خیبرپختونخوا کی صحافی خواتین پرعزم

عدنان باچا  جمعـء 7 جون 2019
خواتین صحافیوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔ (تصویر: انٹرنیٹ)

خواتین صحافیوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔ (تصویر: انٹرنیٹ)

دہشت گردی سے متاثرہ صوبہ خیبرپختونخوا میں خواتین صحافیوں کو دورانِ کام ہراساں کیا جانا، صنفی تفریق، گھریلو و علاقائی ناہمواریوں، دقیانوسی سوچ اورعدم تحفظ کی وجہ سے مشکلات بتدریج بڑھ رہی ہیں۔ اِن سب مشکلات کے باوجود سوات کی خواتین صحافی اپنے فرائض بخوبی انجام دے رہی ہیں۔

سوات کی پہلی خاتون صحافی

وادی سوات میں فوجی آپریشن کے بعد جب پہلی خاتون صحافی عائشہ خان خواتین کے مسائل اجاگر کرتے ہوئے منظر عام پر آئیں تو اَنا کے خول میں بند مردوں کی آنکھوں میں کھٹکنے لگیں۔ عائشہ خان نے ابتدائی مسائل اور مشکلات کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’’کچھ نیا کرنے کی خواہش اور خواتین کے مسائل کو بہتر انداز میں اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے کےلیے اس شعبہ سے وابستہ ہوئی۔ مجھے علم تھا کہ دہشت گردی سے متاثرہ خواتین کے مسائل مردوں کی نسبت خواتین بہتر انداز میں بیان کرسکتی ہیں۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ اس معاشرے پر مردوں کی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ وہ مجھے آگے جانے نہیں دیں گے۔ ابتدا میں گھر والے ماننے کو تیار نہیں تھے، چوری چوری آرٹیکلز لکھا کرتی تھی۔ جب بھائیوں کو پتا چلا تو مجھے کام سے روک دیا گیا۔ بہت کوششوں سے گھر کے افراد کو راضی کیا اور ریڈیو سوات کے ساتھ کام شروع کردیا۔‘‘

عائشہ خان مزید کہتی ہیں کہ ریڈیو سوات، سی آر ایس ایس، ریڈیو پاکستان، ٹی این این اور دیگر اداروں میں کام کرتے ہوئے اندازہ ہوگیا کہ مرد صحافیوں کی نسبت خواتین کو مخصوص دائرے میں باندھ کر کام لیا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں مردوں کی نسبت خواتین کو کمتر سمجھا جاتا ہے اور خواتین کے کام کرنے کو بری نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ مختلف قسم کی باتیں ہوتی رہتی ہیں، بہتان لگائے جاتے ہیں۔ کئی بار ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایک ساتھی رپورٹر نے دوستی کی دعوت دی اور ہراساں کرنے کی کوشش کی۔ جب ادارے کو اس کے خلاف شکایت کی تو ادارے نے اٰلٹا مجھے قصوروار ٹھہرایا اور کہا کہ تم ملی ہوئی ہو اس کے ساتھ، تب ہی اس نے یہ حرکت کی۔ عائشہ خان مزید کہتی ہیں کہ معاشرے کے دیگر افراد کی جانب سے بھی دھمکیاں دی گئیں، ہراساں کیا گیا اور ذہنی اذیت پہنچائی گئی، حتیٰ کہ میرے والدین کو خط بھیجا گیا اور میرے متعلق غلط بیانی کی گئی۔ جس کے بعد مجھ پر گھر کی جانب سے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔

ڈر کے بیٹھنے والی بات نہیں!

سوات سمیت خیبرپختونخوا میں خواتین صحافیوں کی تعداد مردوں کی نسبت بہت کم ہے۔ سوات میں صرف دو خاتون صحافی ہیں۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں لگ بھگ 20 ہزار خواتین صحافی کام کررہی ہیں، جب کہ خیبر یونین آف جرنلسٹس کے مطابق پشاور میں خواتین رپورٹرز کی تعداد 20 کے قریب ہے۔ اسی طرح صوبہ خیبرپختونخوا میں اِن کی تعداد 30 کے قریب ہے۔ فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2000 کے بعد ملک میں نجی نیوز چینلوں میں اضافے کے بعد ان خواتین صحافیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ خواتین صحافیوں کو لا تعداد مسائل کا سامنا کرنا پڑا، خطرات سے نبردآزما ہوئیں، جان سے مارنے کی دھمکیاں ملی لیکن اِن صحافیوں کا ماننا ہے کہ ڈر کے بیٹھنے والی بات نہیں، ہمت دکھانی پڑتی ہے اور سوچ بدل جاتی ہے۔

پشاور میں آج ٹی وی کی بیورو چیف فرزانہ راجہ نے اس بارے میں ہم سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اکیس سالہ صحافتی کیریئر میں لاتعداد مسائل اور خطرات کا سامنا ہوا، لیکن ہمت نہیں ہاری اور ڈٹی رہی۔ جب صحافت شروع کی تو مخالفت بہت زیادہ تھی، لوگ اِسے پختون روایات کے منافی قرار دے رہے تھے۔ اخبار میں خواتین کے مسائل کواجاگر کیا تو پدرانہ معاشرے نے قبول نہیں کیا اور طرح طرح کی باتیں کرتے رہے۔ فرزانہ راجہ مزید کہتی ہیں کہ جب ٹی وی کےلیے کام شروع کیا تو اس وقت مخالفت زیادہ ہوئی، کیونکہ ٹی وی پر آنے والی خواتین کو کسی اور طرح سے سمجھا جاتا ہے۔ طالبان کے دور میں ایک خاتون کےلیے خواتین کے مسائل سامنے لانا انتہائی خطرناک اور مشکل کام تھا، مذہبی جماعتوں کی سوچ سے ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے وہ بھی دشمن بن گئے۔ وقتاً فوقتاً بہتان و الزامات لگتے رہے۔

خطرات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرزانہ راجہ نے مزید کہا کہ طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے جان سے مارنے کی دھمکی دی تو بہت مشکل سے گزرنا پڑا۔ طالبان کا ماننا تھا کہ ہم ان کی کوریج نہیں کررہے، اسی لیے انہوں نے فون کرکے دھمکیاں دی۔ طالبان کی دھمکی کے بعد ہم نےاپنا ٹائم ٹیبل تبدیل کیا۔ ادارے کی جانب سے احکامات ملنے کی صورت میں اسکرین سے آف ہوگئے اوراپنی آمدورفت کے راستوں کو تبدیل کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ متعلقہ سیکیورٹی اداروں کو بھی سیکیورٹی کی فراہمی کےلیے درخواست دی، تاہم کوئی شنوائی نہ ہوسکی۔ ان سب خطرات کے باوجود ہمت نہیں ہاری اور نا ہی صحافت چھوڑنے کا سوچا۔

خواتین صحافیوں کا کہنا ہے کہ اس فیلڈ میں مزید خواتین کا شامل ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے، کیونکہ خواتین کے مسائل کو ایک خاتون ہی بہتر طریقے سے سمجھ سکتی اور انہیں بیان کرسکتی ہیں۔ چارسدہ سے تعلق رکھنے والی ٹرائبل نیوز نیٹ ورک کے ساتھ منسلک ناہید جہانگیر کہتی ہیں کہ میرے بابا نے مجھے پہلی ہی فرصت میں اجازت دے دی تھی کہ جس فیلڈ میں کام کرنا ہے کرو، لیکن خاندان اور گاؤں کے لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے رہتے تھے۔ ناہید جہانگیر نے مزید کہا کہ جب آپ کسی فیلڈ میں اپنے ساتھیوں کو حد سے زیاہ اسپیس دیتے ہو تب آپ کو ہراساں کیے جانے کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں، کئی بار مختلف دفاتر میں، جہاں میں نے کام کیا یا باہر فیلڈ میں کام کرتے وقت ایسے واقعات کا سامنا ہوا جہاں مجھے ہراساں کیے جانے کی کوشش کی گئی لیکن میں نے ان مسائل کا مقابلہ کیا اور ان عناصر کو خود سے دور ہی رکھا۔

کام کرنے والی خواتین کو خود ہی اپنی حفاظت کرنی پڑتی ہے۔ جب آپ احتیاط سے کام لیں گے تو خطرات کم ہوں گے۔ ہمارے معاشرے میں پختون روایات کی منفی انداز میں تشہیر کی گئی تھی، جس کے اثرات آج بھی نمایاں ہیں، تاہم آہستہ آہستہ یہ سوچ بدل رہی ہے۔

گزشتہ چھ سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ خالدہ نیاز کہتی ہیں کہ گھر والے تعلیم حاصل کرنے کی اجازت تک نہیں دے رہے تھے۔ صحافت میں آنے کےلیے بہت جدوجہد کی۔ گھروالوں کو راضی کیا، گاؤں کے لوگوں کی سوچ کو بدلا۔ تاہم آج بھی جب کہیں جارہے ہوتے ہیں تو راستے میں لوگ نازیبا الفاظ کا استعمال کرتے رہتے ہیں اور مختلف طریقوں سے ذہنی اذیت پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لوگ آپ کو اپنے مطالبات ماننے پر مجبور کرتے ہیں اور نوکری سے نکالنے کی دھمکیاں دیتے ہیں اور مختلف طریقوں سے ٹارچر کیا جاتا ہے، تاہم ان تمام خطرات اور مسائل کے باوجود میری کوشش اور کام جاری رہے گا۔ ایک وقت ضرور ایسا آئے گا جب یہ دقیانوسی سوچ تبدیل ہوجائے گی۔

ہراسانی کے واقعات اور حکومتی اقدامات

ملک بھر میں خواتین صحافیوں کو ہراساں کیے جانے واقعات اکثر رونما ہوتے رہتے ہیں، لیکن زیادہ تر رپورٹ نہیں ہوپاتے۔ پاکستان پریس فاؤنڈیشن کے اعداد و شمار کے مطابق 2008 سے لے کر 2019 تک، دوران کام خواتین صحافیوں کو ہراساں کرنے، انہیں دھمکیاں دینے اور ان پر پابندیاں لگانے کے 7 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ ان سات واقعات میں غریدہ فاروقی کو 2019 میں سوشل میڈٰیا کے ذریعے ہراساں کیا گیا، جبکہ 2014 میں ثناء مرزا کو تحریک انصاف کے جلسے کے دوران کارکنوں کی جانب سے نازیبا رویے کا سامنا کرنا پڑا۔ دوران کام خواتین کو ہراساں کیے جانے کے خلاف حکومت پاکستان کی جانب سے ’’پروٹیکشن اگینسٹ ہراسمنٹ ایٹ ورک پلیس ایکٹ 2010‘‘ بنایا گیا ہے، جس کے ذریعے خواتین ہراسانی کے خلاف شکایات درج کرسکتی ہیں۔

خیبرپختونخوا کی طرح ملک بھر میں دوران کام خواتین کو ہراساں کرنے، انہیں تنگ کرنے اور انہیں اذیت پہنچانے کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ دوران کام ہراساں کیے جانی والی خواتین کے تحفظ کےلیے وفاقی محتسب کے مطابق 2014 سے 2018 تک ملک بھر میں ہراسانی کے 378 کیسز رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔ جن میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 145، پنجاب میں 153، سندھ میں 53، خیبرپختونخوا میں 22 جبکہ بلوچستان و فاٹا میں چار کیسز رجسٹرڈ ہوئے۔ وفاقی محتسب کے مطابق حکومتی اداروں سے 220 ایسے کیسز موصول ہوئے ہیں جن میں کام کے دوران خواتین کو ہراساں کیا گیا۔ پچاس کیسز میں انکوائری چل رہی ہے، جس میں 49 کیسز کے ملزمان کو سزائیں بھی دی جاچکی ہیں۔

خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے بھی سماجی کارکن رخسانہ ناز کو پہلی صوبائی محتسب برائے تحفظ خواتین نامزد کردیا گیا ہے، جو خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ملزمان کو سزائیں دینے میں مدد فراہم کریں گی۔ صوبائی محتسب کے اس ادارے کو ابھی تک میڈیا اداروں سے ہراسمنٹ کی کوئی شکایات موصول نہیں ہوئی۔ البتہ ادارے کی رپورٹ کے مطابق دیگر اداروں سے ان کو اب تک 21 درخواستیں موصول ہوچکی ہیں، جن میں 18 ہراسمنٹ کے کیسز ہیں۔

خیبرپختونخوا میں زیادہ تر کیسز پس پردہ رہ جاتے ہیں، جس کی بڑی وجہ خواتین کو درپیش بدنامی کا ڈر ہوتا ہے اور وہ اپنی عزت کی خاطر شکایات درج نہیں کرپاتیں۔ تجزیہ کاروں اور خواتین کے حقوق کےلیے کام کرنے والی تنظیموں کا ماننا ہے کہ جب تک خواتین خود ان واقعات کے خلاف آواز نہیں اُٹھاتیں تب تک ایسے واقعات ہوتے رہیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔