عمران خان کا مودی کو فون اور میرانشاہ کا فساد

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 31 مئ 2019
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

میاں محمد نواز شریف پاکستان کے منتخب وزیر اعظم کی حیثیت میں بھارتی وزیر اعظم ،نریندر مودی، کو فون کرتے اور انھیں اپنے ہاں مدعو کرتے تو ہمارے ہاں کئی اعتراضات اُٹھائے جاتے تھے ۔شبہات اور استفسارات میں کئی بھنویں تَن جاتی تھیں۔نواز شریف کے خلاف ’’مودی کا جو یار ہے، غدار ہے‘‘ کے نعرے لگائے جاتے ۔

عمران خان ، بطورِ اپوزیشن لیڈر، بھی اُنہی افراد میں شامل رہے ہیں جو نواز شریف کے خلاف ان نعروں کو بڑھاوا دیتے اورخوش ہوتے تھے ۔نریندر مودی پہلی بار وزیر اعظم بنے اور انھوں نے نواز شریف کو اپنی تقریبِ حلفِ وفارادی میںمدعو کیا تو عمران خان بھی اُن لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے نواز شریف کی مذکورہ تقریب میں شرکت کے خلاف نامناسب بیان دیے تھے۔

اب جناب عمران خان خود وزیراعظم پاکستان ہیں تو انھیں احساس ہو رہا ہے کہ بھارت اور بھارتی وزیر اعظم سے اچھے تعلقات استوار کرنا اور یہ تعلقات نبھاتے رہنا کسقدر ضروری ہے۔مودی کی پاکستان دشمنی میں کوئی شک نہیں ہے ۔ یہ صاحب بھارتی مسلمانوں اور  کشمیر کے آزادی پسندوں کو جن نظروں سے دیکھتے ہیں، وہ بھی اظہر من الشمس ہے ۔

سیکڑوں گجراتی مسلمانوں کو ان کی نگرانی میں جس ظالمانہ طریقے سے ذبح کیا گیاتھا، یہ بھی ہم سب جانتے مانتے ہیں ۔ ان حقائق کے باوصف ہمارے وزیر اعظم جناب عمران خان نے تازہ بھارتی انتخابات کے آغاز میں اس توقع کا اظہار کیا تھا کہ مودی کامیاب ہو جائیں گے ۔خانصاحب کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ طاقتور مودی دوبارہ اقتدار میں آ جائیں گے تو ممکن ہے مسئلہ کشمیر حل کرنے اور پاک بھارت تعلقات کی بحالی کی کوئی اچھی سبیل نکل سکے ۔

نریندر مودی انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوکر دوبارہ وزیر اعظم بننے کا حلف بھی اُٹھا چکے ہیں ۔مودی جی نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں اپنے تمام ہمسایہ ممالک کے سربراہوں کو تومدعو کیا ہے لیکن عمران خان کو دعوت نہیں دی ۔ ایک تو اس لیے کہ پاک بھارت تعلقات میں سخت کشیدگی اور عدم تعاون پایا جاتا ہے ، دوسرا شائد اس لیے بھی کہ عمران خان کو دعوت دی گئی اور وہ آ بھی گئے تو اُن کے ساتھ بھی پاکستان میں کہیں وہی برتاؤ نہ ہو جو برتاؤ (سابق) وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ کیا گیا تھا ۔ویسے جس مودی نے پاکستان دشمنی میں یہ انتخاب جیتا ہے، وہ مودی کس منہ سے پاکستانی وزیر اعظم کو دعوت دے سکتے ہیں؟ پاک بھارت تعلقات میں اتنی خرابی آ چکی ہے کہ اب عمران خان صاحب انھیں ہر صورت میں درست بھی کرنا چاہتے ہیں اور تعلقات کی اُتری گاڑی کو دوبارہ پٹڑی پر چڑھانے کے بھی سچے آرزو مند ہیں ۔

بھارت مگر نخرے دکھارہا ہے اور پاکستان کا بڑھا ہاتھ تھامنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔ اِسی لیے تو اُس کی طرف سے پاکستان کے خلاف(براستہ افغانستان)مبینہ سازشیں اور شرارتیں مسلسل اورمتواتر جاری ہیں ۔ ان میں کوئی کمی نہیں آرہی ۔ ان حقائق کے باوجود وزیر اعظم عمران خان مکالمے اور مذاکرے کی بساط بچھا کر بھارت کو قریب لانا چاہتے ہیں۔بھارتی سکھ یاتریوں کے لیے کرتار پور صاحب (ضلع نارووال، تحصیل شکرگڑھ)میں(بھارتی سرحد تک) راہداری کھولنے کی مخلصانہ بات کرکے انھوں نے ایک عالمی چھکا مارا تھا۔ پاکستان کی طرف سے اس راہداری کی تعمیر و تزئین پر تیزی سے عمل ہورہا ہے لیکن بھارتی عمل  سست روی کا شکار ہے ۔کرتار پور معاملے پر پاک بھارت تین تکنیکی میٹنگیں ہو چکی ہیں لیکن بھارتی بد نیتی کی وجہ سے کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکل سکا ہے۔اس کے باوصف ہمارے خانصاحب بھارت سے دوستی کرنے کی خواہش سے دستکش نہیں ہُوئے ہیں ۔ ایسا کرتے ہُوئے انھیں شائد نواز شریف بھی یاد آتے ہوں گے ۔

بھارتی سرد مہری کے باوجود عمران خان بھارت کی طرف تعاون اور دوستی کے لیے ہاتھ بڑھا رہے ہیں۔ مودی جی کامیاب ہُوئے تو انھوں نے فوراً مبارکبا د کا ٹوئٹر پیغام بھجوا دیا ۔ اس پیغام میں دونوں ہمسایہ ملکوں کے لیے نیک تمناؤں ، امن اور خوشحالی کا ذکر تھا۔خانصاحب نے اِسی پر اکتفا نہیں کیا۔ انھوں نے مزید آگے بڑھ کر دوسری بار وزیر اعظم منتخب ہونے والے مودی کو ٹیلی فون بھی کیا ہے ۔ مودی نے یہ فون سُنا بھی ہے اور مثبت جواب بھی دیا ہے ۔یعنی کچھ برف پگھلی ہے ۔گویا دونوں ممالک کے درمیان مکالمے کے لیے کسی کھڑکی کے کھلنے کے ممکنہ آثار نظر آنے لگے ہیں ۔

وزیر اعظم عمران خان کی زیر قیادت ، بھارت کے مقابل،پاکستان بضد نہیں ہے۔ چند دن پہلے اس کا عملی اظہار اُس وقت سامنے آیا جب بھارتی وزیر خارجہ، سشما سوراج، سنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے اجلاس میں شرکت کے لیے بشکیک جانا چاہتی تھیں تو پاکستان نے اُن کے جہاز کو پاکستانی فضاؤں سے گزرنے کی اجازت دے دی ۔ بھارتی حکومت نے خاص طور پر اس کی درخواست ہمارے وزیر اعظم سے کی تھی ۔

بالا کوٹ پر بھارتی جنگی طیاروں کی (ناکام) فضائی جارحیت کے بعد پاکستان نے بھارتی مسافر جہازوں پر بھی فضائی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ بھارتی فضائی کمپنیوں کو اس کا بھاری نقصان اُٹھانا پڑ رہاہے ۔ نہائت لمبے چکر کاٹ کر انھیں کئی بیرونی ممالک جانا پڑ تا ہے ۔سشما سوراج بھی اگر یہ چکر کاٹ کر بشکیک پہنچتیں تو انھیں دس گھنٹے کا زیادہ اور تکلیف دِہ سفر کرنا پڑتا مگر پاکستان نے انھیں اجازت دے کر مستحسن قدم اُٹھایا ہے ۔ شائد یہ اِسی کا اثر بھی تھا کہ بشکیک (کرغستان) میںہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور سشماسوراج نے (ایک طویل عرصے بعد) ایک دوسرے کے ساتھ مسکراتے ہُوئے مصافحہ کیا ہے ۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ مصافحہ کرتے ہُوئے بھی سشما نے کہہ دیاکہ پاکستان کڑوی باتیں کرتا ہے۔ ہمارے وزیر خارجہ نے حسبِ معمول مسکراتے ہُوئے جواب دیا: ’’ سشما جی کونسی ہمارے لیے مٹھائی کر لے کر آئی ہیں۔‘‘ امکان ہے اگلے ماہ بشکیک ہی میں عمران خان اور مودی جی کی ملاقات ہوگی۔

پاکستان نے بھارتی وزیر خارجہ کو گزرنے کے لیے جو حالیہ فضائی اجازت دی ہے، یہ واقعہ بھی اس امر کا غماز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو کسقدر اہم اسٹرٹیجک فضائی پوزیشنوں سے نواز رکھا ہے ۔ اِس وجہ سے بھی کئی عالمی طاغوتی اور شیطانی طاقتیں اپنے مفادات کے حصول کے لیے پاکستان میں فساد ات پھیلانے اور شرانگیزی کی اپنی سی کوششیں کرتی رہتی ہیں۔ ہمارے سیکیورٹی اور حساس ادارے انتہائی بیدار مغزی اور جانفشانی سے بروقت ان شرارتوں اور شیطانیوں کا کامل انسداد کرتے ہیں ۔ پھر بھی کچھ مفسد عناصر کو نقب لگانے کا موقع مل جاتا ہے ۔ گزشتہ روز میرانشاہ( شمالی وزیرستان)کی چیک پوسٹ ( خڑ کمر) پر جو سانحہ وقوع پذیر ہُوا ہے ، وہ بھی ایسے ہی ملک و قوم و دین دشمنوں کی کارستانی تھی۔ فسادی عناصر نے یہ واردات عین اُس وقت ڈالی جب پاکستان میں ہمارے دو غیر ملکی معزز مہمان (چین کے نائب صدر وانگ کشان اور ازبکستان کے نائب وزیر اعظم الیور گنیف ) تشریف لا چکے تھے۔

افسوسناک بات یہ ہے کہ میرانشاہ کے اس سانحہ میں مبینہ طور پر وزیرستان کے دونوں حصوں سے قومی اسمبلی کے دو منتخب ارکان ملوث پائے گئے ۔ ان دونوں کا تعلق پشتونوں کے تحفظ کے نام پر بنائی جانے والی ایک تنظیم سے بتایا جاتا ہے ۔ اس سے پہلے موومنٹ مذکور کے سربراہ بھی پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے بارے میں کئی بار کئی غیر محتاط اور دل آزار بیانات داغ چکے ہیں ۔ آئی ایس پی آر کے ڈی جی ، میجر جنرل آصف غفور، اپنی ایک پریس بریفنگ میں اِس تنظیم کے بارے میں جو انکشاف کر چکے ہیں ، وہ اپنی جگہ بہت تشویشناک ہیں ۔

میرانشاہ کے تازہ سانحہ کے بارے میں آئی ایس پی آر نے جو خبر جاری کی ہے، اِسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ مگر اس سانحہ بارے ہمارے وزیر داخلہ، اعجاز شاہ، کی خاموشی خاصی معنی خیزہے۔ شمالی وزیرستان کو ہمارے سیکیورٹی اداروں نے اپنا خون دے کر دہشتگردوں کی گرفت سے کامل نجات دے کر امن کا پرچم کا لہرایا ہے ۔ اس امن کو برباد کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔ پشتونوں کے تحفظ کے نام پر غیر ملکی مفادات کا تحفظ کرنے والے باز آ جائیں ۔ میرانشاہ میں فساد برپا کرنے والوں کے حق میں افغانستان کی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ، رحمت اللہ نبیل،نے جو شر انگیز ٹویٹ جاری کی ہے ، اِس نے بھی کہانی کھول دی ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔