امریکا کی خودساختہ صدی کی ڈیل

صابر ابو مریم  جمعـء 7 جون 2019
صدی کی ڈیل میں فلسطین کے خلاف سازش کی جارہی ہے۔ (تصویر: انٹرنیٹ)

صدی کی ڈیل میں فلسطین کے خلاف سازش کی جارہی ہے۔ (تصویر: انٹرنیٹ)

غرب ایشیا کی سیاست پر آج کل امریکی صدی کے ڈیل نامی معاہدے کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ مستند خبروں کے مطابق امریکا کی جانب سے پیش کی جانے والی صدی کی ڈیل کا جون کے مہینہ میں بحرین میں منعقد ہونے والی معاشی تعاون کی کانفرنس میں اعلان کیا جائے گا۔ یہ ڈیل کیا ہے؟ اس حوالے سے اگر خلاصہ کیا جائے تو صرف اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ عرب حمیت برائے فروخت اور فلسطین کے خاتمہ کی صہیونی سازشوں میں عربی تعاون۔

صدی کی ڈیل کے عنوان سے جو باتیں فی الحال ذرائع ابلاغ تک پہنچ رہی ہیں، ان میں سب سے اہم بات تو مسئلہ فلسطین سے متعلق ہی ہے، جبکہ عالمی سیاسی منظرنامہ میں اس صدی کی ڈیل کی حمایت میں سرگرم عمل چند عرب حکمرانوں کا مطمع نظر خطے میں ایران سے دشمنی بھی ہے۔ دراصل یہ ایسے احمق حکمران ہیں کہ ایران سے دشمنی کی خاطر انسانیت کے دشمن اور فلسطین میں روز و شب مظلوم فلسطینیوں کے قاتل، غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کی حمایت میں سرگرداں ہیں۔ یقیناً اس خیانت کی قیمت بھیانک ہی چکانا ہوگی، کیونکہ صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کا مقصد صرف اور صرف فلسطین پر تسلط قائم رکھنا نہیں بلکہ پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لینا چاہتا ہے، جس کی سرحدیں نیل کے ساحل سے فرات اور مکہ و مدینہ منورہ تک طے کی گئی ہیں۔

صدی کی ڈیل کی معلومات کو امریکا کی جانب سے تاحال انتہائی صیغہ راز میں رکھا جارہا ہے، لیکن پھر بھی کچھ معلومات ایسی ہیں جو اس ڈیل سے افشا ہوچکی ہیں۔بین الاقوامی منظرنامہ پر سامنے آنے والی صدی کی ڈیل کی بنیادی معلومات میں ایک مسئلہ فلسطین سے متعلق امریکی ہٹ دھرمی اور یکطرفہ فیصلوں سے متعلق ہے۔اس حوالے سے ماضی میں بھی امریکی صدر ٹرمپ پہلے ہی یکطرفہ احمقانہ فیصلے اعلان کرچکے ہیں اور امریکی سفارتخانہ کو تل ابیب سے القدس شہر میں منتقل کرنا اور اس شہر کو صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینا اور پھر اس کے فوری بعد شام کے علاقے جولان کی پہاڑیوں سے متعلق اسرائیل کی جعلی ریاست کی خودمختاری تسلیم کرنا، سب کے سب اقدامات دراصل صدی کی ڈیل سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔

فلسطینی عوام کو پہلے القدس کو تقسم کرکے دینے کی بات کی جاتی رہی، یعنی مشرقی اور مغربی القدس۔ لیکن اب صدی کی ڈیل میں کہا جارہا ہے کہ فلسطینیوں کو مشرقی القدس کے بجائے ابو دیس کو اپنی ریاست کا دارالحکومت قبول کرنے پر آمادہ کیا جارہا ہے۔ قدیم بیت المقدس اسرائیل کے کنٹرول میں رہے گا۔ اس پر اسرائیل کے سوا کسی کا کنٹرول نہیں ہوگا۔ دراصل حقیقت یہ ہے کہ بیت المقدس بغیر کسی تقسیم مشرقی ومغربی کے پورے کا پورا ہی پورے فلسطین کا دارالحکومت تھا اور ہے اور اسی طرح رہے گا۔ صدی کی ڈیل میں کہا گیا ہے کہ صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل چند ایک علاقوں سے ہٹ کر کچھ ایسے علاقوں میں کہ جہاں پہلے ہی صہیونیوں کی آبادکاری کی شرح انتہائی کم ہے، وہاں سے صہیونیوں کو نکال لیا جائے گا۔

صدی کی ڈیل کے عنوان سے امریکی صدر ٹرمپ کی احمقانہ سوچ یہ بھی ہے کہ شاید فلسطینیوں کو معاشی پیکیج اور مالی لالچ دے کر خرید لیا جائے گا۔ اس عنوان سے صدی کی ڈیل میں غزہ کے علاقے کو جس کو تاحال امریکی سرپرستی میں اسرائیل نے محاصرے میں رکھا ہوا ہے ، اب کہا گیا ہے کہ اس علاقے کی تعمیر کی جائے گی۔ یعنی فلسطین کے باشندوں کو لالچ دیا جارہا ہے۔ لیکن فلسطین کے غیور عوام گزشتہ ایک سو برس سے مزاحمت کرتے آئے ہیں اور اس طرح کے امریکی اوچھے ہتھکنڈوں کے جال میں پھنسنے والے نہیں ہیں۔

صدی کی ڈیل میں بتایا گیا ہے کہ وادی اردن پر صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کا ناجائز تسلط رہے گا۔ اسی طرح ایک اور اہم مسئلہ جو قبلہ اول کے اوقاف سے متعلق ہے، اس بارے میں اس ڈیل میں کہا گیا ہے کہ بیت المقدس کے اوقاف اور مقامات مقدسہ سے اردن کی ہاشمی ریاست کی تولیت ختم کردی جائے گی۔ اسرائیل بیت المقدس کے اوقاف کا ذمے دار ہوگا۔

صدی کی ڈیل کو بنانے اور اس کے بارے میں عرب دنیا سے مکمل حمایت حاصل کرنے کا بنیادی ٹاسک امریکی صدر کے داماد کوشنر کے پاس ہے، جبکہ ان کی معاونت میں سعودی عرب کے شہزادے محمد بن سلمان اور عرب امارات کے محمد بن زاید پیش پیش ہیں۔ فلسطینی حکومت، عوام اور تمام مزاحمتی و سیاسی دھڑے اپنے حقوق سے دستبردار ہونے کےلیے تیار نہیں ہیں۔ اس حوالے سے امریکا نے فلسطینی دھڑوں کو خریدنے کا منصوبہ بھی اسی صدی کی ڈیل میں رکھا ہے اور اگر خرید نہ سکے تو پھر ان گروہوں اور دھڑوں کو سخت سزائیں دینے اور فلسطینیوں کی باقاعدہ امداد کو بند کرنے جیسے احکامات بھی صدی کی ڈیل کا حصہ ہیں۔ اردن کے عوام اور حکومت بھی اس حوالے سے منظرعام پر آنے والی اطلاعات سے شاکی ہے۔ اردنی فرمانروا شاہ عبداللہ الثانی صدی کی ڈیل کو مسترد کرچکے ہیں۔ مشرقی القدس کے مستقبل سے متعلق انہیں صدی کی ڈیل کا کوئی بھی فیصلہ قبول نہیں۔ اسی طرح مقامات مقدسہ پر اردن کی تاریخی تولیت بھی ختم کرنا اسے قبول نہیں۔ علاوہ ازیں وادی اردن پر صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کا مسلسل قبضہ بھی ان کےلیے ناقابل قبول ہے۔

امریکی صدر جس دن سے صدارت کی کرسی پر براجمان ہوئے ہیں۔ پوری دنیا کے امن کو شدید خطرات لاحق ہوچلے ہیں۔ اب صدی کی ڈیل کے نتیجے میں نہ صرف فلسطین کو ختم کرنے کی گھناﺅنی سازش کی جارہی ہے، بلکہ ساتھ ساتھ خطے کی دیگر ریاستوں کے مقبوضہ علاقوں پر بھی اسرائیل کے ناجائز تسلط کو باقاعدہ تسلیم کیے جانے کی ناپاک سازش بھی پنپ رہی ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ امریکا کی جانب سے پیش کی جانے والی صدی کی ڈیل ایک خودساختہ اور امریکا کی یکطرفہ ڈیل ہے۔ امریکا کی کوشش ہے کہ صدی کی ڈیل کے مطابق ہی فلسطین کے مسئلے کو ہمیشہ ہمیشہ کےلیے نابود کیا جائے، لیکن دوسری طرف فلسطین کے غیور عوام اور دنیا بھر میں فلسطینیوں کی حمایت میں سرگرم حریت پسند ہیں، جنہوں نے شدت کے ساتھ امریکی فارمولہ صدی کی ڈیل کو مسترد کردیا ہے۔ پاکستان بھی ایسے ہی غیور ممالک میں شمار ہوتا ہے کہ جس نے امریکا کی اس صدی کی ڈیل کو مسترد کردیا ہے۔

وقت کی اہم ضرورت یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین سے متعلق مسلمان اور عرب حکومتیں بھرپور اور واضح موقف اپناتے ہوئے فلسطین کا دفاع یقینی بنائیں۔ لیکن ساتھ ساتھ افسوس ناک صورتحال کا سامنا کچھ اس طرح ہے کہ امت مسلمہ کے نام نہاد ٹھیکیدار ہی فلسطینیوں اور پوری مسلم امہ کی پیٹھ پر خنجر گھونپنے میں مصروف عمل ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔