صبر ابھی 8 میچز باقی ہیں

سلیم خالق  اتوار 2 جون 2019
پہلے ہی میچ میں ویسٹ انڈیزکے ہاتھوں7وکٹ کی ناکامی کے بعد حقیقت کا اندازہ ہو گیا۔ فوٹو: فائل

پہلے ہی میچ میں ویسٹ انڈیزکے ہاتھوں7وکٹ کی ناکامی کے بعد حقیقت کا اندازہ ہو گیا۔ فوٹو: فائل

ہم پاکستانیوں میں یہ خامی ہے کہ توقعات کا محل بہت جلدی تعمیر کر لیتے ہیں اور پھرجب وہ دھڑام سے گر پڑے تو سب غم میں ڈوب جاتے ہیں، سارا سال کچھ پڑھا نہیں مگر جب امتحان دے دیں تو اے گریڈ کی توقعات باندھ لی جاتی ہیں، اور تو اور ہاکی کب کی ٹوٹ چکی مگر اسی ٹوٹی ہاکی کے ساتھ جب کسی ایونٹ میں حصہ لیں تو گولڈ میڈل سے کم تو سوچتے ہی نہیں۔

خیر شکرہے کرکٹ ٹیم کا ابھی ہاکی والا حال تو نہیں ہوا لیکن جس ڈگر پر وہ چل رہی ہے اگر سنبھالا نہیں گیا تو جلد معاملات قابو سے باہر ہو جائیں گے، ہماری ون ڈے رینکنگ چھٹی ہے، رواں سال16 ون ڈے میچز میں سے صرف 2 میں فتح حاصل کی، مسلسل 11 میچز میں شکست کا شرمناک ریکارڈ بنا لیا، اس کے باوجود ورلڈکپ میں لوگوں کی توقعات آسمان سے باتیں کر رہی تھیں، مگر پہلے ہی میچ میں ویسٹ انڈیزکے ہاتھوں7وکٹ کی ناکامی کے بعد حقیقت کا اندازہ ہو گیا۔

ہمیں ٹیم کو اس کی صلاحیت اور حالیہ کارکردگی کے تناظر میں پرکھنا چاہیے، فی الحال ٹرافی جیتنے کی توقع نہ رکھیں صرف یہ دعا کریں کہ کسی طرح سیمی فائنل میں پہنچ جائیں، یہ مان لیں کہ دنیا کی تمام ٹیمیں بہت آگے نکل گئیں اور ہم پیچھے رہ گئے، پیس بولنگ اٹیک ہماری جان ہوا کرتا تھا، اب کل کے بچے بھی کھڑے کھڑے چھکے لگا دیتے ہیں، بولنگ کوچ اظہر محمود سے کبھی کوئی جواب طلبی نہیں ہوتی، عامر کو 2 سال تک بغیر کسی پرفارمنس کے کھلایا گیا اور اب ایک میچ میں تین وکٹیں لینے پر چاہنے والے ایسے خوشی کے شادیانے بجا رہے ہیں جیسے ورلڈکپ جتوا دیا ہو۔

حسن علی اور وہاب ریاض کا جو پہلے میچ میں گیل اور پوران نے حال کیا وہ سب نے دیکھا ہو گا، معیاری اسپنرز بھی اب ہمارے پاس موجود نہیں، آل راؤنڈرز کو تو بھول ہی جائیں، ٹیل اتنی لمبی ہو گئی کہ ابتدائی وکٹیں گرنے کے بعد اتنی جلدی اننگز کا اختتام ہوا جیسے کسی میچ کی جھلکیاں چل رہی ہوں، انگلینڈ کیخلاف تین میچز میں 300 سے زائد رنز بنانے کی وجہ سے ہم بیٹنگ لائن سے یہ توقع کر رہے تھے کہ یہ ویسٹ انڈین بولنگ کی بھی دھجیاں اڑا دے گی مگر الٹ ہو گیا۔

یو اے ای کی ڈیڈ پچز پر سنچریاں بنانے والے نام نہاد سپراسٹارز کو جب ذرا سی مشکل کنڈیشنز ملیں تو وہ جلد ڈریسنگ روم واپس جا کر کافی پینے کو ترجیح دیتے ہیں، جب آسان پچ ہو تو سنچری بنا کر ایسے چھلانگیں لگائی جاتی ہیں جیسے ٹی وی سے نکل کر ہی ناقدین کی پٹائی لگا دیں گے، آپ یہ دیکھیں کہ حالیہ کچھ عرصے میں پاکستانی بیٹسمینوں نے کتنی سنچریاں بنائیں مگر پھر بھی ٹیم ہار رہی ہے، اس کی وجہ صرف اپنے لیے ہی کھیلنا ہے، ہمیں بھی تھوڑی احتیاط کرنی چاہیے، ایک میچ جیت جائیں تو شاہینوں کی اونچی پرواز، اگلا ہار جائیں تو تنقید کے نشتر، بابر اعظم کوہلی کے جیسا بیٹسمین ہے۔

فخر زمان میں سعید انور کی جھلک نظر آتی ہے، پھر یہی پلیئرز جب ناکام ہوں تو سب کچھ بھول کر تنقید کرنا شروع ہو جاتے ہیں، اس ورلڈکپ میں ہر ٹیم کو کم از کم 9 میچز کھیلنے ہیں، اگر آپ ابتدا میں غلطیاں کریں تو بعد میں انھیں سدھارنے کا پورا موقع موجود ہے، یہ درست ہے کہ پاکستانی ٹیم کا آغاز بہت بدترین رہا لیکن اب بھی ہم ایونٹ میں واپس آ سکتے ہیں، افسوس کی بات یہ ہے کہ بہت سے پاکستانی شائقین کیلیے ورلڈکپ ختم ہو گیا وہ کھلاڑیوں کے پیچھے پڑ گئے ہیں، سوشل میڈیا پر تصویریں ایڈٹ کر کے عامیانہ مزاح پیدا کرنے کی کوشش ہو رہی ہے، اس کا نقصان سراسر ٹیم کو ہی ہوگا۔

کھلاڑی بھی انسان ہیں، وہ یقیناً سوشل میڈیا دیکھتے ہوں گے، دوستوں و اہل خانہ کی باتوں سے بھی شائقین کے غم و غصے کا اندازہ ہو رہا ہوگا، ایسے میں سب یقیناً بہت زیادہ دباؤ کا شکار ہوں گے، اس کا منفی اثر بقیہ میچز میں کارکردگی پر بھی پڑے گا، ابھی آپ ٹیم کو اس کے حال پر چھوڑ دیں، ہو سکتا ہے کہ بقیہ میچز میں اچھا کھیل پیش کرے، پھر جب ایونٹ میں سفر ختم ہو جائے تو پھر سب کی کارکردگی کا پوسٹ مارٹم کریں اور کسی کو نہ بخشیں، اگر آپ اس ٹیم کی جیت پر مٹھائیاں بانٹتے اور خوشیاں مناتے ہیں تو ہار میں بھی ساتھ کھڑے ہوں، تھوڑا انتظار کر لیں شاید کوئی بہتری آ جائے۔

ابھی تو ایسا لگتا ہے کہ لوگ چھریاں تیز کیے بیٹھے تھے اور آہستہ آہستہ باہر آ رہے ہیں، اصل ہنسی تو نجم سیٹھی کی ٹویٹ دیکھ کرآئی جو اپنے دور کی کامیابیاں گنوا رہے تھے،موجودہ ٹیم کے تمام کوچز، کپتان، ٹیم مینجمنٹ سب انہی کے دور میں ان پوزیشنز پر آئے، لہذا اگر کارکردگی خراب ہے توسابق چیئرمین بھی اس میں قصوروار ہیں،ان کے دور میں ٹیم کب ہر وقت سب سے آگے رہی،جہاں تک مجھے یاد ہے ون ڈے میں تو ہم کبھی نمبر ون نہیں بنے، پچھلے ورلڈکپ میں کیا حال ہوا وہ تو سب کو یاد ہی ہوگا، موجودہ بورڈ حکام بدقسمتی سے سابقہ انتظامیہ کی ڈگر پر ہی چل پڑے ہیں، کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے، ٹیم کو اس حال تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کرنے والے انضمام الحق کیوں انگلینڈ گئے؟ اس کی اجازت کس نے کی؟ کیوں ان پر500 ڈالر یومیہ خرچ کیے جا رہے ہیں؟

کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، کوچز سابق کپتان کی انتظامی معاملات میں دخل اندازی پر بالکل بھی خوش نہیں ہیں، ٹور سلیکشن کمیٹی میں شمولیت پر بھی اعتراض سامنے آئے ہیں، ایسے میں چیئرمین احسان مانی کی خاموشی حیران کن ہے، وہ پی سی بی کے سربراہ ہیں جب معاملات بگڑے ہوئے صاف نظر آ رہے ہیں تو دخل اندازی کیوں نہیں کرتے؟

ورلڈکپ چار سال میں ایک بار آتا ہے، انگلینڈ نے گذشتہ ایونٹ میں مایوس کن کارکردگی کے بعد سے ہی اگلے کی تیاریاں شروع کر دی تھیں فرق سب کے سامنے ہے، ہم نے کوئی تیاری نہیں کی، حد تو یہ ہے کہ ورلڈکپ سے قبل سیریز میں کپتان سمیت کئی اہم کھلاڑیوں کوباہر بٹھا دیا، مگر چیف سلیکٹر کو کوئی روکنے والا نہیں تھا، ایسی ہی لاتعداد وجوہات ہیں مگر ابھی ہمیں ایونٹ ختم ہونے کا انتظار کرنا چاہیے، فی الحال کھلاڑیوں کو پرفارمنس پر توجہ دینے دیں شاید پھر کوئی معجزہ ہو جائے۔

نوٹ:آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔