اللہ کا ملک کہاں ہے

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 1 جون 2019
barq@email.com

[email protected]

مقام ہی ایسا ہے کہ ہم حیران اور پریشان اور ان دونوں سے زیادہ انگشت بدندان کھڑے ہیں، لگتاہے کہ کسی طلسم ہوشربا یا مایا جال میں آگئے ہیں کہ جو ’’ہو رہا ہے‘‘ زور شور سے ہورہا ہے اور بہت زیادہ ’’ہورہاہے‘‘ وہ بالکل بھی ’’نہیں‘‘ ہورہا ہے کہیں بھی نہیں ہورہا ہے ذرہ بھر بھی نہیں ہورہا ہے۔

اور جو ’’نہیں‘‘ہورہا ہے ہردلیل ہرقانون ہر بیان اور ہر ’’منہ‘‘کے مطابق ہرگزہرگز ’’نہیں‘‘ ہو رہاہے وہ زور سے ہورہاہے کھلے عام ہورہا ہے دھڑلے سے ہورہاہے، بقول مرشد

ہاں کھائیومت فریب ہستی

ہرچندکہیں کہ’’ہے‘‘نہیں ہے

اور علامہ نے توصاف کہا ہے کہ

جو ’’تھا‘‘نہیں ہے جو’’ہے‘‘نہ ہوگا ہے اک حرف مجرمانہ

’’قریب‘‘ترہے نمود جس کا اسی کا مشتاق ہے زمانہ

مری صحرائی سے قطرہ قطرہ لیے حوادث ٹپک رہے ہیں

میں اپنی تسبیح روز وشب کا شمار کرتاہوں دانہ دانہ

ایک طرف یہ بڑے بڑے اسپتال یہ اونچے مراکز صحت یہ بڑے طبی کالج کلینک،صحت کارڈ،بیت المال، لسائل ولمحروم کے ادارے،عشروزکوۃ کی تقسیم کاری۔ سیاسی پارٹیوں کے اغل بغل ہستیاں اور شفاخانے خانم خانے جانم خانے اور بیگم خانے۔لیکن دوسری طرف ایک ہجوم ہے جو درد سے کراہتے ہوئے علاج کی استطاعت نہ ہونے اپنے جلو میں دنیابھر کے روگ امراض اور بیماریاں لیے ہوئے، سوئے لوگوں کو ،سمجھ میں نہیں آرہاکیا سمجھیں کیادیکھیں کیا نہیں؟ اور کیا کہیں۔

اور یہ ہم ہوائیاں نہیں اڑارہے ہیں ہم ایک بے بضاعت نارسا اور چھوٹے سے کالم نگار ہیں لیکن ہمارے پاس ایسے خطوط اور فریادناموں کا ایک ڈھیر جمع ہوگیاہے س جن میں نام ومقام توبدلے ہوئے ہوتے ہیں کہ کہانی وہی ایک ہے جس کی بنیاد کسی بچے بوڑھے یا خاتون کی بیماری سے شروع ہوتی ہے پھر اسپتالوں اور ڈاکٹروں کے ڈرامائی  ’’سین‘‘ہوتے ہیں آگے پھر سرکاری مفت علاج اور یہ کارڈ وہ کارڈ کے سلسلے آتے ہیں،اور ہرطرف سے مایوس ہوکر ہمیں ایک دردناک مکتوب۔اس یقین کے ساتھ کہ ادھر ہم نے لکھا اور ادھر ہوگیا۔

ان کو یہ معلوم ہی کہاں ہے کہ ہم خود آج تک اس ’’کن‘‘۔فیکون کے لیے سوائے ایک ہستی اعلیٰ کے۔ترسے ہوئے ہیں فلاں نے نوٹس لیا،موقع پر لوگوں کے مسائل سنے اور احکام صادر کردیے۔جو ’’صادر‘‘ہوئے کس جہاں میں جاکر عدم پتہ ہوگئے۔ اس موقع پر ہمیں ایک پرانا واقعہ یاد آیا جنرل فضل حق گورنر یا وزیراعلیٰ تھے۔ایک محفل میں موسیقی میں اس نے ایک ’’گائیکہ‘‘کا گانا سن کر کہا کہ ہا میرے ہاں فن کاروں کی قدر نہیں کی جاتی، اس گائیکہ کے باپ  سے کہا کہ تم بتاؤ تمہیں کوئی تکلیف یا ضرورت اگر ہو تو مجھے بتاؤ۔

اس نے اپنی ضروریات کی فہرست سنانا شروع کردی تو گورنر صاحب نے ہاتھ اٹھاکر کہا بس۔ایسا کرو تم کسی وقت آکر مجھ سے مل لو۔میں سب ٹھیک کردوں گا اور چلے گئے۔وہ خدا کا سادہ دل بندہ دل میں طرح طرح کے منصوبے بناتاہوا گورنر صاحب سے ملنے کی کوشش میں لگ گیا۔ کئی مہینوں کی کوشش کے بعد ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی،اس عرصے میں گورنرصاحب اس شخص اور اس کی بیٹی کو بھول چکے تھے۔

اس نے اور اس کی بیٹی نے اپنا تعارف کرایا اس محفل کا حوالہ دیا اور وعدہ یاد دلایا۔فضل حق بڑا ہنسا ہنسنے کے بعد بولا، ارے وہ تم نے بھی اپنے منہ کی ہوا نکالی اور میں نے بھی نکال دی بات ختم۔اس قسم کی اور بھی بہت ساری حکایات ہیں جن میں خدا کے سادہ دل بندے’’منہ کی ہوا‘‘نکالنے کو سچ سمجھ لیتے ہیں اور پھر خوار ہوتے پھرتے ہیں۔

اب جس تازہ ترین خط کا ہم ذکر کر رہے ہیں اس میں بھی وہ مشہور ومعروف جملہ ہے کہ’’ہم صحت کارڈ بنوانے گئے تو جواب ملا کہ وہ تو خاص لوگوں کے خاص لوگوں کے لیے ہوتے ہیں تم تو عوام میں سے ایک عوام ہو‘‘یہ صرف صحت کارڈ کے ساتھ نہیں بلکہ ہر سیاسی کارڈ کے ساتھ، انکم سپورٹ کے ساتھ،عشروزکوۃ کے ساتھ،بیت المال کے ساتھ اور للسائل والمحروم کے ساتھ ہے۔

اب ان ازلی ابدی احمقوں کو کون سمجھائے کہ یہاں لوگ اتنے جتن اور تگڑم لڑاکر اسی لیے تو آتے ہیں کہ اس’’حلوائی کی دکان‘‘ عرف پاکستان پر اپنے اپنے ’’داداؤں‘‘اور دادیوں‘‘  کے فاتحے پڑھیں نہ کہ ایروں غیروں اور نتھوخیروں کے۔ ہم صرف اتناکرسکتے ہیں اور کر رہے ہیں کہ ایسے لوگوں کو بتادیں جو امیدیں اور خوش فہمیاں پالتے رہتے ہیں کہ امیدوں اورخوش فہمیوں کی یہ کھیتیاں لگانا چھوڑ دو اور سیدھے سیدھے اس دنیا میں چلے جاؤ جو تمہارے لیے ہی بنی ہے اور اس کا راستہ اس پشتو ٹپے میں بتایا گیا ہے۔

دازمانہ دغریب نہ دہ

کڈے دے نغاڑی د اللہ ملک تہ دے زینہ

ترجمہ۔یہ زمانہ یہ دنیا غریب کے لیے نہیں ہے ان کو بتادو کہ اپنا اپنا سامان باندھیں اور اللہ کے’’ملک‘‘ چلے جائیں۔اب ’’اللہ کا ملک‘‘اس زمین کے اوپر تو نہیں ہے کہ اس پر اس کے خلیفہ نے قبضہ کیاہواہے، ظاہر ہے کہ اس اللہ کے ملک کو زمین کے نیچے ہی کہیں ہونا چاہیے۔تو چلیے اللہ کانام لے کر اس ملک کو جو آپ کے لیے بنا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔