غریب، سب سے بڑا ظالم!

محمد اطیب اسلم  جمعـء 7 جون 2019
غربت بھوک کا سبب بنتی ہے اور بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

غربت بھوک کا سبب بنتی ہے اور بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

عنوان پڑھ کر سب سے پہلے ذہن میں یہی آیا ہوگا کہ کون سا غریب ظالم ہوتا ہے؟ بلکہ ہم نے تو بچپن سے لے کر آج تک، کہانیوں کے علاوہ حقیقت میں بھی غریبوں پر ظلم ہوتے ہی دیکھا ہے۔ کسی غریب کو ظلم کرتے نہیں دیکھا۔ یہی  سوچ سوچ کر میری حالت بھی غیر ہوتی تھی، جب بچپن میں نانا جان اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ‘غریب سب سے بڑا ظالم ہوتا ہے’۔ تب تو خیر بچپن تھا، سوچ کا سمندر اتنا وسیع نہیں تھا کہ حکمت کا یہ گہرا نکتہ سمجھ پاتا۔ لیکن جیسے جیسے خیالات میں پختگی آتی گئی، بالآخر سمجھ میں آہی گیا کہ بزرگ صحیح فرمایا کرتے تھے اور اگر مشاہدے کی عادت نہ ہوتی تو شاید ابھی بھی ذہن اسے قبول کرنے کو تیار نہ ہوتا۔

لفظ غربت سے ہم سب واقف ہیں کہ غربت بھوک کا سبب بنتی ہے اور بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے۔ پھر وہ بھوک چاہے دولت کی ہو، مال و زر کی ہو یا سستی شہرت کی۔ فتنے سے فتنہ نکلتا ہے اور پھر یہ بھوک نت نئے جرائم کو جنم دیتی ہے، بشمول جھوٹ، فراڈ، دھوکا دہی اور حق تلفی سے لے کر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی، دودھ میں چونے کی ملاوٹ، دواؤں میں اسٹیرائیڈز، سرخ مرچوں میں اینٹوں کا برادہ، پھلوں میں مصنوعی طاقت کے انجکشن اور مضرِ صحت رنگوں کا استعمال۔ جی ہاں! یہ آپ کا پاکستانی معاشرہ ہے اور یہ مجرمانہ تخلیقی سوچ  آپ کے معاشرے کے غرباء نے پروان چڑھائی، جنہوں نے اپنی ہر قسم کی  بھوک مٹانے کےلیے ہر قسم کے متبادل ڈھونڈ نکالے ہیں۔

اپنے اردگرد نظر دوڑائیں، اوپر بیان کیے گئے کردار آپ کو ہر جگہ نظر آئیں گے۔ آپ  کسی دن گھر سے باہر نکلیں، راستے میں کسی ٹوٹی پھوٹی دکان پر رکیں، چند اشیاء کی خریداری کریں، کسی لوکل بس میں سفر کریں، اڈے پر لگے اسٹال سے کھانا کھائیں، فٹ پاتھ پر رکھی ہوئی سبزی خریدیں، ریڑھی پر لگے شربت والے سے جوس پیئیں اور واپس  آکر اپنے سفر پر غور کریں۔ کہیں سے آپ کو پتھر ملی دال کھانے کو مِلی ہوگی، کہیں آپ نے سیکرین ملا شربت پیا ہوگا اور جب آپ نے تربوز  کی قاشیں کی ہوں گی تو اب تک اس کی سرخی اپنا رنگ کھوچکی ہوگی۔ وہی خربوزہ جو دکان پر آپ نے چکھ کر خریدا ہوگا، اب تک وہ بھی بے ذائقہ اور بے رنگ و بو ہوکر آپ کا منہ چڑا رہا ہوگا۔ دہی کو چکھ کر دیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ دہی کے نام پر ’دہی نما‘ کوئی چیز اٹھا لائے ہیں، یعنی  ’ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور‘۔ اور اگر اردو ادب کے ماہرین میری اس گستاخی سے چشم پوشی فرمائیں تو میں  یہ محاورہ کچھ یوں لکھنا چاہوں گا کہ ’کھانے کی چیزیں دِکھنے میں اور، چکھنے میں اور‘۔

معاشرے میں بڑھتے ہوئے ایسے فراڈ کی ایک بڑی وجہ پیسے کا عدم توازن ہے۔ چنانچہ اس توازن کو پورا کرنے کےلیے عموماً غربا شارٹ کٹ کو ترجیح دیتے ہیں اور شارٹ کٹ انہیں ایمانداری اور انسانی حقوق سے بھی دور کہیں لے جاتے ہیں، جہاں انسانیت بھی دم توڑ دیتی ہے۔ اب کیونکہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے، چنانچہ دیکھا دیکھی فراڈیوں کی بھرمار ہوتی جارہی ہے  اور خاص کر بڑے شہروں میں، خالص چیز ڈھونڈنا بھوسے میں سے سوئی ڈھونڈنے کے برابر ہے۔

تصویر کا اگر دوسرا رخ دیکھا جائے تو اندازہ ہوگا کہ جیسے جیسے آپ چھوٹے شہروں اور گائوں کی طرف جاتے جائیں گے، فراڈ کم ہوتا جائے گا اور پاکستان کی روایتی محبت بحال ہوتی جائے گی۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ کم آبادی والے علاقوں میں پیسے کا عدم توازن تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہاں کوئی امیر، امیر تر ہوتا نہیں چلا جاتا، اور نہ ہی غریب کو اس کی غربت کے سہارے چھوڑ دیا جاتا ہے۔

آج اگر معاشرے کے امرا اپنا فرض سمجھتے ہوئے صرف زکوٰۃ اور فطرانہ ہی ادا کرنا شروع کردیں تو معاشرے کا توازن خودبخود بحال ہوجائے۔ اس سلسلے میں ریاست کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ جس طرح حضرت ابوبکر صدیقؓ نے زکوٰۃ کے منکرین سے جہاد کیا، اسی طرح آج بھی زکوٰۃ کی ادائیگی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ الغرض، جب تک ٹیکس، زکوٰۃ اور دیگر پیسے سے متعلقہ افعال کو موثر نہیں بنایا جائے گا، معاشرتی بگاڑ بڑھتا جائے گا۔ میں چشمِ تصور سے یہ دیکھ رہا ہوں کہ اگر اسے کنٹرول نہ کیا گیا تو معاشرتی جرائم خطرناک حدوں کو چھونے لگیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد اطیب اسلم

محمد اطیب اسلم

بلاگر انفارمیشن ٹیکنالوجی میں گریجویٹ ہیں۔ ملکی و سماجی مسائل پر لکھنے کا شوق رکھتے ہیں۔ آج کل تدریس کے شعبے سے منسلک ہیں جبکہ اردو ادب سے خصوصی لگاؤ رکھتے ہیں۔ رابطے کےلیے ان کی فیس بک آئی ڈی teeeb01 جبکہ ٹوئٹر آئی ڈی @foolishlearner ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔