کھٹ ملوں اور کرسی ملوں کا نسخہ

سعد اللہ جان برق  جمعـء 31 مئ 2019
barq@email.com

[email protected]

ایک نہایت ہی کوالیفائڈ ماہر کٹھملیات و حشرات و نشریات نے ہمیں صیغہ راز بتایا ہے کہ آج کل دنیا میں ایسی کوئی دوا ایجاد نہیں ہوئی ہے جو کٹھملوں اور ان کی ترقی دادہ نسل ’’کرسی مل‘‘ کو مار سکے اور بازار میں یہ جو دوائیں دستیاب ہیں یا بیچی جا رہی ہیں، یہ ان بدبختوں کو یا تو تھوڑا سا بے ہوش کر دیتی ہیں یا بھگا دیتی ہیں اور یا زیادہ طاقتور بانادیتی ہیں۔ لیکن یہ سن کر آپ حیران و پریشان کے بجائے شاداں و فرحاں ہو جائیں گے کہ ہمارے ایک جگری، پھڑی اور گردی دوست نے ایسی دوا ایجاد کر لی ہے جو اس قسم کی تمام ناپسندیدہ مخلوقات کا قلع قمع کر دیتی ہے۔ اور دوا بھی کچھ ایسی نہیں ہے، ہر جگہ بلکہ ہر شخص کو دستیاب ہے۔

بہتر ہو گا کہ اس بے مثل و بے مثال، کملی کمال اور ڈسٹرائر آف آل‘‘ دوا کی کہانی خود اس کی زبانی آپ کو سنوا ئیں، اس کا بیان ہے کہ میں جب بھی اپنے کھیتوں میں کچھ بوتا تھا تو چیونٹیاں اور پرندے وہ ’’بیج‘‘ کھا لیتے تھے خاص طور پر برسیم اور شفتل سرسوں وغیرہ کے باریک بیجوں کو تو ایک رات میں فنا کر دیتی تھیں، آج میں تخم ریزی کرتا تھا تو رات ہی رات میں سارا بیج یہ کم بخت چیونٹیاں کھا لیتی تھی، اس مصیبت سے چھٹکارا پانے کے لیے میں نے ہر طرح کی زرعی دوائیں خوب مہنگی مہنگی خرید کر استعمال کیں لیکن کچھ نہیں ہوا۔ چیونٹیوں کا ’’اتیاچار‘‘ ویسے ہی جاری رہا۔

لوگوں کے کہنے پر میں نے مٹی ریت راکھ وغیرہ بھی دم درود کرنے والوں سے دم کروا کر کھیت میں بکھیری لیکن چیونٹیاں ٹس سے مس نہیں ہوئیں، آخرکار ایک دن میں کھیت کے کنارے پریشان بیٹھا تھا کہ ایک آدمی کا وہاں سے گزر ہوا جو سارے گاؤں میں ایک ہی دانہ (دانا) اور عالم میں انتخاب تھا ،ایسی کوئی برائی نہیں تھی جو اس کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری نہ ہو اور گاؤں میں ایسا کوئی شخص تو کیا یہاں تک کہ جانور اور کتے، بلیاں تک اس کے آزار سے محفوظ نہیں تھیں۔ وہ تو مجھ سے بات کر کے چلا گیا لیکن میں نے دیکھا کہ میرے آس پاس سے ساری چیونٹیاں غائب ہو چکی ہیں۔

تھوڑی دیر سوچنے کے بعد میں اٹھا اور کھیت کے گرد پھر پھر کر اونچی آواز میں بولنے لگا کہ اے چیونٹیوں باز آ جاؤ ورنہ میں خدا سے تم کو آخرت میں اس فلاں شخص کی ’’صف‘‘ میں مانگوں گا۔ اس شخص کا نام لینا تھا کہ چیونٹیاں سر پر پیر رکھ کر بھاگنے لگیں اور جو ان میں معذور یا بیمار تھیں ان کو اپنی عادت کے مطابق اٹھاکر لے جانا بھی بھول گئیں۔ بڑا زبردست نسخہ ہاتھ لگا تھا چنانچہ میں اپنے سارے کھیتوں میں فصلوں میں پھر پھر کر اس شخص کا نام دہراتا چلا گیا۔ ساتھ یہ بھی کہتا تھا۔

اے فلاں فلاں اگر میرے کھیتوں کو نقصان پہنچایا تو خدا تمہیں آخرت میں اس شخص کی صحبت نصیب کرے۔ جس طرح وہ شخص اپنے کھیت کی چیونٹیوں اور حشرات سے نالاں تھا ، اسی طرح ہم بھی تو کٹھملوں اور دیمک سے پریشان ہیں بلکہ ہمارے تو کھانے تک کے لالے پڑے ہوئے ہیں کہ کھیت میں جو کچھ ہوتا ہے وہ یہی حشرات اور کرسی مل چٹ کر جاتے ہیں اور ہم کھیت کے کنارے سر پکڑ روتے رہ جاتے ہیں۔ اب آپ سوچیں گے کہ وہ چیونٹی بھگاو، حشرات دوڑاو، کٹھمل مارو نام کیا ہے؟ تو نام میں کیا رکھا ہے۔

اصل چیز اس کے ’’کام‘‘ تھے ،کرتوت تھے، اعمال تھے۔ اور ایسے تو آپ کے سامنے سیکڑوں ہزاروں موجود ہیں ،کسی کا بھی نام لے دیجیے البتہ یہ خیال رکھنا ہو گا کہ جس کرسی یا مقام سے یہ حشرات بھگانا ہوں وہاں کسی اور کرسی مل کا نام لیا جائے، خود اس کا اپنا  نہیں کیونکہ اس کے ساتھ تو عادی ہو چکے ہوتے ہیں یعنی ’’اس کو‘‘ اس کا نام مارنا چاہیے، ویسے بھی زہرکا علاج زہر ہی سے کیا جاتا ہے۔ نہیں نہیں۔ ایسا سوچئے کبھی مت اس قیمتی نسخے کی کوئی قیمت یا ہدیہ یا شکرانہ نہیں ہے بلکہ خالص افادہ عام کے لیے ہم اسے نشر کر رہے ہیں بلکہ استدعا ہے کہ جس کو یہ نسخہ معلوم ہو جائے آگے وہ سات اور ’’زدگان‘‘ کو بھی بتا دے اور ثواب دارین حاصل کریے ۔ وہ دن اور آج کا دن مجال ہے کہ میرے کھیتوں میں ان نقصان دہ مخلوقات میں سے کسی کو بھی دیکھا گیا ہو۔

بلکہ میرے کھیتوں کو بیماریاں بھی نہیں لگتیں کہ جراثیم اور بیکٹریا بھی اس ’’نام‘‘ سے بھاگ جاتے ہیں، پھر میں نے اس تیر بہدف نام کو اپنے گھر میں بھی آزمایا، تو وہ کٹھمل پسو جوئیں یہاں تک مکھیاں مچھر بھی اب ہمارے گھر کو دور سے دیکھتی بھی نہیں۔ لیکن پھر بھی احتیاط میں ہفتے میں ایک روز ’’بے وضو‘‘  ہو کر اس نام کا ورد کر دیتا ہوں۔ بلکہ گاوں کے خاص خاص لوگوں کو بھی یہ نسخہ بتا دیا ہے جن میں اکثر تو اس نسخے کو مزید طاقتور بنانے کے لیے اس شخص کو مختلف بہانوں سے اپنے کھیتوں گھروں اور چارپائیوں میں بٹھانے بھی لے جاتے ہیں۔

ہم نے خود بھی یہ نسخہ آزمایا اور نہایت ہی موثر پایا اور پھر یہ سوچا کہ اگر یہ نسخہ کھیتوں فصلوں اور چارپائیوں یعنی کٹھملوں کے لیے موثر ہے تو کیوں نہ اسے کرسی ملوں پر بھی آزمایا جائے۔ اور یہ تو ہم بتا چکے ہیں کہ ’’کرسی مل‘‘۔ کھاٹ ملوں ہی کی ترقی دادہ قسم ہے، فرق صرف کھاٹ اور کرسی کا ہے یا یوں کہیے کہ عوام اور خواص کا ہے۔ کیا خیال ہے اس نسخے کو اپنے ہاں کے کرسی ملوں پر اور کرنسی یا فنڈز وغیرہ  پر آزمایا تو نتائج نہایت اچھے نکلنے کا امکان ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔