تھری جینیئس…

محمد فیصل شہزاد  جمعـء 30 اگست 2013

پچھلے سال ہندی فلم تھری ایڈیٹس بہت مقبول ہوئی۔ ہم نے صرف اس کی کہانی پڑھی ہے جو بھارتی مصنف چیتن بھگت کے ناول ’فائیو پوائنٹ سم ون‘ سے ماخوذ تھی۔ کہانی انجینئرنگ کالج کے تین شوخ مگر حساس طلبا کے گرد گھومتی ہے۔ ہمارا آج کا موضوع مگر یہ تین احمق ہرگزنہیں بلکہ اس کے برعکس تین جینیئس ہیں جو پاکستان کے دل، شہر زنگار کراچی سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنے اپنے شعبے میں ماہر ڈاکٹر ہیں۔ گزشتہ کئی برس سے ان تینوں حضرات سے ہم الگ الگ حوالوں سے واقفیت رکھتے ہیں، کسی سے کم، کسی سے زیادہ۔ ان تینوں ڈاکٹر صاحبان میں ایک قدر مشترک تو ہمیں پہلے ہی معلوم تھی، جو آپ تعارف میں پڑھ ہی لیں گے لیکن پچھلے مہینے ہم نے اتفاق سے ان تینوں حضرات کے درمیان جو بظاہر اجنبی اور اپنے اپنے دائروں میں مصروف عمل ہیں، ایک اور قدرِ مشترک دریافت کرلی، جو اس کالم کے لکھنے کا باعث بنی، اس کا ذکر لیکن آخر میں۔

ان تین میں سے پہلے صاحب کراچی ہی نہیں بلکہ پاکستان کی معروف شخصیت ہیں۔ ہم نے ان کی تصویر تو پندرہ سال پہلے ہی دیکھ لی تھی، بردبار سا سوچتا ہوا چہرہ اور کنپٹیوں پر سفید بال، لیکن حضرت سے بالمشافہ ملاقات ہوئی پچھلے سال ایک پریس کانفرنس میں۔ ہم ان کے چہرے سے زیادہ ان کے نام سے متاثر تھے، جو دراصل برصغیر کی ایک تاریخی عسکری شخصیت کے نام پر ہے اور جو بچپن ہی سے ہماری پسندیدہ شخصیات میں شامل ہے۔ ڈاکٹر صاحب سے پہلے ہم نے کسی اور کا یہ نام نہیں سنا تھا، اس لیے کچھ مرعوب سے ہو گئے۔ ان کا نام ہے شیر شاہ سید صاحب جو احباب میں ’ڈیڈی‘ کے نام سے بھی مشہور ہیں۔ آپ پاکستان کے چند گنے چنے مرد گائنالوجسٹ میں سے ایک ہیں اور اپنی فیلڈ میں طویل ملکی و بین الاقوامی تجربہ رکھتے ہیں۔ آپ سوسائٹی آف آبسٹیٹریشن اینڈ گائنالوجسٹ کے صدر ہیں اور طویل عرصے تک پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (PMA) کے جنرل سیکریٹری بھی رہے ہیں۔

خواتین کی صحت خصوصاً ماؤں کی صحت کے حوالے سے آپ کا کئی دہائیوں پر مبنی رضاکارانہ کام تعارف کا محتاج نہیں۔ آپ کی ذاتی توجہ اور محنت کی وجہ سے کئی بین الاقوامی صحت و تعلیمی رفاعی تنظیموں کے تعاون سے خواتین کی صحت اور تعلیم کے مختلف پروگرامز پاکستان میںشروع ہوئے۔ ڈاکٹر شیر شاہ کا نام میڈیکل کے طلبا کے ساتھ اردو ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے بھی اجنبی نہیں۔ آپ کی شارٹ اسٹوریز پندرہ بیس سال سے باقاعدگی سے چھپ رہی ہیں جو اب کتابی شکل میں کئی مجموعوں میں شایع ہو چکی ہیں۔ آپ کی مخصوص فیلڈ اور سوچ کی وجہ سے آپ کی کہانیوں کے موضوعات بھی عموماً خواتین کے مسائل رہے۔  آپ کی حالیہ کتاب ’’وہ صورت گر کچھ خوابوں کا‘‘ جو ان کے والد ابو ظفر مرحوم کے حالاتِ زندگی پر مشتمل حوصلے اور عزم کی ایک غیر معمولی کہانی ہے، ایک نہایت پراثر کتاب ہے جو بلامبالغہ فکشن سے زیادہ دلچسپ اور خصوصاً تعلیم کے حوالے سے ذہن و دل کے دریچوں کو وا کر دیتی ہے۔

تین میں سے دوسرے صاحب بھی پاکستان کی معروف شخصیت ہیں۔ آپ کی اسپیشلائزیشن کا شعبہ مائیکرو بیالوجی ہے اور آپ ڈاؤ ڈائیگنوسٹک اینڈ ریسرچ لیبارٹری کے ڈائریکٹر ہیں۔ اس کے علاوہ آپ انفیکشن کنٹرول سوسائٹی پاکستان (ICSP) کے صدر بھی ہیں جو عوام الناس میں متعدی بیماریوں کی روک تھام اور ان سے بچاؤ کی آگہی پیدا کرنے کے لیے پاکستان کے چند نہایت معتبر ناموں میں سے ایک نام ہے۔ ہم باقی دونوں ممدوحین کی نسبت اِن سے زیادہ واقف ہیں اور پچھلے چار سال سے آپ سے ملاقات کا شرف حاصل کر رہے ہیں۔ آپ کا اسم گرامی رفیق خانانی ہے۔ ڈاکٹر خانانی کی اپنی فیلڈ میں کامیابی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ آپ ہی وہ پہلے پاکستانی ڈاکٹر ہیں جنھوں نے پاکستان میں ایڈز جیسے غارت گر مرض میں مبتلا پہلا مریض تشخیص کیا۔ مختلف جان لیوا جراثیم کے خلاف آپ کی جدوجہد محتاج بیان نہیں۔

متعدی بیماریوں (انفیکشنز) مثلاً ایڈز، ہیپاٹائٹس اور STI’s (جنس کے ذریعے پھیلنے والے انفیکشنز) کی روک تھام اور علاج کے لیے آپ کئی رفاہی پروگرامز کی سرپرستی فرما رہے ہیں۔ ان تمام قابل تعریف سرگرمیوں کے ساتھ آپ کی شخصیت کا بھی ایک اور پہلو ہے، جو اپنی جگہ اتنا ہی اہم ہے۔ جی ہاں ساری زندگی جراثیموں کے خلاف کام کرنے والے ڈاکٹر صاحب اپنے آپ کو ادبی جرثوموں سے نہیں بچا سکے۔ ڈاکٹر شیر شاہ سید  کی طرح آپ بھی میڈیکل کی لائن کے ساتھ ساتھ لکھنے لکھانے سے شغف رکھے ہوئے ہیں۔ گو آپ کی لائن فکشن نہیں ہے، لیکن اکثر معروف اخبارات کے سنڈے میگزین میں طب و صحت سے متعلق مضامین لکھتے رہتے ہیں، اس کے علاوہ کراچی سے ایک ماہنامہ بھی شایع کرتے ہیں، جو پچھلے تیرہ سال سے باقاعدگی سے شایع ہو رہا ہے۔ آپ اس مشہور ماہنامے کے چیف ایڈیٹر ہیں۔

اب ہم تیسرے ڈاکٹر صاحب کا تعارف کرواتے ہیں۔ ان کی ہم نے کبھی زیارت نہیں کی، لیکن پچھلے تین سال سے وہ باقاعدگی سے روزانہ ہمیں ایک خوبصورت شعر، شاعر کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس کرتے ہیں۔ ان سے کئی بار فون پر بھی بات ہوئی ہے اور ہم نے ان کے شفیق لہجے سے اپنے تصور میں بڑی ’’بزرگانہ‘‘ سی تصویر بنا لی ہے، ان کا نام ڈاکٹر اقبال ہاشمانی ہے۔ ڈاکٹر صاحب پچھلے تیس سال سے کراچی کے علاقے رامسوامی گارڈن میں کلینک کرتے ہیں، اور علاقے کے مشہور معالجوں میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ آپ بھی پیشہ ڈاکٹری کے ساتھ عشق ادب میں گرفتار ہیں۔ آپ کا قلمی میدان پہلے دونوں حضرات سے جدا ہے، گو آپ افسانے بھی لکھتے رہے ہیں، لیکن اصل رجحان طنز و مزاح ہے، جو بلاشبہ نہایت مشکل ادبی صنف ہے۔ اس صنف میں پہلے ان کی دو کتابیں ’’مجبوریاں‘‘ اور ’’مزید مجبوریاں‘‘ کے عنوان سے شایع ہو کر قبول خاص و عام حاصل کر چکی ہیں، اور اب شگفتہ شہ پاروں سے مزین تازہ ترین تصنیف ’’ڈاکٹر آن لائن‘‘ کے نام سے پچھلے مہینے ہی شایع ہوئی ہے۔

یہ ہیں وہ’’ تھری جینیئس‘‘ جن کے درمیان ایک قدر مشترک تو یہی تھی کہ تینوں حضرات آلاتِ ڈاکٹری کے ساتھ قلم و قرطاس کو بھی دوست رکھتے ہیں، جب کہ دوسری قدرِ مشترک جو ہمیں پچھلے ماہ معلوم ہوئی، یہ ہے کہ تینوں حضرات نہ صرف ڈاؤ میڈیکل کالج سے سند یافتہ ہیں بلکہ کلاس فیلو بھی ہیں۔ 1979 میں تینوں حضرات ڈاؤ سے فارغ ہوئے اور اب اپنے اپنے دائرہ عمل میں مصروف ہیں۔ اﷲ ہمارے تینوں ممدوحین کو خوش رکھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔