یہ ہے نیا پاکستان؟

عابد محمود عزام  جمعـء 31 مئ 2019

نئے پاکستان کی حکومت کی نا اہلی اور نا تجربہ کاری کی وجہ سے روپے کی مسلسل بے قدری اور ڈالرکی قیمت میں غیر معمولی اضافہ ہوتا جا رہا ہے، جس سے چند روز میں ہی پاکستان کے بیرونی قرضوں میں کئی سو ارب روپے کا اضافہ ہوگیا اور مہنگائی میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ ڈالرکی خرید وفروخت میں عام آدمی تو شامل نہیں ہوتا ، لیکن اس کی قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ متاثر عام آدمی ہی ہوتا ہے۔ ڈالرکی قیمت میں اضافے سے زندگی گزارنے کی بنیادی اشیاء اس کی پہنچ سے باہر ہو جاتی ہیں۔

باہر سے سرمایہ کار ملک میں نہیں آتے اوردرآمدات میں کمی کا لوگوں کے معیار زندگی پر بھی برا اثر پڑتا ہے، کیونکہ انھیں گھٹیا معیارکی چیز بھی زیادہ مہنگی ملتی ہے۔ یوں ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والا شہری اس سے متاثر ہوتا ہے،کیونکہ کرنسی کی ویلیو میں کمی کے باعث ہی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوجاتا ہے جس کے باعث مہنگائی کا ایک طوفان آ جاتا ہے اور نرخوں میں مسلسل اضافے کی بدولت عام آدمی کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہی ہے۔

آٹا، چینی، گھی، چاول، دودھ ، دالیں، سبزیاں اورگوشت کے ساتھ ساتھ بجلی،گیس ، پٹرول اور ادویات بھی بنیادی انسانی ضروریات ہیں،جن کی ارزاں نرخوں پر دستیابی عوام کابنیادی حق ہے، لیکن ضروریات زندگی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے عوام کی زندگی تلخ کر دی ہے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ موجودہ دور حکومت میں مہنگائی خطرناک شرح سے بڑھی ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے زیست کا سفر مشکل ہوگیا ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے کمزور معاشی حالات بہت ساری معاشرتی برائیوں کو جنم دے رہے ہیں۔ اشیائے خورونوش و ایندھن کی بڑھتی قیمتوں اور ان کے مقابلے میں اپنی سکڑتی آمدن کی وجہ سے عوام میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

ملک میں برسرِ اقتدار آنے والی حکومتیں عوام کو ہمیشہ سے سبز باغ دکھا کر ان سے قربانیاں طلب کرتی رہی ہیں۔ عوام بھی ملک کی خاطر ہمیشہ قربانیاں دیتے رہے ہیں، لیکن حکمرانوں کے وعدے اور دعوے طفل تسلیاں اور زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں ہوتے۔ ملک میں ہر حکومت مہنگائی کم کرنے اور عوام کو ریلیف دینے کے وعدوں کے ساتھ برسرِ اقتدار آتی ہے، لیکن ہوتا اس کے برعکس ہے ۔ مہنگائی اور غربت میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ موجودہ حکومت نے تو مہنگائی کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔

موجودہ حکومت تو عوام کو ماضی کے حکمرانوں کی چیرہ دستیوں سے نجات دلانے کے وعدے کے ساتھ برسراقتدار آئی تھی۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین وزیر اعظم عمران خان نے اپنی سیاسی جدوجہد کے دوران ہمیشہ غریبوں کے حقوق کی بات کی۔ پی ٹی آئی کی سیاسی جدوجہد کا مقصد اقتدار میں آکر نیا پاکستان بنانا تھا، جس میں غریبوںکو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کی جائیں اور غربت کا خاتمہ کیا جائے۔ پی ٹی آئی نے اقتدار میں آکر سابقہ حکومتوں کی جانب سے عوام پر لگائے گئے بے تحاشہ ٹیکسز ختم کرنے کے اعلانات کیے، جن کی وجہ سے عوام کی زندگی مشکل ترین ہوگئی ہے۔

بے روزگاری ختم کرنے اور ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ بھی کیا۔ وزیرا عظم عمران خان نے اپوزیشن میں رہتے ہوئے عوام کی پی ٹی آئی اور خود سے توقعات کو شدت پکڑنے کا موقع دیا تھا۔اسی بناء پر لوگوں نے وزیرِ اعظم عمران خان سے بہت سی توقعات وابستہ کر لی تھیں کی ماضی میں سیاست دانوں کی جانب سے ان کے ساتھ جو زیادتیاں کی جاتی رہی ہیں، اس کا ازالہ کیا جائے گا ۔

عمران خان کے اقتدار ملنے سے پہلے کے بیانات سن کر عوام کو ان سے بہت سی امیدیں تھیں، لیکن نئے پاکستان کی حکومت دس ماہ میں عوام کے ساتھ کیا گیا شاید ہی کوئی وعدہ پورا کیا ہو۔ اقتدار میں آنے کے چند ماہ میں ہی اتنی زیادہ مہنگائی کردی کہ عوام سابقہ حکومتوں کے ادوارکو یاد کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ پی ٹی آئی اپوزیشن میں رہتے ہوئے بے تحاشہ ٹیکسز کے خاتمے کی بات کرتی تھی، لیکن اقتدار ملنے کے بعد خود اتنے زیادہ ٹیکسز لگائے کہ پی ٹی آئی کے حامی بھی موجودہ حکومت سے متنفر ہوگئے۔ صرف یہی نہیں، بلکہ سالانہ بجٹ میں بھی کئی سو ارب روپے کے نئے ٹیکسز کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔

حکومت کی جانب سے لگائے گئے بے تحاشہ ٹیکسز کی وجہ سے اچھے بھلے کامیاب چلتے اداروں سے ہزاروں ملازم بے روزگار ہوگئے۔ حکومت ایک کروڑ نوکریاں دے کر بے روزگاری توکیا ختم کرتی، الٹا بے روزگاری میں اضافے کا سبب بن گئی۔ بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے اثرات سے عوام ابھی تک صدمے میں ہیں۔ اکثر لوگوں کی امیدیں تو دم توڑ بھی چکی ہیں،کیونکہ نئے پاکستان کے وزراء اپنے سابقہ بیانات پر عمل کرتے ہوئے مہنگائی ختم کرنے اور عوام کی مشکلات کم کرنے کے بجائے عوام کو مشکل حالات کا مقابلہ اور صبرکرنے کے مشورے دے رہے ہیں۔

عوام کو مشکل حالات میں مبتلا کرکے صبر کرنے کے مشورے دینا، کیا یہی نیا پاکستان ہے؟ کیا عوام نے اس لیے پی ٹی آئی کو ووٹ دے کر اقتدار میں آنے کا موقع فراہم کیا تھا کہ یہ حکومت عوام کا جینا اجیرن کردے گی۔ کیا پی ٹی آئی ایسا نیا پاکستان بنانا چاہتی تھی، جس میں عوام کی زندگی تلخ ہوکر رہ جائے گی۔ موجودہ حکومت کی ناکامی کے بعداپوزیشن جماعتیں حکومت گرانے کی تحریک کی بات کررہی ہیں۔ عوام نے ابھی تک ان کی بات کو سنجیدہ نہیں لیا، لیکن صورتحال اسی طرح رہی تو حالات بدل بھی سکتے ہیں ۔ عوام کی قوت برداشت کا پیمانہ جب جھلک پڑتا ہے تو پھر وہ حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ اس وقت حکومت کے لیے انھیں سنبھالنا انتہائی مشکل ہوجائے گا۔

پی ٹی آئی کو سمجھنا ہوگا کہ ملک کا تقریباً 85 فیصد ووٹر عام آدمی ہے اور عام آدمی کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ملک میں کس کو پکڑ لیا گیا اورکسے چھوڑ دیا گیا۔ عام آدمی کو اس بات کی بھی کوئی خاص ٹینشن نہیں کہ ملک پر قرض کتنا چڑھ گیا ہے۔ عام آدمی کو تو بس اس بات کی ٹینشن ہوتی ہے کہ اپنی کم آمدنی سے اپنا گھر کیسے چلانا ہے۔ عوام کا گھر چلنا چاہیے اور ان کا چولہا جلنا چاہیے۔ اگر حکومت عوام کا چولہا ٹھنڈا کرکے ملک کا خزانہ بھرنا چاہے گی تو اس سے عوام کا متنفر ہونا فطری امر ہے۔

حالات کا تقاضا ہے کہ عوام کو مایوس نہ کیا جائے اور ان کے مسائل پر توجہ دی جائے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ اگر حکومت نے مہنگائی کو روکنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدام نہ کیا اور اپوزیشن نے احتجاجی تحریک شروع کر دی تو عوام بھی اس میں شامل ہو جائیں گے، پھر حکومت کے لیے حالات کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ اب تک جو بھی ہوگیا، سو ہوگیا۔اب حکومت کو معاملہ سنبھال لینا چاہیے۔ فوری طور پر عوام کو ریلیف دینے کا کوئی پروگرام لائیں۔ مہنگائی پر کنٹرول کریں اور مہنگائی میں چونکہ بے تحاشہ اضافہ کیا ہے، اس لیے تنخواہوں میں کم از کم پچاس فیصد اضافہ کیا جائے، تاکہ تنخواہ دار طبقہ اپنی ضروریات زندگی پوری کر سکے۔ وزیر اعظم عمران خان کا امتحان شروع ہے، جس میں پاس ہونے کے سوا کوئی چارہ پی ٹی آئی اور اس کی قیادت کے پاس نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔