کوچۂ سخن

عارف عزیز  اتوار 2 جون 2019
 کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

’’عید آئی ہے!‘‘


عید آئی ہے مگر عید کی ساری خوشیاں
یہ صداقت ہے کہ بچپن میں ملا کرتی تھیں
لذتیں عود کے آ جاتی تھیں پکوانوں میں
اور نئے کپڑوں کی پوشاکیں سلا کرتی تھیں
سخت غربت میں بھی اخلاص کا پیکر تھے لوگ
سب کے آنگن میں مسرت کی ردا چھاتی تھی
قہقہے گونجتے رہتے تھے فضا میں کتنے
کتنی رونق تھی جو پھر گاؤں میں لگ جاتی تھی
اب یہ عالم ہے، دبے پاؤں گزر جاتی ہے
رونقیں عید کی اب پہلے سی باقی ہی نہیں
گرچہ رنگوں سے مزین تو ہے اب بھی لیکن
عید کی کوئی بھی چھب پہلے سی باقی ہی نہیں
(فیصل مضطر۔ آزاد کشمیر)

۔۔۔
’’خوشبو‘‘
مرے آنچل سے لپٹی ہے
مری آنکھوں میں سمٹی ہے
تمہارے لوٹ آنے کی
نئی امید کی خوشبو
مرے گجرے میں مہکے گی
مری چوڑی میں کھنکے گی
تمہارے پیار کی خوشبو
تمہاری دید کی خوشبو
میں جب اپنی ہتھیلی پر
حنا کے سرخ رنگوں سے
تمہارا نام لکھوں گی
تو تم تک آن پہنچے گی
تری ناہید کی خوشبو
تمہارے ساتھ مہکے گی
ہماری عید کی خوشبو
(ناہید اختر بلوچ۔ ڈیرہ اسماعیل خان)

۔۔۔
’’اذانِ عید‘‘


اے اذانِ عید
لاکھ شکر کہ تُو
پنجگانہ نہیں
روزانہ نہیں
وگرنہ یہ
شہر بدر سماعتیں
تڑی پار لمس کیا کرتے
مقید سراپوں پہ کیا بیتتی
اے اذانِ عید
لاکھ شکر کہ تُو
پنجگانہ نہیں
روزانہ نہیں
آہنی چھتوں کے سایے میں
حبس زدہ سانسیں
مہیب لہروں کی
گردش میں پھنسے
وہ پردیسی ، وہ بے گھر
کیا کرتے
اے اذانِ عید
لاکھ شکر کہ تُو
پنجگانہ نہیں
روزانہ نہیں
(ساگر حضور پوری۔ سرگودھا)

۔۔۔
غزل


مکینِ لامکاں کوئی تو ہو گا
ورائے آسماں کوئی تو ہو گا
مری منزل ہے اوجِ آدمیت
مرا بھی کارواں کوئی تو ہو گا
بچائے جو چمن کو آندھیوں سے
حریمِ گلستاں کوئی تو ہو گا
جسے آئندگاں بھی مان جائیں
مثالِ رفتگاں کوئی تو ہو گا
صدائے لا الٰہ جو آ رہی ہے
سرِ نوک سناں کوئی تو ہو گا
ہمارے درمیاں جو دوریاں ہیں
ہمارے درمیاں کوئی تو ہو گا
(حسن علی طاہر۔ ٹیکسلا)

۔۔۔
غزل


لرزتے ہاتھ سے سیدھا لحاف کرتے ہوئے
وہ رو رہا تھا مرے زخم صاف کرتے ہوئے
یہ شہر ابنِ زیاد اور یزید مسلک ہے
یہاں پہ سوچیے گا اعتکاف کرتے ہوئے
چراغ ہم نے چھپائے ہیں کیا تہِ دامن
ہوائیں گزری ہیں دل میں شگاف کرتے ہوئے
نہ پوچھ کتنی محبت ہوئی ہے خرچ مری
تمام شہر کو اپنے خلاف کرتے ہوئے
اسی لیے تو مرے جرم ہیں سبھی کو پسند
کہ میں جھجکتا نہیں اعتراف کرتے ہوئے
کسی کے لمس کی سردی اتر گئی ہے آج
دہکتی دھوپ بدن کا غلاف کرتے ہوئے
ہوا میں نوحہ کناں ہیں تھکے پروں کے ساتھ
پرندے جلتے شجر کا طواف کرتے ہوئے
ثواب سارے مرے لے گیا وہ شخص فقیہہ
کسی گناہ پہ مجھ کو معاف کرتے ہوئے
(فقیہہ حیدر۔ حافظ آباد)

۔۔۔
غزل


نشست بدلی ہے خانہ بدل کے دیکھا ہے
جنوں، جنوں ہے ٹھکانہ بدل کے دیکھا ہے
میں ایک اور تعلق سے ہوگیا محروم
نصیب نے تو نشانہ بدل کے دیکھا ہے
کہیں پہ لوگ نہ موسم کہیں پہ راس آیا
جگہ جگہ پہ ٹھکانہ بدل کے دیکھا ہے
لگی نہ آنکھ دوبارہ کسی بھی کاندھے پر
سرشت بدلی ہے شانہ بدل کے دیکھا ہے
ہیں چند لمحے میسر جو استفادہ کرو
کہاں کسی نے زمانہ بدل کے دیکھا ہے
عجیب شخص ہے اختر کہ بھولتاہی نہیں
ہزار دل نے بہانہ بدل کے دیکھا ہے
(اختر ملک۔ چکوال)

۔۔۔
غزل


تمہارے لہجے میں تم سے میں گفتگو کروں گا
تمہیں میں آج تمہارے ہی روبرو کروں گا
میرا یہ عشق عقیدے میں ڈھل گیا جس دن
تیری تلاش میں نکلوں گا تُو ہی تُو کروں گا
تیرے وصال میں جو ہجر سا مزا نہ ملا
میں تجھ سے مل کے بچھڑنے کی آرزو کروں گا
رکھوں گا اس کو رقیبوں تلک ہی کب محدود
کیا جو یار کا چرچا تو کو بہ کُو کروں گا
نہیں ہے آس پاس کوئی خیر خواہ میرا
سو آج میں بھی یہاں کھل کے گفتگو کروں گا
(سلمان احمد۔ راولپنڈی)

۔۔۔
غزل


اک مری جھونپڑی چھوڑ کر سارے عالم پہ سایہ کیا
اس نے سب کو گلے سے لگایا، مجھے کیوں پرایا کیا؟
جونہی چھٹی ہوئی اس نے فوراً رُخ نور کو ڈھک لیا
ورنہ کیمپس میں جب تک رہی اس نے بس اک عبایا کیا
جب وہ رخصت ہوا تو مری آنکھ کا نور بھی لے گیا
یعنی اس نے مری ذات پر اس قدر گہرا مایا کیا
چھت جو ٹوٹی کڑی دھوپ میں تو مجھے فکر تک نہ ہوئی
کیوں کہ اک شخص کے گیسوؤں نے مرے بت پہ چھایا کیا
تیرے لکھے ہوئے سب خطوں کو جلایا غمِ ہجر میں
تیرے بھیجے ہوئے سارے تحفوں کا گھر سے صفایا کیا
(ریحان سعید۔ ڈیرہ غازی خان)

۔۔۔
غزل


جو گزرتی ہے محبت میں بتا دیتے ہیں
دل کی دھڑکن سے نیا شعر سنا دیتے ہیں
ہم نے سیکھا ہے لکیروں کو منقش کرنا
آئنہ دیکھ کے تصویر بنا دیتے ہیں
ہم ہیں خاموش تو پھر کوئی سبب ہی ہو گا
آپ کہتے ہیں تو پھر حشر اٹھا دیتے ہیں
دل کے مندر میں سجاتے ہو انا کے بت کیوں
تم کو کیا چیز یہ پتھر کے خدا دیتے ہیں
انکساری کی رسائی ہے دلوں تک ایسی
جو بھی ملتا ہے اسے دل سے دعا دیتے ہیں
پیار بھی کھیل بنایا ہے عجب لوگوں نے
ایک تصویر بناتے ہیں، مٹا دیتے ہیں
ان پرندوں کے تعاقب میں نہ جانا زہرا
جب یہ اڑتے ہیں تو گھر بار بھلا دیتے ہیں
(زہرا بتول۔ اسلام آباد)

۔۔۔
غزل


سب کو اپنی مثال دیتا ہے
میرا حصّہ نکال دیتا ہے
کیسا دیکھو عجیب دریا ہے
میری نیکی اچھال دیتا ہے
ہم پرندوں کا پاسباں دشمن
خود شکاری کو جال دیتا ہے
فیصلے اس طرح نہیں ہوتے
تو جو سکہ اچھال دیتا ہے
گر ہے جائز مطالبہ تیرا
دے گا وہ ذوالجلال دیتا ہے
پڑھ کے غالب کا شعر کوزہ گر
سب کو جامِ سفال دیتا ہے
(حارث انعام۔ حکیم آباد، نوشہرہ)

۔۔۔
غزل


جلتے ہوئے چراغ بجھاتی ہیں آندھیاں
سناہٹوں میں شور مچاتی ہیں آندھیاں
جانے وہی کہ جس نے گزاری ہو غم کی شب
کیسے کواڑ گھر کے بجاتی ہیں آندھیاں
صحرا پہ، دشت پر ہی نہیں ان کو دسترس
شہروں میں بھی تو خاک اڑاتی ہیں آندھیاں
آتی ہیں بن کے یاد کسی کے وصال کی
تا صبح چشم نم کو جگاتی ہیں آندھیاں
رہتے ہو کس گمان میں اسلم رؤف تم
بجھتے چراغ کو بھی ستاتی ہیں آندھیاں
(رؤف اسلم آرائیں۔ ڈگری)

۔۔۔
غزل


تیری آنکھیں کمال ہیں جاناں
چاندنی کی مثال ہیں جاناں
کیا یہ کم ہے کہ دیکھ کر تجھ کو
ہوش اب تک بحال ہیں جاناں
ماہِ کامل لگیں خدا شاہد
وہ جو تیرے ہلال ہیں جاناں
زندگی یار بن کٹے کیسے
اب تو سانسیں وبال ہیں جاناں
اس سے بڑھ کر ہیں یار غم تیرے
جتنے احمد کے بال ہیں جاناں
(احمد عباس۔ میانوالی)

۔۔۔
غزل


کوئی دیوانہ کہتا ہے کہ اس میں موت بستی ہے
محبت نام ہے جس کا فقط پستی ہی پستی ہے
میں تیری آنکھ کی پرہیزگاری سے نہ بچ پایا
تمہارا وار چلتا ہے تمہاری آنکھ ڈستی ہے
میری یہ بات سن لے تُو مجھے تجھ سے نہیں چاہت
میری اس ذات کے آگے بھلا تیری کیا ہستی ہے
تو ہر سو وارداتوں میں پھنسانے میں رہا مجھ کو
نہ اب کچھ ہوش رہتا ہے جو رہتی ہے تو مستی ہے
یہ تم ارباب کس خطے میں آ پہنچے مرے ہمدم
یہاں پر عشق رہتا ہے یہ دیوانوں کی بستی ہے
(ارباب اقبال بریار، احاطہ دیوی دیال۔ گوجرانوالہ)

۔۔۔
غزل
آج پھر دل جلا کے دیکھتے ہیں
ان سے نظریں ملا کے دیکھتے ہیں
دیکھ کر میکدے میں ساقی کو
کوئی تہمت لگا کے دیکھتے ہیں
بوجھ ہلکا ہوا نہ رونے سے
آج ہم مسکرا کے دیکھتے ہیں
چاندنی ہے چکور آئے گا
اس کی گردن اڑا کے دیکھتے ہیں
اس سے کہنا کہ داد زندہ ہے
وہ جو زہریں پلاکے دیکھتے ہیں
(داد بلوچ۔ فورٹ منرو)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچۂ سخن‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی
[email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔