عید سے قبل حکومت کی عید وصولی اور نیا چاند

تنویر قیصر شاہد  پير 3 جون 2019
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

افطاری اور نمازِ مغرب کے بعد مَیں اپنی کالونی میں داخل ہُوا تو دیکھا کہ پانچ باوردی پولیس والے داخلی دروازے کے دائیں جانب کھڑے ہیں۔ وہاں نِیم تاریکی تھی۔ اُن کے ہاتھوں میں ٹارچیں تھیں۔ وہ کارسواروں کو نہیں ، صرف موٹر سائیکل والوں کو روک رہے تھے۔ سوار سے موٹر سائیکل کے ’’کاغذات‘‘ مانگتے اور لائسنس و شناختی کارڈ دکھانے کا تقاضا کرتے۔ تینوں’’چیزیں‘‘ دکھائی جاتیں تو موٹر سائیکل کی بتیوں میں نقائص نکالنے لگتے۔ کچھ فاصلے پر کھڑا مَیں اپنے دوست کے ساتھ یہ  تماشہ تک رہا تھا۔

قریب کھڑے دوست سے پوچھا تو وہ طنزاً ہنسا: ’’جناب اتنے بھی بھولے نہ بنیں۔ عید قریب ہے اور یہ اپنی عیدی وصول کر رہے ہیں۔‘‘ پولیس اہلکاروں کا یوں جرأت مندی سے عیدی وصول کرنا اس لیے بھی حیرت انگیز تھا کہ ہماری کالونی کینٹ کی حدود میں آتی ہے۔ عید سے پہلے یوں لگتا ہے جیسے ہر شخص ہی عیدی کے نام پر مجبوروں سے جگّا ٹیکس وصول کر رہا ہے۔ راقم گاڑی دھلوانے کار واش سینٹر گیا تو اُنہوں نے ڈیڑھ سو روپے زیادہ وصول کیے۔ پوچھا تو  ترنت جواب ملا: ’’بادشاہو، عید بھی تو ہے۔‘‘ میرے بچے حجامت بنوانے گئے تو حجام نے معمول سے 140روپے زیادہ وصول کیے۔ 70 روپے فی بندہ عیدی۔ بچے گھر آ کر اپنی والدہ کو حساب دیتے کہہ رہے تھے: ماما، باربر کہہ رہا تھا ہماری بھی تو عید ہے۔

جن کے پاس رعب اور قانون کی طاقت بھی نہیں ہے، وہ بھی زور زبردستی عیدی وصول کر رہا ہے۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جن کے پاس قوت و حشمت ہے، وہ عیدی وصولنے پر آجائیں تو اُن کے سامنے کوئی کیسے دَم مارسکتا ہے؟ حکومت کے پاس بے پناہ اور ناقابلِ یقین حد تک متنوع طاقتیں ہیں؛ چنانچہ ان طاقتوں کے بَل پر حکومت مجبور اور بے بس عوام سے زبردستی عیدی وصول کرے تو کس کی مجال ہے کہ اُس کی راہ میں رکاوٹ بن سکے؟ عید سے ٹھیک چار روز قبل حکومت نے تیل کی مصنوعات میں اضافہ کرکے اپنی عیدی تو وصول کر لی ہے ( پٹرول کی قیمت میں 4روپے 26پیسے فی لٹر اور ڈیزل کی قیمت میں4 روپے50 پیسے اضافہ کیا گیا ہے) یہ اضافہ کرکے حکومت نے دراصل غریب عوام کی جیبوں سے ڈنڈی پٹی عیدی وصول کر لی ہے۔

سچی بات یہ ہے کہ عمران خان نے عید کے ایام میں پٹرول کی قیمتوں میں  اضافہ کرکے عوام کو مزید ناراض کر دیا ہے۔ عوام کی جیبوں پر پھر دباؤ آیا ہے۔ اب تو مہینہ اختتام کو پہنچنے لگتا ہے تو ساتھ ہی ڈر بھی آنے لگتا ہے کہ جنابِ خان کی حکومت نجانے اِس بار پٹرول کی قیمتوں میں مزید کتنا اضافہ کرے گی؟ کون سے کسی نئے ٹیکس کا بم گرایا جائے گا؟ جب سے یہ تبدیلی سرکار آئی ہے، تب سے ہوشربا مہنگائی کا ہر روز ایک نیا ’’تحفہ‘‘ دیا جا رہا ہے۔ ہر ماہ پٹرول کی قیمتوں میں کمر شکن اضافہ کرنا تو عمران خان کی حکومت نے اپنی ذات پر لازم قرار دے رکھا ہے۔ یہ کہنا مبالغہ نہیں ہو گا کہ عیدالفطر کے قریب پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کر کے خانصاحب نے عوام کی خوشیاں اور مسرتیں غارت کر دی ہیں۔ حکومت کی اس جابرانہ عید وصولی نے بازار کی ہر شئے پر منفی اثرات مرتّب کیے ہیں۔

عید کے ان ایام میں لاکھوں نہیں، کروڑوں افراد ایک صوبے سے دوسرے صوبے اور دُور دراز کے ایک شہر سے دوسرے شہر اکیلے یا بیوی بچوں کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔ ٹرانسپورٹ کے لیے زیادہ تر نجی بسیں یا ویگنیں استعمال کی جاتی ہیں۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کا سب سے بڑا اور فوری بوجھ عوام پر یوں بھی پڑا ہے کہ ٹرانسپورٹ کمپنیاں عید پر سفر کرنے والوں کو مہنگے ٹکٹ فروخت کر رہے ہیں۔ کوئی اعتراض کرے تو منہ بھر کر کہا جا رہا ہے : ’’ہم کیاکریں جی؟ حکومت نے تیل کی قیمتیں بڑھا دی ہیں، تم لوگوں کو مفت میں تو نہیں لے جا سکتے ۔‘‘ عید کے بعد یہی مسافر واپس جانا شروع کریں گے تو مہنگے کرایوں کی شکل میں ایک بار پھر اُن کی چمڑی ادھیڑی جائے گی۔

پٹرولیم کی قیمتوں میں تازہ اضافے کے بعد حکومت نے نئے کرایہ ناموں کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا ہے لیکن ٹرانسپورٹرز حسبِ معمول من چاہے کرائے وصول کررہے ہیں۔ عوام بِلک رہے ہیں لیکن حاکم کہہ رہے ہیں:ابھی تو مزید مہنگائی برداشت کرنا پرے گی۔ موجودہ حکمران تو سابقہ حکمرانوں سے بھی زیادہ بے حس ثابت ہو رہے ہیں۔تبدیلی سرکار بسوں اور ویگنوں کے اڈوں پر جا کر ذرا عوامی ردِ عمل تو سُننے اور دیکھنے کی ہمت پیدا کریں۔ سمجھ سے بالا ہے کہ عید کے ایام میں ہی پٹرول کی قیمتوں میں کمر توڑ اضافہ کرنا کیا اتنا ہی ضروری تھا؟ اسے چند دنوں تک موخر بھی کیا جا سکتا تھا تاکہ عوام کم از کم عید کے دن تو نسبتاً کم پریشانی میں گزار سکتے۔ لگتا مگر یہ ہے کہ انصافی حکومت نے خود کو عوامی احساسات سے بالکل جدا کر دیا ہے۔ اس کا ایک نتیجہ اگلے روز عمران خان نے حرم شریف میں، عمرہ کرنے کے دوران ، پاکستانی زائرین کے ردِ عمل سے دیکھ ہی لیا ہوگا۔

عوام غصے کے عالم میں بجا طور پر شکوہ کناں ہیں کہ ہمیں ایک طرف تو حکومت کی زبانی ہرروز یہ کہانی سنائی جاتی ہے کہ خزانے میں پیسے نہیں ہیں، مر گئے رُڑ گئے اور دوسری طرف حال یہ ہے کہ وزیر اعظم صاحب مبینہ طور پر اپنے 70 سے زائد قریبی ساتھیوں کے ساتھ عمرہ کرنے چلے گئے۔ جناب عمران خان کا مکہ مکرمہ جانا تو ناگزیر تھا کہ اُنہیں او آئی سی  کانفرنس میں شرکت کرنا تھی۔ عوام مگرپوچھ رہے ہیں کہ وہ چھ درجن کے قریب سیاسی اور مقتدر ساتھیوں کو اپنے ہمرا ہ کیوں لے کر گئے ؟ ظاہر ہے ان سب کے بھاری اخراجات سرکاری خزانے سے ادا کیے گئے ہوں گے ۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ اپنے ساتھ صرف اُنہی افراد کو لے کر جاتے جن کا ساتھ لے جانا از بس ضروری تھا۔

ایسا مگر نہیں کیا گیا ہے تو لوگ سخت ناراض بھی ہیں۔عوام درست کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم کے ساتھیوں نے عمرے کی سعادت حاصل کرنا ہی تھی تو علیحدہ سے اپنے اخراجات پر جاتے تاکہ قومی خزانے پر بے جا بوجھ نہ پڑتا۔ لگتا ہے ہر معاملے میں عمران خان بھی اُسی ڈگر پر چل نکلے ہیں جس ڈگر پر ہمارے سابقہ حکمران چل رہے تھے۔شائد اقتدار کی نمکین کان میں پہنچ کر سبھی ایسے ہی نمک بن جاتے ہیں؟ کیا یہ اقتدار کے ایوانوں کا پُر اسرار اور ناقابلِ فہم سحر ہے؟ عوام کے لیے ٹھنڈی ہوا کہیں سے نہیں آرہی۔ عجب قسم کے ڈپریشن اور کنفیوژن نے عوام کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ عید منانے اور چاند دیکھنے کے حوالے سے ایک نیا کنفیوژن خان صاحب کے وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی جناب فواد چوہدری نے پھیلا رکھا ہے۔ وہ سائنس کے زور پر اس بار نیا چاند چڑھانے کے درپے تھے۔عید کے حوالے سے کئی روز پہلے تاریخِ عید کا اعلان بھی کر دیا۔ اپنے کسی جدید رویت کیلنڈر کی باتیں بھی کرتے رہے۔ رویت ہلال کمیٹی کے شریف چیئرمین کومشتعل بھی کیا، مگر آخر میں کام وہی کیا جو علما ئے کرام کہہ رہے تھے۔ اس سارے کھڑاگ کا مقصد کیا تھا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔