ہاتھ سے لگائی گرہوں کا دانتوں سے کھولنا

نصرت جاوید  جمعـء 30 اگست 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار بڑے سیانے آدمی ہیں۔ ان کی جماعت 1985ء کے بعد کراچی میں نمودار ہوکر تیزی سے پھیلنا شروع ہوئی تو وہ اس شہر کی تاریخ کے سب سے نوجوان میئر منتخب ہوئے تھے۔ 1988ء کے انتخابات سے لے کر مئی 2013ء میں ان کی جماعت نے جب بھی قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا تو فاروق ستار کراچی سے منتخب ہو کر اسلام آباد آتے رہے۔ کئی حکومتوں میں کئی بار مرکزی وزیر بھی رہے ہیں۔ ان جیسے جہاندیدہ شخص کو نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے سیاسی انداز و اطوار کا مجھ سے کہیں زیادہ علم ہونا چاہیے تھا۔ پتہ نہیں کیوں انھوں نے محاورے والے ’’کچے‘‘ پر پائوں رکھا دیا اور ایک اور محاورے والے بیل کو مشتعل کر گئے۔

منگل کا دن قومی اسمبلی میں صرف اس کام کے لیے وقف ہوتا ہے کہ اس کے اراکین اپنی ذاتی حیثیت میں خلقِ خدا کی بہتری کے لیے کوئی قانون وغیرہ متعارف کرا سکیں۔ مگر یہ جو منگل گزرا ہے، وہ ایم کیو ایم کے اراکین نے شور و غل برپا کرنے میں صرف کر دیا۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے ابتدا کی اور ایک طویل تقریر کر ڈالی۔ مقصد اس تقریر کا ہمیں اور مرکزی حکومت کو اس بات پر قائل کرنا تھا کہ کراچی میں بڑھتے ہوئے اغواء برائے تاوان اور ٹارگٹ کلنگ جیسے گھنائونے جرائم پر قابو پانا اب پولیس یا رینجرز کے بس کی بات نہیں رہی۔ کراچی کے شہریوں کو بچانا ہے تو فوج کو بلایا جائے۔ وہ اس شہر میں کسی کی سُنے بغیر ایک بے دریغ آپریشن کر ڈالے۔ جانے پہچانے عادی مجرموں کو گرفتار کر کے کیفر کردار تک پہنچائے تا کہ کراچی کے شہریوں کو دلاسہ ہو کہ پاکستان میں کوئی تو ہے جو انھیں تحفظ فراہم کر سکتا ہے۔ فاروق ستار اور ان کے ساتھی قومی اسمبلی کے اجلاس کے بعد ہمارے ٹیلی وژن اسکرینوں پر بھی رات گئے تک کراچی کو فوج کے حوالے کرنے والے مطالبے پر زور دیتے رہے۔

ان کے ان مطالبات نے وزیر اعظم نواز شریف کو مجبور کر دیا کہ وہ بدھ کی صبح ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بہت زیادہ وقت کراچی کے مسائل کو سمجھنے اور ان کا حل ڈھونڈنے کے لیے وقف کر دیں۔ بالآخر یہ فیصلہ ہوا کہ آنے والے منگل کو وفاقی کابینہ کا ایک خصوصی اجلاس کراچی میں ہو گا۔ اس اجلاس میں گورنر سندھ اور وزیر اعلیٰ بھی موجود ہوں گے۔ فاروق ستار کو اس اجلاس میں شمولیت کی خصوصی دعوت دی گئی ہے۔ وہاں ہماری تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہ بھی موجود ہوں گے اور پولیس اور رینجرز کے وہ افسران بھی جو کراچی میں امن و امان قائم رکھنے کے ذمے دار ہیں۔

اس اجلاس کے بعد جو کچھ ہونا اس کا خاصی حد تک اندازہ میں نے وزیر اعظم کے چند بااعتماد مشیروں کی محتاط گفتگو سن کر لگا لیا ہے۔ اس حوالے سے میرے کچھ ذاتی خدشات بھی ہیں۔ فی الحال ان کا ذکر مگر مناسب نہیں ہو گا۔ ویسے بھی اس کالم میں مجھے ڈاکٹر فاروق ستار اور ان کی جماعت کو یاد دلانا ہے کہ چوہدری نثار علی خان وہی شخص ہیں جو نواز شریف کی پہلی حکومت میں اس بات پر بہت چراغ پا رہے کہ ان کی حکومت نے اس وقت کے آرمی چیف مرحوم آصف نواز جنجوعہ کو اندرون سندھ ڈاکوئوں کا قلع قمع کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ مگر ان کے افسران اور جوان کراچی پہنچ گئے۔ وہاں ایم کیو ایم سے ایک ’’حقیقی‘‘ برآمد کرا دی اور نواز شریف کی پہلی حکومت کو اس کی اتحادی جماعت کی حمایت سے محروم کرنے کے بعد کمزور بنا دیا۔

نواز شریف صاحب کی دوسری حکومت میں بھی یہ چوہدری نثار علی خان ہی تھے جنہوں نے وزیر اعظم کو اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کرنے پر بڑی جانفشانی سے کوشش کی جس کے ذریعے وہ حکیم سعید کے قتل کے بعد کراچی کو مرکزی حکومت کے کنٹرول میں لینا چاہ رہے تھے۔ نواز شریف نے بالآخر وہی کیا جو وہ طے کر بیٹھے تھے مگر چوہدری نثار علی خان نے تو ایم کیو ایم کی حمایت میں پورا زور لگایا۔ ماضی کے ان دو بڑے اہم واقعات کے باوجود ہماری گزشتہ اسمبلی میں ایم کیو ایم کے ارکان نے چوہدری نثار علی خان کو ہمیشہ اپنے نشانے پر رکھا۔ ان کے بارے میں ٹیلی وژن اسکرینوں پر جو الفاظ استعمال کیے گئے میں انھیں ایک سنجیدہ اور گھروں میں پڑھے جانے والے اخبار کے ایک کالم میں دہرانے کی جسارت نہیں کر سکتا۔ ڈاکٹر فاروق ستار صاحب سے ہاتھ باندھ کر یہ التجا ضرور کرنا ہے کہ آج کل قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں چوہدری نثار علی خان سے اپنی جماعت کے کارکنوں کے لیے ’’انصاف‘‘ اور ’’ان کی زندگیوں کی ضمانت‘‘ مانگتے ہوئے انھیں وہ سب لفظ بھی یاد رکھنا چاہیے۔

کراچی میں امن و امان کا قیام اب روایتی طریقوں سے ممکن نہیں رہا۔ یہ حقیقت میرے جیسے کسی صحافی یا چوہدری نثار علی خان جیسے کسی سیاستدان نے نہیں سمجھائی‘ ایم کیو ایم کے قومی اسمبلی میں بیٹھے اراکین نے اپنے مسلسل تقریروں کے ذریعے ہمیں اس بات پر قائل کیا ہے۔ شاید ڈاکٹر فاروق ستار اور ان کی جماعت نے سمجھا ہو کہ بات صرف قائم علی شاہ کی ’’نااہلی‘‘ اور انھیں اس کی سزا دینے پر ختم ہو جائے گی۔ عملی سیاست میں لیکن ایسا نہیں ہوا کرتا۔ پنجابی کا ایک محاورہ تو متنبہ کرتا ہے کہ ہاتھ سے لگائی گرہوں کو بالآخر دانتوں کے زور سے کھولنا پڑتا ہے۔ قومی اسمبلی میں کراچی کے حالات کا تواتر اور شدت سیذکر کرتے ہوئے ایم کیو ایم نے کچھ گرہیں اپنے ہی ہاتھوں سے لگائی ہیں‘ اب وزیراعظم نواز شریف ان گرہوں کو کھولنے کے لیے ریاستی دانت استعمال کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ فی الحال یہ دانت فوج نہیں اس کی ایک ذیلی تنظیم رینجرز فراہم کرے گی۔ ریاستی دانت استعمال ہونا شروع ہو گئے تو گیہوں کے ساتھ گھن کا پس جانا بھی لازمی ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار اور ان کے ساتھی تیر کمان سے نکال بیٹھے ہیں۔ دیکھئے کون کون اس کا نشانہ بنتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔