سعودی عرب میں خواتین، بچوں اور ملازمین پر تشدد کے خلاف بل منظور

رائٹرز  جمعـء 30 اگست 2013
قانون کے تحت تشدد کرنے والے شخص کو ایک سال قید کی سزا کے ساتھ 50 ہزار سعودی ریال جرمانہ کیا جائے گا۔

قانون کے تحت تشدد کرنے والے شخص کو ایک سال قید کی سزا کے ساتھ 50 ہزار سعودی ریال جرمانہ کیا جائے گا۔

جدہ: سعودی عرب میں خواتین، بچوں اور گھریلو ملازمین پر تشدد کے خلاف پہلا قانون پاس کر لیا گیا ہے جس کا مقصد خواتین، بچوں اور گھریلو ملازمین پر خفیہ طریقے سے کئے جانے والے تشدد کی روک تھام ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی  کے مطابق سعودی حکومت کی جانب سے پاس کئے گئے 17 نکاتی بل میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص خواتین، بچوں اور گھریلو ملازمین  پر نفسیاتی اور جسمانی تشدد میں ملوث پایا گیا تواس کو ایک سال قید کی سزا کے ساتھ 50 ہزار سعودی ریال جرمانہ کیا جائے گا۔

نیشنل سوسائٹی فار ہیومن رائٹس کے سیکریٹری جنرل خالد الفخر کا کہنا ہے کہ یہ قانون عورتوں، بچوں، گھریلو اور دیگر ملازمین کے لئے بہت سود مند ثابت ہو گا۔ انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والے ایک رہنما  وحید ابو الخیر کا کہنا ہے کہ نیا قانون خواتین کو کچھ آزادی فراہم کرے گا،  پہلے خواتین کے لئے ضروری تھا کہ وہ کیس دائر کرنے کے لئے محرم کے ساتھ پولیس اسٹیشن آئیں لیکن اس قانون کے بعد اب یہ شرط لازم نہیں۔

تشدد کے خلاف بل سعودی کا بینہ نے ایک مقامی چیریٹی (خیراتی ) ادارے کی جانب سے ملک بھر میں خواتین کے خلاف تشدد کی روک تھام کے حوالے سے چلائی جانے والی مہم کے بعد 26 اگست کو پاس کیا تھا۔ اقوام متحدہ کی جانب سے بھی 2008 سے سعودی عرب پر زور دیا جا رہا تھا کہ وہ گھریلو تشدد کے حوالےسے باقاعدہ قانون وضع کرے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل سعودی عرب میں عورتوں، بچوں اور گھریلو ملازمین کے خلاف تشدد کے کیسز کا فیصلہ ایک عام پینل کوڈ اسلامی شرعی اصولوں کے تحت  کرتی تھی اورعام طور پر گھریلو تشدد کو ذاتی معاملہ قرار دے دیا جاتا تھا اور ججز اسلامی اصولوں کی روشنی میں کیس کا فیصلہ سنایا کرتے تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔