پاکستانی حکومت کے لیے سبق آموز مثالیں؛ جمیکا اور پیرو نے قرضوں کا جال کیسے توڑا؟

سید عاصم محمود  اتوار 2 جون 2019

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

پاکستان بھر میں مسلم ہم وطن عیدالفطر تزک واحتشام سے منانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ تاہم قرضوں میں جکڑی معیشت اور روپے کی گرتی قدر کے باعث جنم لیتی مہنگائی نے کروڑوں پاکستانیوں کی خوشیاں ماند کر ڈالی ہیں۔

حکومت مہنگائی ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے مگر اسے واضح کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ اس کی ایک بڑی وجہ قرضوں کے بوجھ تلے آ جانا بھی ہے۔اس بوجھ سے نجات کی خاطر پاکستان میں مہنگائی بڑھی ہے۔تاریخ دیکھی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے ممالک قرضوں کے پھندے میں پھنس جانے کے بعد مختلف حکمت عملیاں اپنا کر یہ پھندا توڑنے میں کامیاب رہے۔ ان کی مثالوں سے سبق لے کر حکومت پاکستان بھی قرضوں کا بوجھ کم کرنے اور معیشت کو ترقی دینے کی خاطر جامع پالیسیاں تشکیل دے سکتی ہے۔ ذیل میں دو ممالک کی مثالیں پیش ہیں جو جامع منصوبہ بندی کے ذریعے قرضوں کے بوجھ سے نجات پانے میں کامیاب رہے۔

قرضے لینے کی لت
کرکٹ سے دلچسپی رکھنے والے پاکستانی جمیکا سے شناسا ہوں گے۔ مشہور کرکٹ کھلاڑیوں مائیکل ہولڈنگ‘ جارج ہیڈلے‘ کورٹنی والش اور کرس گائل کا تعلق ویسٹ انڈیز کے اسی جزیرے سے ہے۔ اسی جزیرے پر دنیا کے تیز ترین انسان‘ اوسین بولٹ نے بھی جنم لیا۔ یہ جزیرہ 2012ء میں ایک بڑی مصیبت میں گرفتار ہو گیا تھا۔یہ ویسٹ انڈیز یا کئیربین علاقے کا سب سے بڑا جزیرہ ہے۔جمیکا کے تقریباً تیس لاکھ باشندوں میں سے 92فیصد آبادی سیاہ فام ہے۔ کئی صدیوں تک پہلے ہسپانوی اور پھر برطانوی استعمار نے جمیکا پر قبضہ جمائے رکھا۔ 1962ء میں آخر مملکت پنجہ استبداد کی قید سے آزاد ہو گئی۔ اب جمیکن رہنماؤں نے حکومت سنبھالی۔ حکومت کو سیاحت اور معدنیات و زرعی مصنوعات کی فروخت سے آمدن ہوتی تھی۔

جب کروڑوں ڈالر دسترس میں آئے تو رفتہ رفتہ حکمران طبقے میں شامل سیاست دانوں‘ افسر شاہی ‘ جرنیلوں وغیرہ نے شاہانہ طرز زندگی اختیار کر لیا۔ یہ طرز زندگی برقرار رکھنے کی خاطر کرپشن کی جانے لگی۔ سرکاری خزانہ کرپشن کے ذریعے خالی ہونے لگا۔ جبکہ حکمران طبقہ پھلنے پھولنے لگا اور امیر سے امیر تر ہو گیا۔ اس طبقے کے اللّے تللّے پورے کرنے کی خاطر حکمران قومی و عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لینے لگے۔جمیکا کے حکمران طبقے کو آہستہ آہستہ قرضے لینے کی لت پڑ گئی۔ قرضوں کی بیشتر رقم آپس میں بانٹ لی جاتی۔ عوام کی حالت سدھارنے والے ترقیاتی منصوبوں پر تھوڑی بہت رقم خرچ ہوتی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جلد ہی حکومت کی بیشتر آمدن قرضوں کا سود اتارنے اور قرضے واپس کرنے پر خرچ ہونے لگی۔ حکومت نے آمدن بڑھانے کی خاطر شعبہ صنعت و تجارت اور عوام پہ نہ صرف نت نئے ٹیکس لگائے بلکہ ان کی شرح بھی بڑھا دی۔

صنعت کار اورتاجر اپنی مصنوعات کی قیمتیں بڑھا کر ٹیکسوں کا بوجھ کم کرتے ہیں۔ مگر یہ عمل ملک میں مہنگائی بڑھا دیتا ہے جو براہ راست عوام کو متاثر کرتی ہے۔ یوں جمیکا کے عوام بڑھتی مہنگائی کی چکی تلے پسنے لگے۔ حکمرانوں کے قرضے لینے کی لت نے عوام کو عجب عذاب میں گرفتار کرا دیا۔ٹیکسوں خصوصاً ان ڈائرکٹ ٹیکسوں کی بھرمار کے باعث عام استعمال والی اشیاء کی قیمتیں بھی آسمان پر جا پہنچیں۔قرضے لینے کی لت سے نوبت یہاں تک پہنچی کہ 2012ء تک جمیکا پر جی ڈی پی سے ’’150 گنا‘‘ زیادہ قرضوں کا بوجھ پڑ گیا۔ مطلب یہ کہ تب جمیکا کی خام قومی آمدن 15ارب ڈالر سالانہ تھی تو مجموعی قرضوں کی رقم 37 ارب ڈالر سے زیادہ جا پہنچی۔ گویا مملکت کی معیشت قرضوں کے چنگل میں بری طرح پھنس گئی۔

سول سوسائٹی کی دہائی
بڑھتی مہنگائی کے باعث جمیکا میں جرائم بہت زیادہ بڑھ گئے۔ چوری و ڈاکے کی وارداتیں عام ہونے لگیں۔ اکثر علاقوں میں جرائم پیشہ گروہ وجود میں آ گئے جو چند سّکوںکی خاطر قتل کر ڈالتے۔ غرض یہ صاف نظر آنے لگا کہ مہنگائی اور غربت کے باعث جمیکن معاشرہ انارکی و تباہی کا نشانہ بن سکتا ہے۔اس تشویش ناک صورت حال نے جمیکا کے دانش وروں‘ ادیبوں ‘ شاعروں اور صحافیوں کو بہت پریشان کر دیا۔ انہوںنے اخبارات میں پے در پے تحریریں لکھیں اور حکمران طبقے کو جھنجھوڑا تاکہ وہ خواب غفلت سے جاگ جائے۔ انہوںنے دہائی دی کہ قومی معیشت درست کرنے کی خاطر سب کو مل بیٹھ کر اصلاحات کا جامع منصوبہ بنانا چاہیے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو جمیکا جرائم و غربت کی دلدل میں دھنستا چلا جائے گا۔

دانش ور طبقے کی چیخ پکار کا مثبت اثر ہوا اور جمیکا کے حکمران ہوش میں آ گئے۔ حکمران طبقے میں شامل بعض سیاست دانوں،سرکاری افسروں ،جرنیلوں وغیرہ کو محسوس ہو ا کہ اگر انہوںنے معاشی صورت حال درست نہ کی تو ان کا شاہانہ طرز زندگی بھی اختتام کو پہنچ جائے گا۔ لہٰذا یہ لوگ طوعاً کراہاً معاشی ثمرات عوام تک پہنچانے کے لیے بھی آمادہ ہو گئے۔ تاہم حکمران طبقے میں محب وطن اور دیانت دار عناصر بھی موجود تھے جنہوںنے ساتھیوں پر دباؤ ڈالا کہ وہ قانون و میرٹ کی راہ اختیار کریں اور ہر معاملے میں کرپشن کرنا ترک کر دیں۔

2013ء میں جمیکا کی تاریخ میں ایک یاد گار واقعہ ظہور پذیر ہوا۔ اس سال حکومت نے ایک انوکھا ادارہ ’’اکنامک پروگرام اوورسائٹ کمیٹی‘‘(Economic Programme Oversight Committee) تشکیل دیا۔ اس ادارے میں سول سوسائٹی‘ صنعت و تجارت‘ میڈیا‘ افسر شاہی اور سیاست سے تعلق رکھنے والے معزز و نیک نام رہنما شامل کیے گئے۔ عوام میں انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا کہ وہ کرپٹ و بے ایمان نہ تھے۔صاحب الرائے اور ملک وقوم سے مخلص تھے۔یہ کمیٹی اب معاشی اصلاحات کے سلسلے میں حکومت کو تجاویز و مشورے دینے لگی۔ حکومت کی ذمے داری تھی کہ وہ تجاویز کو عملی شکل دے ڈالے۔

کمیٹی کی سفارشات پہ عمل درآمد
کمیٹی کی تجویز پر سب سے پہلے قومی ٹیکس نظام کو نئے سرے سے ترتیب دیا گیا۔ جمیکا میں متوسط طبقہ سب سے زیادہ ٹیکس دیتا تھا۔ امیرا ور بااثر لوگ ٹیکس افسروں کو رشوت دے کر اپنی بیشتر آمدن چھپا لیتے ۔گویا ٹیکس چوری کا نہایت مکروہ چکر چل رہا تھا۔اب نئے ٹیکس نظام میں مختلف اقدامات سے یہ امر یقینی بنایا گیا کہ جمیکا میں آباد ہر شہری اس نظام کا حصہ بن جائے۔ اگر کوئی گھریلو ملازمہ ہے ‘ سرکاری افسر یا کمپنی کا مالک‘ سب کی ماہانہ و سالانہ آمدن پر کڑی نظر رکھی جانے لگی۔

یوں حکومت کو علم ہو گیا کہ کون شہری سالانہ کتنی رقم کماتا اور کتنا ٹیکس ادا کرتا ہے۔اس نئے نظام کی بدولت کسی کے لیے اپنی آمدن پوشیدہ رکھنا ناممکن ہو گیا ،چاہے وہ سیاست داں ہو،تاجر ،جرنیل یا میڈیا کا رکن!نئے ٹیکس نظام میں ان ڈائرکٹ ٹیکس ختم کر کے ایسے زیادہ سے زیادہ ڈائرکٹ ٹیکس لگائے گئے جن کا نشانہ طبقہ امرا تھا۔ جمیکا میں جو شہری جتنا زیادہ کماتا تھا‘ وہ اتنا ہی زیادہ انکم ٹیکس ادا کرنے لگا۔ ان ڈائرکٹ ٹیکس ختم ہونے سے شعبہ صنعت و تجارت پر بھی دباؤ کم ہوا اور صنعت کاروں و تاجروں نے اپنی مصنوعات سستی کر دیں۔ یوں مہنگائی کم ہونے لگی۔کمیٹی کی دوسری تجویز یہ تھی کہ حکومت اپنے سرکاری اخراجات پر قابو پائے۔ چنانچہ وزرا و مشیروں اور سرکاری افسروں کے شاہانہ طرز زندگی پر پابندیاں عائد کر دی گئیں۔

غیر ضروری اخراجات بھی ختم کیے جانے لگے۔پارلیمنٹ کے ارکان کو جو بے حساب مراعات حاصل تھیں،وہ محدود کر دی گئیں۔ظاہر ہے،جو طبقہ پہلے ہی امیر تھا،اسے مذید مراعات دے دینا قانون و اخلاقیات کا مذاق اڑانے کے مترادف تھا۔سرکاری افسروں کے لیے بیش قیمت کاریں اور دیگر سامان خریدنے پر پابندیاں لگ گئیں۔غرض حکمران طبقے کا شاہانہ طرز زندگی محدود کرنے کے لیے مختلف اقدامات کیے گئے جن سے حکومت کو خاص رقم کی بچت ہو ئی۔عوام نے ان اقدامات کو بہت سراہا اور انھیں احساس ہوا کہ اب حکمران طبقہ سنجیدگی اور جذبہ حب الوطنی سے بگڑی ملکی معیشت سنوارنا چاہتا ہے۔کمیٹی کے مشورے پر جمکین حکومت نے ایک ا قدام یہ کیا کہ کاروبار اور صنعت و تجارت پر عائد بہت سے پابندیاں ختم کر دیں۔

ملک میں کاروبار کرنا اور کمپنی کھولنا آسان بنا دیا گیا۔سرخ فیتہ تقریباً ختم کر دیا گیا۔ اس تبدیلی سے مملکت میں ملکی و غیر ملکی سرمایہ بڑھ گئی۔ نئی کمپنیاں کھلنے لگیں جن کے ذریعے بیروزگاروں کو روزگار میسر آیا۔حکومت نے ایک اور منفرد طریقہ کار یہ اختیار کیا کہ سرکاری کمپنیوں کے حصص ملازمین اور عوام کو فروخت کرنے لگی۔ مقصد یہ تھا کہ ملازمین اور عام لوگ سرکاری کمپنیوں کو ترقی دینے کے لیے خود دلچسپی لیں اور محنت و ولگن سے کام کریں۔ اس پالیسی کا بھی عمدہ نتیجہ سامنے آیا اور کئی سرکاری کمپنیاں خسارے سے نجات پا کر منافع بخش ہو گئیں۔یوں یہ سرکاری کمنییاں قومی معیشت پر بوجھ نہیں رہیں ۔

قومی یکجہتی کی تشکیل
قابل ذکر بات یہ ہے کہ جب کمیٹی قائم کی گئی، تو جمیکا میں پیپلز نیشنل پارٹی کی حکومت تھی۔ اس جماعت کی خاتون وزیراعظم، پورٹیا سمپسن حکومت کررہی تھی۔ مارچ 2016ء میں الیکشن جیت کر جمیکا لیبر پارٹی برسراقتدار آگئی۔ اس کے نوجوان لیڈر، اینڈریو ہولینس نئے وزیراعظم منتخب ہوئے۔نئے وزیراعظم نے بھی مگر کمیٹی کی سفارشات پر جاری اصلاحی پروگرام پر سختی سے عمل درآمد جاری رکھا۔ اس پروگرام پر عملدرآمد کے لیے اینڈریو ہولینس کو حزب اختلاف کا بھرپور تعاون حاصل رہا۔

حقیقت میں معاشرے کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے شہری حکومت کی معاونت و رہنمائی کرتے رہے۔ یوں جمیکا میں مثالی اتحاد و یک جہتی وجود میں آئی۔ ظاہر ہے اس مثبت تبدیلی کا بہترین نتیجہ ہی سامنے آنا تھا۔جمیکا کے سبھی سیاستدانوں نے ذاتی و گروہی اختلاف پس پشت ڈال دیئے اور ملک و قوم کی معاشی حالت سدھارنے کے لیے اکٹھے ہوگئے۔ حزب اختلاف نے حکومت کی راہ میں بے جا روڑے نہیں اٹکائے اور نہ ہی خواہ مخواہ احتجاج کرکے قومی معیشت کا پہیہ جام کرنے کی کوششیں کیں۔ ممکن ہے کہ یہ طرز عمل اپنانے میں ذاتی و گروہی مفادات بھی کارفرما ہوں لیکن جمیکن سیاست دانوں کو سراہنا چاہیے کہ انہوں نے ملک و قوم کے مفاد کو مقدم رکھا۔

خاص بات یہ کہ 2013ء میں کمیٹی نے آئی ایف ایم سے قرضہ لینے کی منظوری دے دی تھی۔ جمیکا نے ماضی میں بھی اس عالمی ادارے سے قرضے لیے تھے۔ مگر حسب روایت وہ قومی معیشت نہیں سدھار سکے کیونکہ کرپشن کی نذر ہوگئے۔ اس بار مختلف صورتحال دیکھنے کو ملی۔ آئی ایف ایم سے جو رقم ملی، کمیٹی اور حکمران طبقے نے مل کر اسے قومی معیشت سدھارنے اور بہتر بنانے میں استعمال کیا۔کہتے ہیں کہ اگر حکمران قابل، محب وطن، دیانت دار اور باصلاحیت ہوں، تو ان کی مملکت بھی ترقی کرتی ہے۔ جمیکا میں یہی قول سچ ثابت ہوگیا۔ اس مملکت کے حکمران پہلے کرپٹ اور ذاتی یا جماعتی مفادات کے اسیر تھے۔ مگر جب انہوں نے ملک و قوم کو ترقی دینے کا فیصلہ کیا، تو کایا ہی پلٹ گئی۔ اس کایا پلٹ میں کئی برس نہیں صرف پانچ سال ہی صرف ہوئے۔ گویا ثابت ہوگیا کہ اگر حکمران اچھے ہوں تو وہ بہت جلد اپنی مملکت کو ترقی یافتہ اور خوشحال بناسکتے ہیں۔

یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جمیکا میں معاشرے کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے نے قومی معیشت سدھارنے کے لیے اپنا حصہ ڈالا۔ شروع میں بہت سی مشکلات اور سختیاں بھی آئیں، مگر انہیں برداشت کیا گیا تاکہ مستقبل سنہرا ہوسکے۔ اس قربانی کا بھی مثبت نتیجہ نکلا۔ آج جمیکا پر قرضوں کی شرح جی ڈی پی کی نسبت ’’96 فیصد‘‘ ہوچکی۔ جمکین حکومت اگلے چار پانچ سال میں اسی شرح کو ’’60 فیصد‘‘ تک لے جانا چاہتی ہے۔ جی ڈی پی کی مناسبت سے قرضوں کی 60 فیصد شرح مناسب اور نارمل سمجھی جاتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ جمیکن حکومت قرضوں کے بوجھ کم کرنے میں کیسے کامیاب ہوئی؟ اس سوال کا جواب سادہ ہے۔ ٹیکس نظام بہتر بنانے سے اسے ٹیکسوں کی زیادہ رقم موصول ہونے لگی۔ پھر سرکاری سطح پر اللّے تللّے کم ہونے سے بھی رقم کی بچت ہوئی۔ اس دوران برآمدات میں بھی خاطر خواہ اضافہ کیا گیا۔ سرکاری کمپنیاں منافع میں آگئیں۔ غرض ان سب مثبت معاشی تبدیلیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت کی آمدن بڑھ گئی۔ بڑھتی آمدن نے حکومت کو اس قابل بنادیا کہ وہ زیادہ قرضے اتارسکے۔ یوں قرضوں کا بوجھ رفتہ رفتہ کم ہونے لگا۔

آج جمیکا کی حکومت معیشت درست کرنے کی خاطر اصلاحات کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔ ٹیکس نظام مسلسل بہتر بنایا جارہا ہے تاکہ ٹیکسوں کی چوری مکمل طور پر ختم کی جاسکے۔ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کاروباریوں اور صنعت کاروں کو سہولتیں دی جارہی ہیں تاکہ جمیکا میں کاروبار اور صنعت و تجارت پھل پھول سکے۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بھی پرکشش ترغیبات دی جاتی ہیں تاکہ وہ ملک میں پیسہ لگائیں اور نئی کمپنیاں کھول سکیں۔ غرض معاشی اصلاحات نے نہ صرف جمیکا کو قرضوں کے بوجھ سے نجات دلائی بلکہ ملک کو ترقی و خوشحالی کے راستے پر گامزن کردیا۔ آج جمیکا میں فی کس آمدن 2013ء کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ چکی۔

کیئربین مملکت کی مثال سے عیاں ہے کہ جب وہاں برسوں سے جاری کرپشن اور نااہلی کے باعث معیشت بری طرح بیٹھ گئی اور قرضوں کے جال نے قوم کو جکڑ لیا، تو پھر سول سوسائٹی نے حکمران طبقے پر یہ زبردست دبائو ڈالا کہ وہ اپنے کرپٹ طور طریقے ترک کردے۔ زبردست دبائو کی وجہ سے حکمران طبقہ مجبور ہوگیا کہ وہ اپنی روش میں بنیادی مثبت تبدیلیاں لائے، قانون پر عمل کرے اور قومی معیشت کے نیم مردہ لاشے میں نئی جان ڈال دے۔ گویا جمیکا میں عوام و خواص مل جل کر معاشی انقلاب لائے اور اپنی معیشت درست کر ڈالی۔جمیکن حکومت کی اب کوشش ہے کہ آمدن کی منصفانہ تقسیم یقینی بنائے جائے۔ ماضی میں مملکت کی صرف 10 فیصد آبادی بیشتر دولت اور وسائل پر قابض تھی۔ اب حکومت کی سعی ہے کہ مختلف اقدامات سے معاشی ترقی کے ثمرات نچلے طبقے تک بھی پہنچ سکیں۔ وہ بھی آسائشات بھری زندگی گزارنے کے قابل ہوسکے۔

پیرو میں معاشی بحران
لاطینی امریکا کا ملک پیرو بھی ایسے ہی معاشی انقلاب سے گذر چکا ‘ تاہم وہاں کے حکمران طبقے نے قرضوں سے نجات پانے اور معیشت درست کرنے کی خاطر بالکل مختلف راہ اپنائی۔ اس کا تذکرہ بھی پاکستانی قوم و حکومت کے لیے سبق آموز ہے۔پیرو پر بھی جمیکا کے مانند کئی صدیوں تک ہسپانوی حکومت کرتے رہے۔ اسی دوران وہ وسائل لوٹ کر اسپین لے گئے اور اپنی مملکت کو خوشحال بنا دیا۔ بہر حال 1821ء میں پیرو یورپی استعمار کے چنگل سے آزاد ہو گیا۔ تاہم ہسپانوی لٹیروں نے اپنی لوٹ مار سے پیرو کو کنگال کر دیا تھا۔

اسی لیے معاشی طور پر مضبوط ہونے میں پیرو کو کئی عشرے لگ گئے۔سونے پہ سہاگا یہ کہ کئی ترقی پذیر اور نو آزاد ممالک کی طرح جب پیرو کے نئے حکمران طبقے کے ہاتھ بھی سرکاری دولت لگی ‘ تو وہ اپنا دین و ایمان کھو بیٹھا ا ور کرپٹ ہو گیا۔ سرکاری آمدن کا پیشتر حصہ سیاست دانوں ‘ سرکاری افسروں اور جرنیلوں وغیرہ کی تجوریوں میں پانے لگا۔ اس بے محابا کرپشن کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1878ء میں پیرو دیوالیہ ہو گیا۔ حتیٰ کہ ایک بھی یورپی بینک پیرو حکومت کو قرضے دینے کے لئے تیار نہ تھا۔

یہ واضح رہے کہ پیرو کو فوجی رہنمائوں نے آزاد کرایا تھا۔ بدقسمتی سے آزادی کے بعد ان رہنماؤں میں اقتدار کی جنگ شروع ہوگئی۔ اسی خانہ جنگی نے پیرو کو معاشی طور پر سب سے زیادہ نقصان پہنچایا اور قومی معیشت زوال پذیر رہی۔ 1838ء سے 1878ء تک پیرو میں جتنے صدر آئے ان کی اکثریت جرنیلوں پر مشتمل تھی۔ ہر جرنیل نے قومی معیشت درست کرنے کی کوشش کیں مگر وہ کامیاب نہیں ہو سکا۔1878ء ہی میں پیرو اور پڑوسی ریاستوں بولیویا اور چلی کے مابین جنگ چھڑ گئی۔ اسی پانچ سالہ جنگ نے پیرو کی معیشت تباہ کر دی۔ ملک نے آہستہ آہستہ جنگ کی تباہی سے چھٹکارا پایا اور ترقی کرنے لگا۔ حکومت نے مملکت میں بہت سے ترقیاتی منصوبے ایک برطانوی نجی کمپنی کے سپرد کر دیئے تاکہ سرکاری افسروں کی کرپشن سے نجات مل سکے۔

1980ء تا 1990ء پیرو پر دو سیاست دانوں فرنانینڈو بیلوندے اور ایلن گارسیا کی حکومت رہی۔ انہوںنے پھر قومی معیشت کا بیڑا غرق کر دیا۔ قرضے اتارنے اور سرکاری اخراجات پورے کرنے کی خاطر اندھا دھند نوٹ چھاپے گئے۔ اسی عمل نے زبردست مہنگائی پیدا کر دی اور اشیا و خدمات (سروسز) کی قیمتیں آسمان پر جا پہنچیں۔ 1990ء تک پیرو میں غریب آبادی کی شرح ’’40 فیصد‘‘ سے بڑھ کر ’’55 فیصد‘‘ تک پہنچ گئی۔ فی کس آمدنی 6243ڈالر سے گھٹ کر صرف 1908ڈالر رہ گئی۔ غرض سیاسی رہنماؤں کی جمہوری حکومت کا تجربہ پیرو کے عام لوگوں کے لیے ڈراؤنا خواب ثابت ہوا۔

تبدیلی کا داعی آ پہنچا
جب اپریل 1990ء میں نئے الیکشن ہوئے تو عوام روایتی سیاسی جماعتوں سے برگشتہ ہو چکے تھے۔ چنانچہ انہوںنے جاپانی نژاد ایک غیر روایتی سیاست داں البر ٹو فیوجی موری کو بہ حیثیت صدر منتخب کر لیا جو ایم اے ریاضی کی ڈگری رکھتا تھا۔ فیوجی موری واقعی ایک غیر روایتی اور تبدیلی کا داعی حکمران ثابت ہوا۔ اس نے قومی معیشت درست کرنے کی خاطر اصلاحات کا ایک انقلابی پروگرام شروع کیا جس نے کچھ عرصے تک پیرو کے پورے معاشرے کو ہلا ڈالا۔ ہر طرف ہلچل مچ گئی۔ اسی لیے نئے صدر کا معاشی اصلاحی پروگرام ’’فیوجی شاک‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔

حکومت سنبھالتے ہی فیوجی موری نے سب سے پہلے تمام اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر سے سرکاری کنٹرول ختم کر دیا۔ اب رسد ا ور طلب کے اعتبار سے ہر شے کی قیمت گھٹنے بڑھنے لگی ورنہ پہلے حکومت نے زبردستی ،مصنوعی طور پہ قیمتیں کم رکھی ہوئی تھیں۔اس غیر فطری روش نے معیشت کو نقصان پہنچایا۔ دوسرے حکومت مختلف شعبوں کو جو سرکاری امداد (سبسڈی) دیتی تھی، وہ تقریباً ختم کر دی گئی۔ تیسرے بجلی ‘ گیس اور پانی کی قیمتیں ’’تین ہزار فیصد‘‘ تک بڑھا دی گئیں۔ ان اقدامات کی وجہ سے پیرو میں مہنگائی کا سیلاب آ گیا۔لوگ دن رات حکومت کو کوسنے دینے لگے۔

صدر فیوجی موری نے مگر مہنگائی پر قابو پانے کے لیے بھی اہم اقدامات کیے۔ مثال کے طور پر کم از کم تنخواہ میں چار گنا اضافہ کیا گیا۔ نچلے طبقے کو روزمرہ استعمال کی اشیاء سستے داموں فراہم کرنے کی خاطر چالیس کروڑ ڈالر کا غربت مٹاؤ فنڈ قائم ہوا۔ نیا کاروبار شروع کرنا بہت آسان بنا دیا گیا اور کئی پابندیاں ختم کر دی گئیں۔ سرخ فیتہ اب بے اثر بن گیا۔اس دوران حکومت نے خسارے میں جانے والے سبھی سرکاری اداروں کی نج کاری کر دی۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پُرکشش ترغیبات دی گئیں تاکہ وہ پیرو کے کاروبار وسٹاک مارکیٹ میں پیسہ لگا سکیں۔ ساتھ ساتھ فیوجی موری نے نئی کرنسی متعارف کرا دی تاکہ مملکت میں بڑھتی مہنگائی پر قابو پایا جا سکے۔

صدر فیوجی موری کے انقلابی اصلاحی پروگرام کی بدولت پیرو میں شروع کے ایک ڈیڑھ سال تک تو معاشرے میں خاصی افراتفری رہی۔ لوگ بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے حکومت کے خلاف چیخ پکار کرتے رہے۔ اپوزیشن پارٹیاں بھی حکومت پر تابڑ توڑ حملے کرنے میں مصروف رہیں۔ لیکن پھر معاشی صورت حال بہتر ہونے لگی۔ خاص طور پر نئے کاروبار وجود میں آ ئے اور ہزار ہا لوگوں کو روزگار ملا۔ تنخواہیں بڑھ گئیں جبکہ مہنگائی بھی کم ہوئی۔ یوں ’’فیوجی شاک‘‘ نے آخر پیرو کی معیشت کو زوال سے نکال لیا۔ اسی دوران حکومت کو آئی ایم ایف کی جانب سے قرضہ بھی مل گیا جو معیشت کو ترقی دینے میں کام آیا۔

صدر فیوجی موری نے علیحدگی پسند تنظیموں کو بھی سختی سے کچل دیا۔ بعدازاں ان پر الزام لگا کر وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں۔ اسی الزام پر انہیں سزائے قید بھی ہو گئی۔ صدر فیوجی دس سال تک حکومت کرتے رہے ۔ پیرو کے عوام آج بھی انہیں یاد کرتے اور ان کے انقلابی معاشی اقدامات کو سراہتے ہیں۔جمیکا اور پیرو کی مثالوں سے عیاں ہے کہ دونوں ممالک میں حکمرانوں نے قرضوں کا بوجھ کم اور معیشت درست کرنے کے لیے مختلف راہ اپنائی ۔جمیکا میں سول سوسائٹی نے حکمرانوں پر دباؤ ڈالا کہ وہ اپنی راہ درست کرلیں۔ پھر سول سوسائٹی ‘ حکومت اور نجی شعبے نے مل کر ،قومی یک جہتی کو جنم دے کر مملکت کو معاشی زوال سے نکالا اور ملک و قوم ترقی و خوشحالی کے راستے پر چل نکلے۔ پیرو میں ایک غیر روایتی حکمران نے اصلاحات کا انقلابی پروگرام متعارف کرایا اور معیشت پر سرکاری کنٹرول تقریباً ختم کر دیا۔ یہ پالیسی بھی کامیاب رہی اور آج پیرو کا شمار معاشی لحاظ سے ابھرتے ممالک میں ہوتا ہے۔ پیرو دنیا کی 36ویں بڑی معیشت کا حامل ہے۔

پاکستان کے لیے سبق
دنیا میں ہر حکومت روزمرہ اخراجات پورے کرنے کی خاطر اداروں سے قرضے لیتی ہے۔ گویا یہ معمول کی بات ہے۔ مگر جب کوئی مملکت بہت زیادہ مقروض ہوجائے تو وہاں مختلف معاشی مسائل جنم لیتے ہیںاور ملک مصائب میں گرفتار ہوجاتا ہے۔پاکستان کی مثال لیجیے۔ جب 1971ء میں وطن عزیز دولخت ہوا، تو موجودہ پاکستان پر کل قرضہ (total debt) صرف’’ 30 ارب روپے‘‘ تھا۔ اس میں 16 ارب روپے غیر ملکی قرضہ تھا اور 14 ارب روپے مقامی قرضہ(public debt)۔ جب 1977ء میں بھٹو حکومت ختم ہوئی تو کل قرضہ’’ 97 ارب ‘‘تک پہنچ چکا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے دس سالہ دور حکومت میں یہ قرضہ’’ 523 ارب روپے‘‘ تک پہنچ گیا۔1989ء سے لے کر 1999ء تک پاکستان پر جمہوری قوتوں کی حکمرانی رہی۔ اس دس سالہ دور میں کل قرضہ 2946 ارب روپے ہوگیا۔

جنرل پرویز مشرف نے 2008ء میں حکومت چھوڑی تو یہ عدد 6126 ارب روپے تک پہنچ چکا تھا۔2008ء سے 2018ء تک پھر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی جمہوری حکومتیں پاکستان میں حکومت کرتی رہیں۔ ان دس برس کے دوران پاکستان پر کل قرضہ بہت زیادہ ہوگیا۔ جب مسلم لیگی حکومت مئی 2018ء میں ختم ہوئی تو پاکستان ’’31000 ارب روپے ‘‘سے زیادہ رقم کا مقروض ہوچکا تھا۔ یہ عیاں ہے کہ دونوں جمہوری حکومتوں نے اپنے ادوار میں بے دریغ قرضے لیے اور ملک و قوم کو کھربوں روپے کا مقروض بنادیا۔

پی ٹی آئی حکومت بھی مقامی و غیر ملکی مالیاتی اداروں سے قرضے لے کر کار مملکت چلا رہی ہے کیونکہ آدھی آمدن تو قرضے اتارنے اور ان کا سود دینے پر خرچ ہوجاتی ہے۔ گویا موجودہ قرضوں سے جان چھڑانے کی خاطر نئے قرضے لینے پڑتے ہیں۔ غرض ہمارے حکمرانوں نے ملک و قوم کو قرضوں کے شیطانی چکر میں پھنسا دیا ہے اور اس چکر سے نجات پانا بڑا کٹھن مرحلہ بن چکا۔اسٹیٹ بینک کی تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان پر کل قرضوں کی رقم ’’35000 ہزار ایک سو ارب روپے‘‘ تک پہنچ چکی۔ یعنی ہمارے قرضے جی ڈی پی کا 91.2 فیصد حصہ ہوچکے جو نہایت تشویشناک بات ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جمیکا کی طرح ہم بھی معاشی دلدل میں ڈوب رہے ہیں۔قومی معیشت کو بچانے کے لیے اب معاشی طور پر انقلابی اقدامات اپنانے کی اشد ضرورت ہے۔

حکومت پاکستان کو مختلف ٹیکسوں کے ذریعے سالانہ ساڑھے چار ہزار ارب روپے آمدن ہوتی ہے مگر اب اس رقم کا تقریباً پچاس فیصد تو قرضے اتارنے و سود دینے میں صرف ہوتا ہے۔ پچیس تا تیس فیصد رقم دفاع پر خرچ ہوتی ہے۔ یوں بقیہ اخراجات کے لیے صرف تیس و پینتیس فیصد رقم ہی بچتی ہے۔ اس رقم میں سے پیشتر روپے تنخواہیں اور پنشن دینے پر لگ جاتے ہیں۔ یوں ترقیاتی منصوبوں کی خاطر بہت کم رقم بچتی ہے۔اخراجات پورے کرنے کے لیے قرضے لینے پڑتے ہیں۔آمدن بڑھانے کے لیے پی ٹی آئی حکومت کو انقلابی پالیساں بنانا ہوگی۔ مثلاً غیر دستاویزی معیشت کا خاتمہ۔ ہماری معیشت کا 50 سے 60 فیصد حصہ غیر دستاویزی ہے۔

اس حصے میں شامل لوگ چند ان ڈائرکٹ ٹیکس دیتے ہیں ورنہ ٹیکس چوری، اسمگلنگ اور منی لانڈرنگ غیر دستاویزی معیشت کی خصوصیات ہیں۔ اگر یہ حصہ بھی قومی دستاویزی معیشت میں شامل ہوجائے تو حکومت کو کم از کم تین چار ہزار ارب روپے سالانہ مزید آمدن ہوسکتی ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کو سرکاری اخراجات بھی کم کرنا ہوںگے۔ نیز ٹیکس نیٹ میں امرا کو لانا ہو گا۔ہمارا حکومتی نظام طبقہ امرا کی سمت جھکا ہوا ہے۔ وہ طبقہ امرا کو مراعات عطا کرتا ہے جہاں پہلے ہی دولت کی ریل پیل ہے۔ یہ ناانصافی ختم ہونی چاہیے۔مذید براں ٹیکسوں کا نظام سادہ کرنا چاہیے اور قوانین کا وہ پیچیدہ مجموعہ بھی جس کے ذریعے پاکستان میں نیا کاروبار شروع کرنا یا کارخانے لگانا مشکل بنا دیا گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔