تحفۂ رمضان؛ عید سعید

عبداللطیف ابو شامل  اتوار 2 جون 2019
اتحاد و اخوّت، ایثار و قربانی کے جذبے سے سرشار اللہ کی بارگاہ میں سجدۂ بندگی اور نذرانۂ شُکر بجا لانے کا نام عید ہے۔ فوٹو: فائل

اتحاد و اخوّت، ایثار و قربانی کے جذبے سے سرشار اللہ کی بارگاہ میں سجدۂ بندگی اور نذرانۂ شُکر بجا لانے کا نام عید ہے۔ فوٹو: فائل

رمضان الکریم کو الوداع کہنے کے ساتھ یہ دعا بھی کہ ہمیں آئندہ سال آنے والے رمضان المبارک کے روزے رکھنے کی بھی سعادت و توفیق ملے۔

رب تعالٰی ہماری کوتاہیوں کو درگزر فرمائے اور ہمیں اپنا بندہ بننے کی کرامت مرحمت فرمائے۔ حصول مسرت انسان کی جبلّت میں ہے۔ اسے ایسے مواقع کی تلاش رہتی ہے جس میں وہ اپنے احباب اور عزیز و اقرباء کے ساتھ اجتماعی طور پر خوشیاں منا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ سال میں چند ایام جشن، تہوار اور عید کے طور پر دنیا کی تمام اقوام و مذاہب میں منائے جاتے ہیں۔

یہ الگ بات ہے کہ ہر قوم، مذہب و ملت کے لوگ اپنے ایام عید و جشن کو اپنے عقائد و تصورات، روایات اور ثقافتی اقدار و تہذیب کے مطابق مناتے ہیں۔ اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ تصور عید بھی انسانی فطرت کا تقاضا اور انسانیت کی ایک قدر مشترک ہے۔ اسلام میں روح کی لطافت، قلب کے تزکیے، بدن و لباس کی طہارت اور مجموعی شخصیت کی نفاست کے ساتھ بہ صد عجز و انکسار و خشوع و خضوع تمام مسلمانوں کے اسلامی اتحاد و اخوت ، ایثار و قربانی کے جذبے سے سرشار ہوکر اللہ رب العزت کی بارگاہ میں سجدۂ بندگی اور نذرانۂ شکر بجا لانے کا نام عید ہے۔

اسلام جامع اور مکمل دستور حیات ہے، جو زندگی کے ہر موڑ پر مکمل راہ نمائی کرتا ہے۔ اسلام جو زندگی کے ہر گوشے کا احاطہ کیے ہوئے ہے، کا اپنے پیروکاروں سے مطالبہ ہے کہ وہ پورے کے پورے دین میں داخل ہوں یعنی ان کا ہر عمل دین اسلام کی ہدایات کے مطابق ہو۔ اسلام اعتدال کا دین ہے جو خوشیوں کے لمحات میں مسرت کے اظہار پر کوئی قدغن نہیں لگاتا، مگر ایسی خوشی کو قطعاً پسند نہیں کرتا جس سے اللہ اور اس کے حبیب کریم ﷺ کی نافرمانی لازم آئے، نخوت و غرور کی بُو آئے، تکبر کی جھلک نمایاں ہو، خوشی کی آڑ میں اخلاقی اقدار پامال ہوں اور شرعی حدود کا پاس و لحاظ نہ کیا جائے۔ جو خوشی و مسرت، تشکر و عاجزی سے بھرپور ہو، اللہ و رسول کریم ﷺ کی رضا کے لیے اور شرعی تقاضوں کے عین مطابق ہو، اسلام ایسی خوشی کی نہ صرف اجازت دیتا بل کہ اس کی بھرپور حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ اہل مدینہ دو دن بہ طور تہوار منایا کرتے تھے، جن میں وہ کھیل تماشے کیا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا: ’’یہ دو دن جو تم مناتے ہو، ان کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟‘‘ انہوں نے عرض کیا کہ ہم عہد جاہلیت میں یہ تہوار اسی طرح منایا کرتے تھے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ نے تمہارے ان دونوں تہواروں کے بدلے میں تمہارے لیے ان سے بہتر دو دن مقرر فرما دیے ہیں، یوم عیدالاضحی اور یوم عیدالفطر۔‘‘

رمضان المبارک ہمارے لیے اللہ کا عظیم اور خصوصی فضل و انعام ہے۔ اس ماہ مقدس میں قرآن مجید کا نزول ہوا، جو مسلمانوں کے لیے کامل دستور حیات ہے۔ خدا نے عیدالفطر کا یہ بابرکت اور مقدس یوم سعید امت رسول ﷺ کو تحفۂ رمضان کی صورت میں عطا فرمایا۔ دراصل عید کا یہ مقدس دن بارگاہ الہیٰ میں سجدہ شکر بجا لانے کا دن ہے کہ اللہ نے ہمیں رمضان المبارک عطا فرمایا۔ ہم نے رمضان المبارک کی عظیم ساعتوں میں رحمتوں اور برکتوں سے اپنی جھولیاں بھریں تو اللہ نے اپنی ان نعمتوں پر شکر اور خوشی ظاہر کرنے کے لیے مسلمانوں کو یہ عید کا پرمسرت دن عطا کیا ہے۔

ہمارا رب تو یہ چاہتا اور پسند فرماتا ہے کہ اس کے بندے آپس میں اظہار مسرت کریں اور اس کی نعمتوں کا کثرت سے شکر ادا کریں۔ اس لیے تو روزے کی فرضیت اور احکام بیان کرنے کے بعد آخر میں فرمایا کہ تاکہ تم اللہ کی تکبیر کہو، اس پر کہ اس نے تم کو ہدایت دی اور تاکہ تم شکر کرو یعنی جب رمضان کے دن پورے ہو جائیں تو اللہ کی طرف سے رمضان کے احکام کی پابندی کرنے اور اس کی دی ہوئی ہدایت کا شکر ادا کرنے پر تم تکبیر کہو اور تکبیر والی نماز پڑھو، ایسی نماز جس میں تمام نمازوں سے زیادہ تکبیریں ہیں۔ غرض رمضان میں عطا کی جانے والی نعمتوں کے شکرانے کو ہم عیدالفطر کہتے ہیں۔ اس دن مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے کو مبارک دینا اور باہمی محبت و الفت کو ظاہر کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ خدا کو اپنے بندوں کی یہ ادا بہت پسند ہے کہ اس کے بندے اس کی رضا کے لیے آپس میں پیار و محبت کا اظہار کریں، اکٹھے ہوں اور سب مل کر خوشیاں منائیں اور اس کی نعمتوں کا شُکر ادا کریں۔

عید کا یوم سعید قریب ہے۔ ماہ صیام کے اختتام پر مسلمانوں کا یہ عظیم مذہبی تہوار درحقیقت اسلام کا ایک مقدس شعار ہے۔ اس روز فرزندان اسلام اللہ کریم کا شکر بجا لاتے ہیں۔ عیدالفطر کے اجتماعات میں لوگوں کے ایک ساتھ جمع ہونے سے معاشرے میں اتحاد و یک جہتی اور محبت و رواداری کا احساس اجاگر ہوتا ہے۔ اس عظیم الشان موقع پر باہمی روابط بڑھنے سے ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہونے کے جذبات فروغ پاتے ہیں اور یہ عید کا پُرمسرت دن امیر غریب، افسر و ماتحت، تاجر و مزدور سب کے لیے ایک جگہ جمع ہونے کا موجب بنتا ہے۔

یوں مساوات اور یگانگت کے ولولہ انگیز مظاہرے کے ذریعے مسلمانوں کی ملی شناخت آشکار ہوتی ہے۔ دیگر اقوام و مذاہب سے وابستہ لوگ اسلام کے درس اخوت و محبت کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں جس سے غیرمسلموں کو اسلام کی طرف راغب ہونے کا موقع ملتا ہے۔ نماز پنج گانہ، جمعہ اور نماز عیدین کے اجتماعات کا ایک مقصود یہ بھی ہوتا ہے کہ دنیا کی دیگر تہذیبوں کو اسلام کی عظمت و رفعت باور کرائی جائے اور انھیں یہ بتایا جائے کہ اسلام نے حسب، نسب، رنگ و نسل اور مال و دولت کے تمام امتیازات کو مٹاتے ہوئے تمام انسانیت کو برابری کا درس دیا ہے اور اسلام کے ہاں عزت و برتری کا معیار تقویٰ و خشیت الہی ہے۔ عید کا دن فرزندان اسلام کے لیے مسرت و شادمانی کا دن ہے۔

یہ بچوں، بوڑھوں، نوجوانوں اور عورتوں کے لیے اظہار مسرت کا دن ہے۔ عیدالفطر دراصل تشکر و امتنان، انعام و اکرام اور ضیافت خداوندی کا دن ہے۔ عیدالفطر روحانی سکون کا یوم سعید ہے۔ اس دن کی فضیلت ہے کہ روز مسلمان پانچ مرتبہ جماعت نماز کی صورت میں اللہ کے گھر سجدہ کرنے جاتے ہیں اس دن پانچ کے بہ جائے مسلمان چھے نمازیں ادا کرتے ہیں۔ یہ چھٹی نماز عید ہوتی ہے جو شکرانے کے طور پر ادا کی جاتی ہے۔ اسی لیے صدقۂ فطر مقرر کیا گیا ہے اس کی ادائی کا حکم اسی لیے تو نماز عید سے قبل کا ہے تاکہ غرباء و مساکین بھی عید کی خوشیوں میں شامل ہوسکیں۔ ہمیں بیماروں اور معذورں کو بھی عید کی خوشیوں میں شامل کرنا چاہیے۔

عید صرف خود ہی انواع و اقسام کے خوان کھانے کا نام نہیں ہے بل اپنے ساتھ ان بے کس و نادار لوگوں کو بھی شامل کرنے کا نام ہے جن کے لیے یہ خوان نعمت ایک خواب ہیں۔ عید صرف خود ہی نئے کپڑے پہن کر سیر و تفریح کا نام نہیں بل کہ اپنے اردگرد اور خاص کر اپنے پڑوس میں کوئی ایسا خوددار نادار نظر آئے تو اس کی بھی مدد کیجیے تاکہ وہ بھی نیا لباس پہن سکے۔ ناداروں کی مدد اخلاص سے کیجیے۔ لیکن ایک بات یاد رکھیے کہ نیکی میں دکھاوا قطعاً نہیں ہونا چاہیے، ورنہ یہ ریاکاری ہوگی اور ریاکار نیکی برباد اور گناہ لازم کر بیٹھتا ہے۔

اس لیے ریاکاری و نام نمود جیسی خصلت بد سے خود کو ہر حال میں بچائیے۔ کسی کی عزت نفس کو پامال کرکے نیکی کا کام کرنے سے بہتر ہے کہ اسے نہ کیا جائے، اس لیے کہ اس کا اجر تو کیا ملے گا بل کہ رب تعالٰی اس بات پر گرفت فرمائے گا۔ اخلاص شرط اول ہے اور اگر سوچیے تو آپ کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ رب کا دیا ہوا ہے، تو آپ نے اگر اسی کی راہ میں اخلاص سے خرچ کیا اور اس کے نادار بندوں پر خرچ کیا تو اسے رب تعالٰی کی عنایت سمجھتے ہوئے سجدہ شکر بجا لائیے کہ اس نے آپ کو یہ سعادت عظمی بخشی۔ یتیموں کے سر پر ہاتھ رکھیے جن کے والدین اس دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں۔ ان بیواؤں کا سہارا بنیے جن کا کوئی سہارا نہیں ہے۔ غربا و مساکین کو خاص طور پر اپنی خوشیوں میں عملی طور پر شریک رکھیے کہ یہی عید کا اصل پیغام ہے۔

عبداللطیف ابُوشامل
[email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔