انسان کی تلاش…

عابد محمود عزام  جمعرات 29 اگست 2013

مشہور انگریزی ادیب آسکر وائلڈ نے 1890 میں ’’پکچر آف ڈورین گرے‘‘ کے نام سے ایک ناول لکھا، جس میں ایک 18 سالہ نوجوان ڈورین گرے کی صورت میں ایک ایسا کردار پیش کیا جو جرم اور گناہ کی دلدل میں دھنس جاتا ہے اور پھر اپنی تصویر بنانے والے مصور ’’باسل ہال ورڈ‘‘ کو قتل کر دیتا ہے۔ مگر یہ گناہ اسے چین نہیں لینے دیتا ۔ جب بھی وہ اپنی تصویر کو دیکھتا ہے تو اسے اس میں اپنا بھیانک چہرہ نظر آتا ہے اور اسے اپنے قاتل ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ یہی احساس آخرکار اسے دیوانگی میں مبتلا کردیتا ہے اور وہ خودکشی کرلیتا ہے۔ اس ناول سے آسکر وائلڈ نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ انسان بنیادی طور پر معصوم اور نیک فطرت ہوتا ہے۔ اگر نفرت، غصے یا وقتی لالچ کی بدولت وہ کسی انسان کا خون کر بھی بیٹھے تو اسے اس کا ضمیر چین سے نہیں رہنے دیتا۔

وہ ساری عمر پشیمان رہتا ہے اور یہ بوجھ لیے اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے۔ دوسری طرف برطانوی افسانہ اور ڈرامہ نگار ’’سمرسٹ ماہم‘‘ آسکر وائلڈ کے اس نظریے سے اتفاق نہیں کرتا کہ قتل کرنے والے مجرم قتل کرنے کے بعد پشیمان ہوتے ہیں، اس کی لکھی ہوئی کہانیوں کے کردار قتل کرنے کے بعد شرمندہ نہیں ہوتے۔ ان کہانیوں میں خاص طور پر ’’این آفیشل پوزیشن‘‘ شامل ہے۔ یہ ایک ایسے پولیس آفیسر کی کہانی ہے جو اپنی بیوی کو قتل کر دیتا ہے اور اسے بارہ سال کے لیے قید کی سزا سنائی جاتی ہے، مگر اسے اپنے کیے پر ذرا بھی پشیمانی نہیں ہوتی اور وہ اپنی زندگی کی تمام مصیبتوں کا ذمے دار اپنی بیوی کو قرار دیتا ہے اور اس کے قتل کو درست فیصلہ سمجھتا ہے۔

مجھے سمرسٹ ماہم کے مقابلے میں آسکروائلڈ کا نظریہ کچھ وزنی لگا۔ کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ کرہ ارض پر لاکھوں قسم کی مخلوقات موجود ہیں، لیکن وہ سوچ سمجھ سے محروم ہیں۔ انسان وہ واحد جاندار ہے جو سوچ، سمجھ سکتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے انسان کو قدم قدم پر ٹوکنے والے ایک زندہ ضمیر سے نوازا ہے۔ یہ ضمیر ہی  غلط کام کرنے پر انسان کو ہمیشہ ملامت کرتا ہے۔ لیکن حقائق آسکروائلڈ کے نظریے کو جھٹلا کر سمرسٹ ماہم کے نظریے کو درست ثابت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ دنیا میں رونما ہونے والے واقعات یہ بتلاتے ہیں کہ اگرچہ اﷲ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے، اسے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے نوازا ہے، اسے ہر قدم پر ٹوکنے والا ضمیر عنایت کیا ہے، وہ اچھے برے کی تمیز بھی کرسکتا ہے لیکن وہ انسانوں کو قتل کرنے کے بعد شرمندہ و پیشمان نہیں ہوتا۔ اگر وہ پشیمان ہوتا تو تواتر کے ساتھ دنیا میں انسانوں کا بے دریغ قتل عام نہ کرتا، انسان درندگی کی تمام سرحدیں عبور نہ کرجاتا۔ تمام اعلیٰ صفات کے باوجود انسان کی تاریخ درندگی سے بھری پڑی ہے۔ چیر پھاڑ کرنے والے جنگل کے درندے تو اپنے پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے بیک وقت صرف ایک دو جانور کو ہی مار تے ہیں۔

کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی جنگل میں درندوں نے ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں جانوروں کو مارڈالا ہو۔ لیکن اشرف المخلوقات ’’انسان‘‘ بیک وقت لاکھوں انسانوں کو مار ڈالتا ہے اور اسے کسی قسم کی شرمندگی بھی نہیں ہوتی۔ ہیروشیما، ناگاساکی اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ جہاں لمحوں میں لاکھوں انسانوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا گیا تھا۔ یہ انسان ہی ہے جو انسانوں کی تباہی کے لیے لاکھوں افراد پر مشتمل فوج اور اربوں، کھربوں روپوں کے ہتھیار خریدتا اور بیچتا ہے۔ انسان کی درندگی میں انسان کی ترقی کے ساتھ ساتھ اضافہ ہی ہوا ہے۔ صلیبی جنگوں، پہلی اور دوسری عالمی جنگوں، 1947 کے قتل عام، ویت نام، کوریا کی جنگوں، فلسطین، کشمیر کی خونریزیوں، عراق، افغانستان پر جارحیت، شام، صومالیہ، مصر، لیبیا، پاکستان اور دنیا کے ہر کونے میں انسانوں کے ہاتھوں اب تک کروڑوں انسان مارے گئے ہیں۔ انسان، انسان کو قتل کرنے کی دھن میں پتھر کے ہتھیاروں سے لے کر ایٹمی ہتھیاروں تک پہنچ گیا۔ انسان سائنس ٹیکنالوجی سمیت زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کی اس معراج پر کھڑا ہے، ماضی میں جس کا تصور بھی ممکن نہ تھا لیکن اس ترقی کے ساتھ اس کی درندگی میں اسی شدت سے اضافہ ہوا ہے۔

اشرف المخلوقات کی پوری تاریخ جنگوں، قتل و غارت سے بھری ہوئی ہے۔ پتھر کے دور سے سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس دور تک، جہل کے دور سے تہذیب و ترقی کے اس دور تک، انسان انسان کا خون بہاتا آرہا ہے۔ جنگوں اور انسان کے ہاتھوں انسان کے قتل کا ہزاروں سال پر مشتمل بادشاہتوں کا دور رہا ہے، اس دور میں درندگی کے ایسے ایسے مظاہرے کیے گئے کہ اس کے تصور سے انسان کے سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ جنگوں میں قتل عام کے شاہی حکم کے نتیجے میں بچوں، بڑوں، عورتوں، مردوں کو جس درندگی کے ساتھ قتل کیا گیا اور انسانی سروں کے مینار بنائے گئے۔ یہ اشرف المخلوقات کی تاریخ کا اس قدر بھیانک اور بدنما چہرہ ہے کہ جس کے تصور سے گھن آتی ہے۔ ہم اگر ان ادوار کو جہل کا نام دے کر درگزر کرنا چاہیں تو اکیسویں صدی کی ترقی یافتہ اور مہذب دنیا میں ہونے والی تاریخ کی بدترین جنگوں، عراق، افغانستان، فلسطین، بوسنیا، شام اور بے شمار علاقوں میں قتل عام کو کیا نام دیں جن میں لاکھوں بے گناہ انسان قتل کردیے گئے اور خونریزی کے اس عفریت کا کیا جواز پیش کریں جو تیزی سے ساری دنیا کو ہڑپ کرتا ہی جارہا ہے۔

مقدس مقامات تک اس کی ستم رانیوں سے محفوظ نہیں۔ پوری دنیا میں قتل و غارت گری کی ایسی آگ لگی ہوئی ہے جو بجھنے کا نام نہیں لے رہی۔ معمولی معمولی بات پر انسان، انسان کو قتل کررہا ہے۔ ہرطرف سے رونے کی آوازیں آرہی ہیں، ہرچہرہ مرجھایا سا لگ رہا ہے، کہیں مایوسی بکھری نظر آتی ہے تو کہیں اداسی چھائی نظر آتی ہے، آنکھیں اشک بار اور دل مضطرب، آخر اس کائنات کا کیا بنے گا؟ تہذیبی ترقی کا فطری تقاضا تو یہ تھا جہل کی ان یادگاروں کا خاتمہ ہوجاتا لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ پتھر کے دور کے ہتھیار تہذیبی ترقی کے ساتھ ترقی کرکے ٹینک، بحری اور فضائی جنگی جہازوں، راکٹوں، میزائلوں اور ایٹمی ہتھیاروں تک پہنچ گئے ہیں۔ ایٹمی ملکوں کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کے اتنے ذخیرے موجود ہیں کہ دنیا کو کئی بار تباہ کرسکتے ہیں۔ کیا یہ سب کچھ صرف انسان کو قتل کرنے کے لیے نہیں ہے؟

انسان کو انسان بنانے کے لیے اب تک  سیکڑوں فلسفے روشناس کرائے گئے۔ ہزاروں کتابیں لکھی گئیں۔ بے شمار نظریات پیش کیے گئے۔ سوا لاکھ پیغمبر انسان کو سدھارنے کے لیے تشریف لائے۔ آسمانی کتابوں کا نزول ہوا۔ مسجد، مندر، گرجا تعمیر ہوئے۔ علماء، پنڈت، پادری، وعظ و نصیحت کے پھول بکھیرتے رہے۔ افلاطون، ارسطو، سقراط، بقراط سے لے کر مارکس، اینجلز، ہیگل تک سیکڑوں مفکرین اور فلسفیوں نے انسان کو انسان بنانے کے لیے مختلف فلسفے پیش کیے۔ لیکن ان ساری کوششوں کے باوجود انسان وحشی درندوں کی مانند انسانوں کے خون کی ہولی کھیلتا ہی رہا۔ مولانا جلال الدین رومی فرماتے ہیں:

دی شیخ با چراغ ہمی گشت گرد شہر

کز دیو و دد ملولم و انسانم آرزوست

شیخ کل شہر بھر میں چراغ لے کر پھرتا رہا کیونکہ وہ (کہہ رہا تھا کہ میں) جنوں، بھوتوں اور وحشی درندوں سے رنجیدہ خاطر ہوں اور انسان کی تلاش میں ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔