گاندھی پر گوڈسے نظریات کی جیت یا الیکٹرونک ووٹنگ مشین کی مہربانی!

عمران جمیل  اتوار 9 جون 2019
کیا مودی کی جیت میں الیکٹرونک ووٹنگ مشین کا کمال ہے؟ (فوٹو: فائل)

کیا مودی کی جیت میں الیکٹرونک ووٹنگ مشین کا کمال ہے؟ (فوٹو: فائل)

23 مئی 2019 لوک سبھا کے نتائج سے سیکولر طبقہ شدید مایوسی کے عالم میں ہے۔ یہ مایوسی بے جا نہیں ہے۔ جب 2014 میں بی جے پی کو واضح اکثریت حاصل ہوئی تھی تب سیکولر ذہن رکھنے والے عوام، نیز سیاسی پنڈتوں نے کانگریس کی کرپشن اور کمزور پڑتی سیاسی قوتِ ارادی کو اس جیت کی وجہ بتایا تھا۔

گزرے پانچ برسوں میں ملکی معیشت کے ضمن میں کیے گئے چند غیر افادی فیصلے، نوٹ بندی و جی ایس ٹی کا اطلاق، واضح اکثریت کے زعم میں گؤکشی، وندے ماترم، تین طلاق وغیرہ جیسے موضوعات پر اقلیتوں و دلتوں میں عدم تحفظ کے احساس کو پیدا کرنا، نیز پلوامہ و رافیل جیسے مدعوں پر سیاسی سبکیوں کے باعث پچھلے تین مہینوں میں معتبر ٹی وی چینلوں کے مباحثوں سے اور سیکولر قدروں پر یقین رکھنے والے اخبارات کے سیاسی تجزیوں سے بھی یہی تاثر ملتا گیا کہ اب مودی کے دن ہوچلے ہیں۔ لیکن 23 مئی کے رزلٹ مکمل زعفرانی رنگ میں ڈوبے ہوئے ظاہر ہوئے۔ اس نتیجے سے انصاف پسند طبقہ آخر کون سا تاثر لے؟ پرگیہ ٹھاکر کے مطابق یہ نتائج کیا واقعی دھرم کی جیت ہیں؟

نریندر مودی، امیت شاہ اور پارٹی ترجمان نے پرگیہ ٹھاکر کے گاندھی مخالف بیان کی بظاہر مخالفت ہی کی۔ یہ مخالفت اُن کی سیاسی مجبوری تھی، لیکن بھارتی عوام میں پرگیہ ٹھاکر، گری راج کشور، یوگی ادتیہ ناتھ ، کیلاش وجئے ورگیہ وغیرہ لوگوں کے ذریعے جو پیغامات دینا چاہتے تھے، اس میں بی جے پی سو فیصد کامیاب رہی۔ بی جے پی حکومت دانشوروں کی عدالت میں ہجومی تشدد، رافیل، پلوامہ، سپریم کورٹ کے ججز کی مودی حکومت کے اقدامات سے بے اطمینانی اور غیر سائنسی بیانات پر بظاہر ہزیمتیں اُٹھاتی رہی، وہیں ان مسلم مخالف موضوعات سے زعفرانی ذہنیت سے رچے بسے کروڑوں عوام کو کبھی کچھ فرق بھی نہیں پڑا۔ طرّہ یہ کہ ای وی ایم مشینیں بھی مشکوک ٹھہرائی جاتی رہیں۔ سوال یہی اُٹھتا ہے کہ کیا یہ الیکشن مشینوں، امبانیوں، ایڈاونیوں، کٹر ہندوتوا وادیوں اور گودی میڈیا کے ذریعے ’’ہیکڈ‘‘ تھا؟

امبانیز جیسے ارب پتی کیا رافیل پر اپنی ہزیمتوں کو یوں ہی جانے دیتے تھے؟ کیا یہ سچ ہے کہ اس الیکٹرونک ووٹنگ مشین کے ذریعے نہ صرف جمہوریت کا گلا گھونٹا گیا، بلکہ ظلم و ناانصافی بھری حکومت کے کرتوتوں کو صحیح ٹھہرایا گیا ہے۔ اس حیرت انگیز جیت سے عوام میں یہ پیغام دیا گیا کہ گزرے پانچ سال میں مودی حکومت کی نوٹ بندی، سرکاری ایجنسیوں کی بےعزتیاں، جی ایس ٹی، ہجومی تشدد پر مجرمانہ خاموشی وغیرہ یہ مودی حکومت کےلیے جائز تھا۔

جبکہ کڑوا سچ تو یہ ہے کہ یہ چونکا دینے والے نتائج 80 کروڑ ہندوستانیوں کی بدلتی سوچ کے غماز ہیں۔ یہ بدلتی بھگوا سوچ کوئی آج کل کی نہیں، یہ ذہنیت ایڈوانی کی نفرت کی رتھ یاترا کی بدولت چھ دسمبر 1992 میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد سے ہی بدلنا شروع ہوگئی تھی، جسے مزید تقویت 2002 میں گجرات کے مسلم کش فسادات کے بعد ملتی گئی۔

آخر ہم کیوں صرف اپنے مزاج کی بات ہی سننا چاہتے ہیں؟ جہاں ہمیں اسلاف کی قربانیاں، شہادتیں، مسلم دورِ حکومت کی رواداریاں یاد ہیں، تو وہیں ملک کی سیکولر سوچ کو سبوتاژ کرنے کےلیے ساورکر، گرو گوالکر اور گوڈسے کی ملک و مسلم مخالف سوچ کو بھی یاد رکھنا چاہیے۔

آزادی کے بعد سے موجودہ اِس تیسری چوتھی نسل میں گودی میڈیا کے ذریعے اور کٹر پنتھی تاریخ نویسوں کے ذریعے مسلسل مزاج بدلا جاتا رہا۔ یاد رہے کہ یہ ملک کی سب سے بڑی حقیقت ہے کہ مذہب سے محبت ہمیشہ ہر ہندوستانی کی پہلی ترجیح رہی ہے اور اسی دھرم سے محبت اور ملک کو ماتا سمجھنے کے جذبے کو بی جے پی نے ہمیشہ خوب کیش کرایا۔ ویسے بھی سیکولر مزاج رکھنے والے لوگ ہر مذہب میں کم ہی ہوتے ہیں، شدت پسندوں اور کم سمجھ لوگوں کی تعداد ہی زیادہ ہوا کرتی ہے۔ مستقبل میں یہ کوئی حیرت کی بات نہیں بنے گی جب یہی تیسری نسل ببانگ دہل گوڈسے نظریات کو گاندھی نظریات پر سبقت دینے کی کوشش کرے گی۔ نیز گوڈسے اور ساورکر کے مجسمے بنوا کر، اُن سے موسوم لائبریریاں کھول کر اور نصابی کتابوں میں فرضی تاریخ کے ابواب شامل کرکے اپنے نظریات کو ببانگ دہل تھوپنے کی کوشش کریں گے۔

راقم السطور اس الیکشن سے قبل نجی محفلوں میں یہی کہتا رہا کہ ہندوتوا کے نظریات اپنی ’’چَرَم سیما‘‘ پر پہنچ کر رہیں گے۔ پھر اس عروج کے بعد زوال بھی ہوگا۔ بہرحال یہ سچ ہے کہ ہر ہندوستانی کی پہلی پسند اُس کا مذہب ہے، وہ چاہے ہندو ہوں یا مسلم۔ تاریخی حقیقت ہے کہ آزادی کی لڑائی ہندو مسلمانوں نے مل کر لڑی، لیکن یہی ہندو اور مسلمانوں کو اُن کے مذاہب کے نام پر بٹوارے کی صورت بانٹا گیا۔ اپنے دھرم سے محبت اور اپنے حقیقی ملک بھارت سے محبت میں یہی ہندو اسی بٹوارے کی وجہ سے مسلمانوں اور مسلمانوں کے مددگاروں سے دور ہونا شروع ہوئے۔ 1992 تک سیکولر مزاج کی حکومتیں اپنے غلبے کی وجہ سے کٹر ہندوتوا سوچ کے نقصانات سے بچتی گئیں۔ بالآخر بابری مسجد کی شہادت ہی کٹر ہندوتوا سوچ کو تقویت دینے والا ٹرننگ پوائنٹ بنا۔

طرہ یہ کہ ساھو سنت کار سیوک وغیرہ عام ہندوؤں میں احترام کا مقام رکھتے ہیں، انہی کارسیوکوں کے گودھرا حادثے کو مدعا بنا کر 2002 کے مسلم کش فسادات ہوئے۔ وجہ وہی دھرم کی رکھشا اور ’’ملیچھ مسلمانوں‘‘ سے شدید نفرت اور دھرم کے رکھوالے کے روپ میں نریندر مودی جیسے کٹر ہندوتوا وادی چہرے کا سامنے آنا، جس نے آج تک گجرات فسادات پر شرمندگی کا اظہار نہیں کیا اور وزیراعظم بننے کے بعد مصلحتاً اور علامتاً ہی سہی مسلمان نما بکاؤ مولویوں کے ہاتھوں ٹوپی بھی پہننا گوارا نہیں کیا، جبکہ علامتاً ٹوپی پہن لینے میں ملک کے وزیراعظم کو کوئی قباحت نہیں ہونا چاہیے تھی۔

مودی اگر یہاں ڈپلومیسی اختیار کرکے ٹوپی پہن بھی لیتے تو اس سے وہ 80 فیصد دھرم سے اندھی محبت رکھنے والے ہندوؤں کا اعتماد کھو دیتے۔ یادداشتوں میں یہ محفوظ ہونا چاہیے کہ 1925 سے آج تک آر ایس ایس نے مستقل مزاجی سے ملک کے ہر چھوٹے بڑے لاکھوں گاؤں میں لاکھوں کی تعداد میں اپنی شاکھائیں قائم کیں، جہاں کروڑوں ورکروں کو گوڈسے نظریات پر مبنی تعلیم دی جاتی ہے۔ پھر 1987 سے ان ہی کروڑوں ورکروں کو سیاسی طاقت حاصل کرنے کےلیے سیاسی پارٹی بی جے پی میں تبدیل کردیا گیا۔

یہ دھیان رہے کہ ہمارا ملک 70  فیصد دیہاتوں میں بسا ہے۔ دیہاتوں میں بسے لوگ عموماً کم تعلیم یافتہ، کچے ذہن کے اور اپنی اندھ شردھا کی وجہ سے شہری لوگوں سے زیادہ دھارمک ہوتے ہیں اور انہی نقلی دھارمک لوگوں کی سوچ کو ہندو موافق اور مسلم مخالف موضوعات کے ذریعے بالخصوص راشٹرواد اور پاکستان مخالف موضوع کے ذریعے پانچ سال زندہ رکھتے ہوئے اپنے ووٹ بینک کو یقینی بنایا جاتا رہا۔ یہ وہی ووٹ بینک ہے جو دھرم اور پاکستان سے نفرت کو لے کر آزادی کے بعد سے جنونی ہے۔ یہ وہی ووٹ بینک ہے جسے گاندھی کے ذریعے پاکستان کو پچپن کروڑ دیا جانا آج تک کَھلتا رہا۔ یہ وہی ووٹ بینک ہے جو بھارت کے مسلمانوں کو باہری سمجھتے ہیں۔ یہ وہی ووٹ بینک ہے جو بھارت کی دو ڈھائی سو سال کی غلامی نہیں مانتے، بلکہ مسلمانوں کے دَورحکومت کو مِلا کر بارہ سو سال کی غلامی سے باور کراتے ہیں۔ مسلم غلامی کے دَور کے انتقامی جذبے کے تحت نصابی کتابوں سے کھلواڑ، شہروں اور عوامی مقامات کے نام بدلنا۔ گائے ماتا سے محبت میں مسلمانوں اور دلتوں کو ہجومی تشدد کے ذریعے ختم کرنا۔ یہ سب کچھ بی جے پی کے ’’پرایوجک دھرم‘‘ کی محبت میں ہی تو ہوتا رہا ہے۔ ان کٹر پنتھیوں کی سوچ کہ پاکستان مسلمانوں کا ملک، گلف کے ممالک مسلمانوں کے، تو پھر یہ بھارت جو پانچ ہزار سال کی ہندو تہذیب رکھتا ہے آخر یہ ملک صرف ہم ہندوؤں کا کیوں نہیں ہوسکتا؟

آزادی کے بعد کی اس تیسری نسل تک یہی ساری سوچ اُن کے لڑیچر اور بھگوا میڈیا کے ذریعے متواتر ڈالی جاتی رہی۔ یہ کسی بھی طرح سے بھارت میں ایسی حکومت چاہتے ہیں جو ان کی ہو۔ جہاں ان کے نظریات کی راہ میں کسی طرح کی سیکولرو مسلم حمایتی سوچ روڑے نہ اَٹکا سکے۔ مسلمانوں سے نفرت اور اس نفرت کے جواز میں تقویت انہیں گزشتہ دو دہائیوں میں ہوئے آتنک وادی حملوں میں مسلمانوں کے ملوث ہونے کی وجہ سے ملتی گئی (ان حملوں میں مسلمانوں کی گرفتاریاں کتنی صحیح تھیں، یہ سبھی جانتے ہیں) آج ایک بڑے طبقے کو انصاف پسندانہ قدروں پر منحصر غیر تعصباتی ٹی وی مباحثوں کی سنجیدگی سے کچھ لینا دینا نہیں۔ اس طبقے کو ہر صورت اپنی حکومت چاہیے۔ انہیں رام راجیہ چاہیے اور مودی کی صورت آج دور دور تک کوئی ایسا متبادل موجود بھی نہیں۔

غیرجانبداری پر منحصرمساوات، سیاسی ایمانداری، کرپشن، کسانوں اور بے روزگاروں کے مسائل، تعلیم، صحت و ملکی معیشت نیز بنیادی انفرااسٹرکچر میں سدھار و ترقی جیسے موضوعات پر ان مذہبی جنونیوں کو کچھ لینا دینا نہیں۔ ان کروڑوں بھگتوں کو امیت شاہ کے سنگٹھن کی حکمت عملیوں نے لاکھوں شاکھاؤں کے کروڑوں لوگوں کے ذریعے ایک بار پھر منظم طریقے سے ’’ووٹ کی جیت‘‘ میں بدل دیا گیا۔

اس بار مودی سرکار، وزرا اور کروڑوں باجپائی لوگوں کا اعتماد اور خودسری یقیناً پہلے سے بڑھی ہوئی رہے گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ای وی ایم کے تعلق سے یو این او میں منظم طریقے سے شکایتی اندراج ہو۔م مکن ہے کہ ای وی ایم کی شفافیت پر پُرزور طریقے سے احتجاج بھی ہو۔ ای وی ایم کی غیرجانبداری بھی یقیناً شک کے دائرے میں ہے۔ یہ سارے کام حکومت اور اپوزیشن کو کرنے دیجیے۔ ہم بھارتی مسلمانوں کو اب پوری شدت کے ساتھ تعلیم پر، تجارت پر صحت و دھندے بیوپار پر اخلاقیات و معیشت اور آپسی اتحاد پر پوری لگن کے ساتھ محنت کرنی پڑے گی۔ کل بھی ہمیں کسی بھی حکومت سے کوئی خاطرخواہ فائدہ نہیں تھا اور آج بھی ہم اپنی اپنی محنت اور تقدیر کی کھا رہے ہیں۔ ہمیں بالکل بھی مایوس نہ ہوتے ہوئے اللہ پر یقین رکھنا چاہیے کہ تاریخ گواہ ہے کہ ظالموں کو اگر کسی نے سبق سکھایا ہے تو مظلوم عوام نے ہی۔ ہمیں عوام کے ذریعے کروڑوں کی تعداد میں ہوئے تختہ پلٹ مظاہرہ یاد رہنا چاہیے، جو مصر کے تحریر اسکوائر چوک پر ہوا تھا۔

وہ دن دور نہیں ہوگا جب معیشت کے ستون چُرمرائیں گے، جب بیروزگاری کا عفریت انہیں نگلنا شروع کرے گا، جب روپیہ اور مودی کا وقار گرنا شروع ہوگا، تب بی جے پی کو جیت دلانے والے یہی ’’مذہبی جنونی‘‘ اپنے فیصلے پر پچھتائیں گے۔ ہمیں کسی کو نیست و نابود کرنے کی دعائیں کرنے کے بجائے مستقل مزاجی سے خود کو مضبوط کرنے کی راہوں پر چلتے جانا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

 

عمران جمیل

عمران جمیل

بلاگر کا تعلق مالیگاؤں، ضلع ناسک، بھارت سے ہے، اکیڈمک کوالیفکیشن ایم اے، بی ایڈ، اور نیٹ کوالیفائیڈ ہیں۔ تنقید نگار، کالم نویس اور افسانہ نگار ہونے کے ساتھ موٹیویشنل اسپیکر بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔