کو دور کرنے کا کام بھی ہوتا رہا۔ انگلینڈ کے خلاف 4 ون ڈے میچز میں بیٹنگ لائن نے کچھ بہتر پرفارم کیا مگر بولرز کی خراب ترین کارکردگی اور فیلڈرز کے دھوکا دینے کی وجہ سے ٹیم کامیابی کو ترستی رہی،اسکواڈ میں بھی آخری وقت تک تبدیلیاں کی جاتی رہیں۔

فٹنس پر کسی بھی قسم کا سمجھوتہ نہ کرنے کے متعدد اعلانات کرنے والے ہیڈ کوچ مکی آرتھر کو کم سے کم 3 پلیئرز کو معیار سے کہیں کم فٹنس کے ساتھ قبول کرنا پڑا۔ ہمیشہ سے پاکستان کی قوت بولنگ رہی اور بدقسمتی سے اس بار اس میں کوئی دم خم دکھائی نہیں دے رہا۔  بیٹنگ لائن نے کچھ بڑے اسکور کیے مگر حیران کن طور پر آسٹریلیا کے خلاف یو اے ای سیریز اور اب انگلینڈ میں تقریباً ہر میچ میں کسی نہ کسی کھلاڑی کی جانب سے سنچری اسکور کیے جانے کے باوجود ٹیم کا فتح کی دہلیز عبور نہ کرپانا بذات خود ایک تشویشناک بات ہے۔

پاکستان ٹیم کی سب سے بڑی خامی کھلاڑیوں کا جلد دباؤ میں آجانا ہے، میچ کو بناکر بگاڑ دینے کی عادت بھی پختہ ہوتی جارہی ہے جبکہ فتح کے قریب پہنچ کر فنش نہ کرا پانا ایک اور مائنس پوائنٹ ہے۔ ماضی میں پاکستان کے پاس ایسے اسٹار بیٹسمین موجود تھے جو ٹیل اینڈرز کے ساتھ میچ جتوانے کی صلاحیت رکھتے تھے، وہ زیادہ سے زیادہ اسٹرائیک اپنے پاس رکھتے اور ٹیم کو ہدف عبور کرا دیتے مگر حالیہ کچھ عرصے میں کچھ اسپیشلسٹ بیٹسمینوں کو نازک لمحات میں بھی ٹیل اینڈرز کو اسٹرائیک پر جھونکنے کا منظر کثرت سے دیکھنے کو مل رہا ہے، یہ پریکٹس ورلڈ کپ میں سراسر ٹیم کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔

اس ٹورنامنٹ میں کچھ ماہرین پاکستان کو سیمی فائنل کیلیے فیورٹ قرار دے رہے اور اس کی بڑی وجہ انگلینڈ میں اس کا بڑے ایونٹس میں خاص طور پر اچھا ریکارڈ ہے، گرین شرٹس وہاں پر 2009 میں ورلڈ ٹی 20 اور سرفراز احمد کی قیادت میں 2017 میں چیمپئنز ٹرافی جیت چکے ہیں۔ اگر کھلاڑی اپنی ذات سے بالاتر اور خوف کا بت توڑ کر میدان میں اترے تو پھر 1992 والے فارمیٹ میں وہ 1992 والا کارنامہ انجام دے سکتے ہیں۔

انگلینڈ

انگلینڈ کی ٹیم 2015ورلڈ کپ کے ناک آؤٹ راؤنڈ یعنی کوارٹر فائنلز میں بھی رسائی حاصل نہیں کرپائی تھی، جس کے بعد اس نے خود کو جدید دور کی سفید بال کرکٹ سے ہم آہنگ کرنے کیلیے سخت محنت کی اور اب ون ڈے میں ٹاپ ٹیم بن چکی ہے۔ کنڈیشنز اس کی اپنی ہیں، ہوم کراؤڈ حوصلہ افزائی کیلیے  موجود ہوگا، ہارڈ ہٹرز سے مزین بیٹنگ لائن اور سوئنگ بولرز سے بہترین اسپنرز تک اس کے دستے میں موجود ہیں، اسی لیے تقریباً تمام ہی ماہرین اسے میگا ٹرافی کیلیے فیورٹ قرار دے رہے ہیں مگر تاریخ اس کے حق میں موافق دکھائی نہیں دے رہی، انگلش ٹیم کبھی50 اوورز کا ورلڈ کپ نہیں جیت سکی، اس کے اپنے ملک میں پہلے بھی کئی بار یہ ٹورنامنٹ منعقد ہوچکا مگر میزبان سائیڈ ہر وقت خالی ہاتھ رہی، چیمپئنز ٹرافی میں بھی انگلش ٹیم ہاٹ فیورٹ تھی مگر سیمی فائنل میں اس کے سفر کا اختتام پاکستان کے ہی ہاتھوں ہوا تھا، اس بار بھی میگا ایونٹ میں اس کی کامیابی کا امکان ففٹی ففٹی ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔

آسٹریلیا

آسٹریلیا وہ ٹیم ہے جس کو بڑے ٹورنامنٹس اور خاص طور پر ون ڈے ورلڈ کپ جیتنے کا گر آتا ہے، سب سے زیادہ 5 مرتبہ اس فارمیٹ میں چیمپئن بننے کا اعزاز کینگروز کو حاصل ہے، اس وقت بھی سب سے بہترین اور متوازن ٹیم آسٹریلیا کی ہی دکھائی دے رہی ہے، اس کے پاس بہترین بیٹسمین اور خطرناک پیسرز موجود ہیں مگر ان سب چیزوں سے بڑھ کر جو چیز آسٹریلیا کو سب سے منفرد بناتی ہے وہ اس کا آخری گیند تک ہتھیار نہ ڈالنا ہے، وہ صرف جیت کا عزم لے کر ہی میدان میں اترتی ہے، حالیہ کچھ عرصے میں ٹیم کلچر پر دنیا بھر میں ہونے والی تنقید کے باوجود ’ ہر قیمت پر جیت‘ کی خواہش اب بھی کھلاڑیوں میں پوری طرح موجود ہے، میگا ایونٹ میں ٹائٹل کے دفاع کیلیے اس کے 80 فیصد امکانات دکھائی دے رہے ہیں۔

بھارت

اس بار میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ بھارت اس وقت ایک بہترین یونٹ میں ڈھل چکی ہے، اچھے بیٹسمین، بہترین پیسرز اور جادوگر اسپنرز کا اس کو ساتھ حاصل ہے، بے دھڑک کپتان ویرات کوہلی کے ہاتھوں میں ٹیم کی باگ دوڑ ہے مگر کچھ ایسی چیزیں ہیں جو بھارتی ٹیم کے خلاف جا رہی ہیں، ان میں سرفہرست کھلاڑیوں کا گذشتہ کچھ عرصے سے نان اسٹاپ کرکٹ کھیلنا ہے، حد سے زیادہ ویرات کوہلی پر انحصار کرنا اور خود کو دوسروں سے ممتاز سمجھنا ہے، بھارتی ٹیم بھی 2013 میں انگلینڈ میں ہی چیمپئنز ٹرافی جیت چکی، اس لیے کم سے کم اس کے سیمی فائنل میں پہنچنے کے امکانات کو رد کرنا آسان نہیں ہے۔

جنوبی افریقہ

جنوبی افریقہ کو بھی دنیا کے خطرناک بولنگ اٹیک کاساتھ حاصل جبکہ اس کے پاس دور جدید کی کرکٹ کے منجھے ہوئے بیٹسمین بھی موجود ہیں، ہاشم آملا دونوں وارم اپ میچز میں ففٹیز جڑ کر فارم میں واپسی کا اعلان کرچکے ہیں، فاف ڈوپلیسی پُرجوش کپتان اور پہلے ہی واضح کرچکے ہیں کہ ہم اس بار کچھ خاص کردکھانے کی کوشش کے بجائے اپنی صلاحیتوں کے مطابق کھیلیں گے۔

نیوزی لینڈ

نیوزی لینڈ کی ٹیم بھی کافی متوازن دکھائی دے رہی ہے، پہلے وارم اپ میچ میں بھارتی بیٹنگ لائن کا غرور توڑنے کے بعد دوسرے وارم اپ میچ میں اسی کیوی بولنگ نے ویسٹ انڈیز کو رنز کا پہاڑ کھڑا کرنے کا موقع دے کرغیر مستقل مزاجی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ماضی میں 6 مرتبہ سیمی فائنل کھیلنے والی کیوی سائیڈ کو اس بار بھی فائنل فور کیلیے کچھ ماہرین فیورٹ خیال کررہے ہیں مگر کھیل میں عدم تسلسل اورٹائٹل کے قریب پہنچ کر ہمت ہار جانا اس کے بڑے مائنس پوائنٹس ہیں۔

ویسٹ انڈیز

ویسٹ انڈیز کو ’لاٹھی چارج‘ کے ماہرین کا ساتھ حاصل ہے اور بولرز بھی حیران کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہیں، کرس گیل میدان میں اترنے سے قبل ہی بلند وبانگ دعوؤں سے دھوم مچا چکے جبکہ کیویز سے وارم اپ میچ میں 400 پلس کا مجموعہ تشکیل دے کر کیریبیئن سائیڈ یہ اعلان کرچکی کہ کوئی انھیں غیر اہم نہ سمجھے۔

سری لنکا

سری لنکا کی قیادت ڈیموتھ کرونا رتنے کے ہاتھوں میں ہیں جنھوں نے حال ہی میں اسکاٹ لینڈ سے مقابلے سے قبل آخری مرتبہ ون ڈے کرکٹ گذشتہ ورلڈ کپ میں کھیلی تھی، اس کے پاس کچھ اچھے کرکٹرز موجود ہیں مگر حالیہ کچھ عرصے میں آئی لینڈرز کی پرفارمنس انتہائی مایوس کن رہی، ٹیم میں اختلافات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں جبکہ خود ہیڈ کوچ چندیکا ہتھورا سنگھے اور ٹیم منیجر کی بھی آپس میں نہیں بنتی، اسی وجہ سے بظاہر سری لنکن ٹیم کے ٹائٹل کے قریب پہنچنے کے امکانات زیادہ دکھائی نہیں دے رہے۔

بنگلہ دیش

بنگلہ دیش نے حال ہی میں آئرلینڈ میں ویسٹ انڈیز کو 1، 2 نہیں بلکہ 3 مرتبہ شکست دے کر ٹرائنگولر سیریز جیتی، اس کے پاس تجربہ کار کھلاڑیوں کے ساتھ پُرجوش نوجوان بھی موجود ہیں، گذشتہ ایونٹ میں پہلی بار ناک آؤٹ راؤنڈ میں جگہ پانے والے بنگال ٹائیگرز سے ’انہونی‘ کی توقع بہرحال کی ہی جاسکتی ہے۔

افغانستان

افغانستان کے پاس اس وقت بہترین ہارڈ ہٹرز اور دنیا کے بہترین اسپنرز موجود ہیں، ٹیم کافی پُرجوش ہے لیکن جوش اگر ہوش پر حاوی ہوجائے تو سوائے نقصان کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا، افغان ٹیم کے ہاتھوں چند ایک اپ سیٹس کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔