سوائے حکمرانوں کے سب پانی پانی

اشعر نجمی  ہفتہ 31 اگست 2013

سیلاب اور بارشیں ہر سال کا معمول ہیں، البتہ ان کی شدت میں کمی بیشی یا وقت کے تعین میں فرق واقع ہوسکتا ہے اور اس کی بڑی وجہ سائنس اور جدید علوم سے ہماری غفلت، بے اعتنائی یا نا اہلی ہے، ورنہ دنیا کے تمام متمدن، مہذب اور ترقی یافتہ ممالک میں موسمیات کے محکمے سیلابوں، بارشوں، طوفانوں یا دوسری زمینی و آسمانی تبدیلیوں کی پیشگی خبریں دیتے رہتے ہیں، جن کی بنیاد پر فوری و ہنگامی انتظامات کرکے لوگوں کی جان اور املاک کو پہنچنے والے ممکنہ نقصانات سے بچانے کی تدابیر کی جاتی ہیں۔ بارشوں کا اور پہاڑوں سے بہہ کر آنے والا پانی پاکستان کے لیے بہت بڑا عطیہ خداوندی ہے جس کی قدر کرنے کے بجائے ہم اسے اپنی بھری پری بستیوں کو تباہ و برباد کرنے کی اجازت دے دیتے ہیں۔ ایک طرف اس پانی کو ذخیرہ نہ کرنے کے مناسب انتظامات سے غفلت برت کر سال کے بقیہ حصوں میں شہریوں کو پانی کی ایک ایک بوند کے لیے ترساتے ہیں تو دوسری طرف زمینوں کو بھی حسب ضرورت پانی سے محروم کرکے انھیں زرخیز سے بنجر بنا دیتے ہیں۔

ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی شدید طوفانی بارشوں کے بعد شروع ہونے والا سیلاب کا یہ سلسلہ سندھ کے درجنوں دیہات کو بہا کر لے گیا، کتنی ہی معصوم انسانی جانیں اس سیلابی ریلے کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ اس صورتحال پر تشویش کا اظہار اور ضروری اقدامات کا اعلان تو کیا جارہا ہے لیکن لوگوں کو پانی کے عذاب سے بچانے کی قابل ذکر کوششیں کہیں دکھائی نہیں دیتیں۔ پورے ملک میں ایک ہیجانی کیفیت برپا ہے، لوگ بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں اور سیلاب متاثرین کو یکسر بھول گئے ہیں اور جابجا انتخابات کو لے کر بحث و مباحثے کے نئے محاذ کھول دیے گئے ہیں۔ ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہم کسی ایک نئے ایشو میں الجھ کر پرانے زخموں کو فراموش کردیتے ہیں۔ بدقسمتی سے اب کسی بھی سطح پر سیلاب متاثرین کا ذکر نہیں کیا جارہا اور ارباب اقتدار قوم کو انتخابی تشویش میں الجھا کر سیلاب متاثرین کی امدادی سرگرمیوں سے صاف جان چھڑا گئے۔ اگر طوفان نوح کی طرح سیلابی پانی اونچے اونچے ایوانوں تک بھی پہنچ جاتا تو خوف خدا سے عاری اور غفلت شعار حکمران شاید یہی کہتے نظر آتے کہ ہم نے بڑے بڑے طوفان دیکھے ہیں اور ان کا رخ موڑا ہے، یہ معمولی سیلابی ریلا ان کا کیا بگاڑ لے گا۔

قیام پاکستان کے چھیاسٹھ برس بعد بھی ملک کی نصف سے زائد آبادی کو دریائوں سے دور پختہ مکانات میسر نہیں اور معمولی بارش یا سیلابی ریلا ہر سال ان کا کل اثاثہ بہا کر لے جاتا ہے تو ہمیں ترقی کے بلند بانگ دعوے کرنے کا کیا حق ہے۔ قومی سطح پر عدم اعتماد کا یہ عالم ہے کہ حکومت عوام پر، اور عوام حکومت کی بدنیتی پر براہ راست حملہ کرنے سے نہیں چوکتے۔ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، قومی دولت کی لوٹ کھسوٹ اور ایک دوسرے کا حق مارنے کے الزامات اس تواتر کے ساتھ لگائے جاتے ہیں کہ ان سے ہماری قومی وحدت اور نظم و ضبط کا کوئی تاثر نہیں ابھرتا۔ یہی وجہ ہے کہ سیلاب اور بارش کے زمانے میں پانی کے وسیع و کثیر وسائل کے لیے بڑے ڈیم نہیں بنتے اور قدرت کی یہ عظیم نعمت ضایع ہونے سے ملک کے غریب عوام سال بھر پانی کے مسئلے سے دوچار رہتے ہیں۔ بارش اور سیلاب سے متاثر ہونے والی کچی آبادیاں اور دیہات جن شدید مسائل سے دوچار ہیں ان کا ذرا سا بھی احساس و ادراک حکمرانوں اور اعلی طبقوں کو اگر ہوتا تو آج نہ کہیں کچی بستیاں نظر آتیں، نہ نیم پختہ مکانوں کی چھتیں گرنے سے جانی و مالی نقصان ہوتا۔

بارشوں اور سیلابوں کے بعد کچے پکے مکانات ہی زمین بوس نہیں ہوتے ہیں بلکہ سڑکوں کے زیر آب آنے سے راستے بھی بند ہوجاتے ہیں جس کے نتیجے میں فوری طبی امداد اور دیگر اشیائے ضروریہ بھی متاثرین تک فوری پہنچائی نہیں جاسکتی ہیں، چنانچہ لوگ بھوک اور بیماریوں سے بڑی تعداد میں جاں بحق ہوجاتے ہیں۔ سیلاب اور بارشوں سے کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں کا سارا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے تو چھوٹے قصبوں اور دیہاتوں پر کیسی تباہی آتی ہوگی ؟ ہیلی کاپٹروں سے سیلاب و بارش زدگان کا فضائی جائزہ یا راستہ بناکر حکام کو ان تک پہنچا کر ٹی وی کیمروں کی ضرورت پوری کرنے کا تماشا اہل وطن ہرسال دیکھتے ہیں، لیکن اگلے سال کے لیے ٹھوس اقدامات کہیں نظر نہیں آتے۔ بارش کی وجہ سے بجلی کے کھمبوں یا پانی میں گرے ہوئے تاروں میں دوڑنے والا کرنٹ ہر سال درجنوں افراد کی ہلاکت کا باعث بنتا ہے لیکن محکمہ بجلی کے کسی اعلیٰ افسر یا بڑے حاکم کی آج تک کوئی بازپرس نہیں ہوئی۔

سندھ کے دیہاتوں میں سانپ بچھو اور دیگر زہریلے کیڑے بھی اپنے بلوں سے باہر نکل کر ہلاکتوں میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ علاوہ ازیں متاثرہ علاقوں میں وبائی امراض پھوٹ پڑتے ہیں، ویسے ہی ڈینگی مچھر کی افزائش کھڑے پانی میں ہوتی ہے اور سندھ اور پنجاب میں یہ مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ان تمام مسائل پر قابو صرف اسی وقت پایا جاسکتا ہے جب حکمرانوں کو یہ احساس ہوکہ جن غریبوں پر یہ قیامت گزر رہی ہے وہ بھی ان ہی کی طرح انسان اور خدا کی مخلوق ہیں۔ یہ متمول اور مقتدر طبقے غریبوں کے خون پسینے کی کمائی سے اپنے اپنے محفوظ محلوں میں عیش و آرام کی زندگی گزار رہے ہیں، ان میں سے کوئی ایک بھی کسی کچی آبادی یا سیلاب زدہ گائوں میں صرف چوبیس گھنٹے گزار دے تو اسے اندازہ ہوگا کہ ملک کی عظیم اکثریت کس اذیت میں مبتلا ہے۔ اس صورتحال کے ذمے دار کوئی اور نہیں، غریب عوام سے کھوکھلی ہمدردی جتانے اور ترقی کے بے بنیاد دعوے کرنے والے اور عیش و اطمینان کی دنیا میں گم یہی مراعات یافتہ طبقے ہیں جن کو شاید یہ یاد نہیں کہ انھیں بھی خدا کے سامنے جواب دہ ہونا ہے۔

غریبوں کے کچے گھر سیلابی ریلوں میں بہہ چکے ہیں اور ان کچے گھروں میں ضروریات زندگی کا ناکافی سامان بھی پانی کے تیز بہائو کی نذر ہوچکا ہے۔ لوگ چارپائیوں کو کشتی کی صورت بارش اور سیلابی پانی پر چلاتے ہوئے محفوظ مقامات کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔  حکومتی طرز کی امدادی کارروائیاں کہیں دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔  جو سیاسی رہنما انتخابات سے قبل غریبوں کے جھونپڑوں میں بیٹھے ان کے دکھ درد میں ساتھ ہونے کا ڈھکوسلہ کررہے تھے، وہ آج اپنے محلوں سے نکلنے کی تکلیف بھی گوارا نہیں کررہے۔ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت اپنے جان و مال کو بچانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں جب کہ سیلابی ریلے روز کسی نہ کسی علاقے میں تباہی پھیلارہے ہیں مگر ارباب اقتدار تاحال صرف جائزہ ہی لے رہے ہیں۔ دوسری طرف رہی سہی کسر بھارت نے پوری کردی ہے۔ بھارت کی طرف سے چھوڑے جانے والے پانی نے بھی سیلابی ریلے کی شکل اختیار کی ہوئی ہے۔ ہمارے گنے چنے ڈیمز میں استعداد سے زیادہ پانی جمع رکھنے کی کوشش میں یا تو پشتے ٹوٹ جاتے ہیں یا پھر پانی کے رخ کو ازخود بند توڑ کر شہری علاقوں کی طرف موڑ دیا جاتا ہے۔

بدقسمتی سے قیام پاکستان سے لے کر اب تک ہم نہ اپنی ترجیحات کا تعین ہی کرپائے اور نہ اس قسم کی ناگہانی صورت حال سے نمٹنے کی موثر حکمت عملی ترتیب دے پائے جس کا خمیازہ باقاعدگی اور پابندی سے تمام تر ٹیکس ادا کرنے والی غریب اور متوسط عوام کو بھگتنا پڑرہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔