ویسٹ انڈیز کے خلاف شرمناک شکست

میاں اصغر سلیمی  اتوار 2 جون 2019
ورلڈ کپ کے آئندہ میچز میں گرین شرٹس توقعات پر پورا اتر سکیں گے؟ فوٹو: فائل

ورلڈ کپ کے آئندہ میچز میں گرین شرٹس توقعات پر پورا اتر سکیں گے؟ فوٹو: فائل

31مئی کی صبح کال موصول ہوئی، رسمی سلام دعا کے بعدوہ صاحب بولے، افطاری کے فوری بعد ہم نے جوہر ٹاؤن میں پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان شیڈول ورلڈ کپ میچ کا بھر پور اہتمام کر رکھا ہے، ٹھیک ساڑھے 7 بجے بڑی سکرین پر دونوں ٹیموں کا سنسنی خیز میچ دکھایا جائے گا، سینکڑوں کی تعداد میں کرکٹ کے دیوانے اور مستانے بھی موجود ہوں گے، ہم چاہیں گے کہ آپ اس کی لائیو کوریج کریں، آفس کی طرف سے بھی میچ کے دوران شائقین کے جوش وخروش کے حوالے سے براہ راست کوریج کی بھرپور تیاری کی گئی تھی لیکن اس کی نوبت ہی نہ آئی اور پاکستان ٹیم افطاری سے پہلے ہی ورلڈکپ میں اپنا پہلا میچ ہار چکی تھی، ماضی میں کالی آندھی کے نام سے مشہور ویسٹ انڈیز نے سرفراز الیون کی طرف سے 106 رنز کا ہدف صرف تین وکٹوں پر ہی پورا کر لیا۔

گو دنیا بھر میں کرکٹ کے چاہنے والوں کی کمی نہیں لیکن پاکستان میں تو اس کھیل کا جادو کچھ زیادہ ہی سر چڑھ کر بولتا ہے، ورلڈکپ شروع ہوتے ہی شائقین کرکٹ بخا ر میں مبتلا ہیں، رمضان المبارک کا آخری جمعتہ المبارک ہونے کی وجہ سے زیادہ تر شائقین کا خیال تھا کہ افطاری کے بعد پاکستان اور ویسٹ انڈیز کا میچ بڑے اہتمام کے ساتھ دیکھیں گے، اس کے لئے لاہور سمیت ملک بھر میں خوب انتظامات کئے گئے تھے، پارکوں، تفریحی مقامات، ریستورانوں اور ہوٹلوں میں بڑی بڑی سکرینوں کا بھی اہتمام کیا گیا تھا لیکن اس کی نوبت ہی نہ آئی اور پاکستان ٹیم ویسٹ انڈیز کے بولرز کے سا منے اس قدر بوکھلاہٹ کا شکار نظر آئی کہ بیٹنگ کرنا ہی بھول گئی۔ پاکستانی بیٹسمینوں کی جلد بازی میں وکٹیں گنوانے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ 7 بیٹسمین امام الحق، حارث سہیل، سرفرازاحمد، عماد وسیم، شاداب خان، حسن علی اور محمد عامر تو ڈبل فیگرز میں بھی داخل نہ ہو سکے۔

ہمارے ایک دوست نے ورلڈ کپ سے چند روز قبل ہی پاکستانی ٹیم پر اپنا تجزیہ کچھ اس انداز میں کیا تھا کہ محمد عامر کو چکن پاکس، شاداب خان کو ہیپاٹائٹس، محمد حفیظ کو فنگر فریکچر، حارث سہیل کو گھٹنے کا مسئلہ، شعیب ملک کو ذہنی اور گھریلو ٹینشن، کپتان سرفراز احمد کے اپنے مسائل اور آصف علی کے گھریلو مسائل ہیں، لہٰذا ان کھلاڑیوں کو گراؤنڈز کی بجائے کسی ہسپتال کے وارڈ میں بجھوانے کی ضرورت ہے۔

اس بات میں کافی حد تک صداقت بھی ہے، بظاہر لگ رہا ہے کہ کھلاڑیوں کو کھیل سے کم اور دوسرے معاملات میں زیادہ دلچسپی ہے،احسان مانی کی سربراہی میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے اس بار خاصی جرأت کا مظاہرہ کیا اور ورلڈکپ کے دوران کھلاڑیوں کی بیگمات کو انگلینڈ نہ بجھوانے کا فیصلہ کیا، اس خبرکا سننا تھا کہ پلیئرز نے اسے رائی کا پہاڑ بنا لیا اور اس قدر دباؤ ڈالا کہ بورڈ حکام ایک بار پھر ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گئے، اب ورلڈ کپ کے میچز کے دوران پاکستانی ٹیم ہارے یا جیتے، شائقین کے دل ٹوٹتے ہیں تو ٹوٹتے جائیں، کھلاڑیوں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں، ہاں ان کو اس بات کی خوشی ہے کہ اب ان کے بیوی بچے ورلڈ کپ کے میچز کے ساتھ گوروں کے دیس کی بھی خوب جی بھر کر سیر کر سکیں گے۔ایک اطلاع کے مطابق ورلڈ کپ کے ہر میچ میں کھلاڑیوں اور ٹیم مینجمنٹ کو ایک، ایک ٹکٹ ملتا ہے،پاکستان کرکٹ بورڈ ہر میچ کے ان25 میں سے 15 ٹکٹوں کو اپنے مہمانوں کو دینا چاہتا ہے، پلیئرز اس پر بھی خوش نہیں ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ بورڈ اپنے مہمانوں کے لئے خود سے ٹکٹ خریدے۔

اگر پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان ہونے والے میچ کا باریک بینی کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے انگلینڈ کے خلاف ایک روزہ سیریز میں پاکستانی ٹیم کی بیٹنگ لائن کی فارم میں واپسی کی جو امید ہو چلی تھی ، اس کا بھرم بھی ٹوٹ گیا ہے، ویسٹ انڈیز کے بولرز نے پاکستانی کھلاڑیوں کو آؤٹ نہیں کیا بلکہ بیٹسمینوں نے اپنی وکٹیں خود گنوائیں۔کسی بھی ٹیم کے لئے105رنز کا مجموعہ ایسا تکلیف دہ پہلو ہوتا ہے بالخصوص اس پاکستان ٹیم کے لئے یہ تکلیف زیادہ ہو گی جو ابھی اسی بات پر پھولی نہیں سما رہی تھی کہ بیٹنگ لائن فارم میں آ گئی اور مسلسل تین میچز میں 340 رنز کا ریکارڈ بن چکا ہے۔ایسے اعتماد اور جرأت مندی کے بعد ناٹنگھم کی یہ پرفارمنس ہضم کرنا نہایت کربناک ہے۔

حقیقت کے آئینے میں دیکھا جائے تو سیدھی سی بات ہے کہ شارٹ پچ بولنگ ہمیشہ سے ہی پاکستانی بیٹسمینوں کی کمزوری رہی ہے۔ جس طرح سے پاکستانی ٹاپ آرڈر آؤٹ ہوا، کوئی بھی ماہر وجہ بتا سکتا ہے کہ کھلاڑیوں کا ’فٹ ورک ٹھیک تھا اور نہ ہی پلیئرز کریز پر زیادہ سے زیادہ کھڑے رہنے کے موڈ میں تھے۔ شاید یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ ویسٹ انڈیز تو کوئی ٹیم ہی نہیں ہے، بولر بھی نئے، بیٹسمین بھی نئے، انہیں تو ہم کھا پی جائیں گے، ڈکار بھی نہیں لیں گے، یا شاید یہ سمجھ لیا گیا کہ یہ نوآموز ٹیم شارٹ پچ کو بطور نفسیاتی حربہ استعمال کر رہی ہے اور ایسی نفسیاتی دھمکی کا جواب صرف جارحیت ہے کہ جب دو شارٹ پچ پر چوکے پڑ گئے تو پھر سب پلان چوپٹ رہ جائے گا ور دوبارہ کوئی شارٹ پچ بال سامنے نہیں آئے گی۔

قصہ مختصر میچ کے دوران جو کچھ بھی ہوا ٹھیک نہیں ہوا، پاکستانی ٹیم نے ہار کے ساتھ اپنے ہی بہت سارے شرمناک ریکارڈز بھی توڑ ڈالے، مثال کے طور پر میچ کے دوران پاکستان کی پوری ٹیم 21.4اوورز میں پویلین رخصت ہو گئی جو ورلڈکپ کرکٹ کی تاریخ میں پاکستان کی گیندوں کے اعتبار سے سب سے چھوٹی اننگز ہے۔ 105 رنز ورلڈ کپ کی تاریخ میں پاکستان کا دوسرا کم ترین سکور ہے، اس سے قبل 1992 کے عالمی کپ میں گرین شرٹس صرف 74رنز پر ڈھیر ہو گئے تھے تاہم یہ میچ بارش کی نذر ہو گیا تھا۔البتہ ورلڈ کپ کے کسی بھی مکمل میچ میں یہ پاکستان کا سب سے کم ترین سکور ہے، اس سے قبل عالمی کپ کے کسی بھی مکمل میچ میں قومی ٹیم کا کم ترین سکور 132 رنز تھا۔صرف یہی نہیں بلکہ اس میچ میں شکست کے ساتھ ہی پاکستانی ٹیم نے بدترین کارکردگی کی اور بھی نئی تاریخ رقم کی۔

یہ پاکستان کی ون ڈے کرکٹ میں مسلسل 11ویں شکست تھی جس کے ساتھ پاکستان نے مستقل 10 شکستوں کا اپنا 31سالہ ریکارڈ توڑ دیا۔ جنوبی افریقہ کے خلاف ون ڈے میچ میں شکست کے بعد پاکستانی ٹیم کو آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں 0-5 سے کلین سوئپ اور پھر انگلینڈ نے سیریز میں 0-4 سے مات دی جبکہ ویسٹ انڈیز کے خلاف لگاتار 11ویں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔یہ پاکستان کرکٹ کی ون ڈے کرکٹ کی 46سالہ تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ اسے لگاتار 11ون ڈے میچوں میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔جب ویسٹ انڈیز نے ہدف حاصل کیا تو 218 گیندوں کا کھیل باقی تھا اور گیندوں کے اعتبار سے اس سلسلے میں بھی یہ پاکستان کی عالمی کپ میں بدترین شکست تھی۔اگر انگلینڈ کے خلاف نوٹنگھم میں ہی 3 جولائی کو شیڈول میچ میں بھی شکست ہو گئی تو پاکستانی ٹیم کی ناکامیوں کی درجن بھی مکمل ہو جائے گی۔

پاکستانی ٹیم کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ یہ دنیا کی چھوٹی سے چھوٹی ٹیم سے ہار بھی سکتی ہے اور ورلڈ کی مضبوط ترین ٹیم کے خلاف جیت سکتی ہے، اگر پاکستان اور انگلینڈ کی ٹیموں کا موازنہ کیا جائے تو انگلش سائیڈ کا پلڑا خاصی بھاری ہے، انگلینڈ اس وقت ایک روزہ کرکٹ کی عالمی درجہ بندی میں پہلے جبکہ پاکستان چھٹے نمبر پر ہے۔ میزبان سائیڈ جنوبی افریقہ کو ہرا کر ورلڈ کپ میں فاتحانہ آغاز کر چکی ہے جبکہ گرین شرٹس کو ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ انگلینڈ میں ہی انگلش سائیڈ نے پاکستانی ٹیم کو نہ صرف واحد ٹوئنٹی20 میچ میں شکست دی بلکہ ایک روزہ سیریز بھی 4-0 سے اپنے نام کی۔

ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں شرمناک شکست کے باوجود شائقین کا کہنا ہے کہ گو گرین شرٹس کو شرمناک انداز میں کالی آندھی کے ہاتھوں ناکامی کا سامنا رہا تاہم وہ پرامید ہیں کہ ورلڈ کپ کے اگلے میچوں میںپاکستانی ٹیم فتوحات سمیٹنے میں ضرور کامیاب رہے گی۔ کپتان سرفراز احمد کا بھی کہنا ہے کہ ویسٹ انڈیز کے خلاف میچ میں ہمارا برا دن تھا ، بیٹنگ کیلئے سازگار وکٹ پر ہم اچھا کھیل پیش نہ کر سکے لیکن ہم ورلڈکپ میں بھر پور واپسی کیلئے پرامید ہیں،اللہ کرے ایسا ہی ہو تاہم اس کے لئے شائقین کو ورلڈکپ کے آئندہ میچز کا انتظارکرنا پڑے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔