چین، اسپرانتو اور سی پیک

ناصر ذوالفقار  ہفتہ 8 جون 2019
کیا اسپرانتو اب سی پیک میں مشترکہ رابطوں کی مؤثر زبان بن سکتی ہے؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کیا اسپرانتو اب سی پیک میں مشترکہ رابطوں کی مؤثر زبان بن سکتی ہے؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ان دنوں پاک چین کی اقتصادی راہداری یعنی ’’سی پیک‘‘ کا بڑا چرچا ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کی جارہی ہیں۔ مستقبل میں سی پیک کی افادیت اور اہمیت اپنی جگہ جبکہ اس کے حالیہ فوائد ہمارے سامنے ہیں جن سے ہزاروں پاکستانیوں کو روزگار کے مواقع ملے ہیں اور آئندہ ملنے کی توقع بھی ہے۔ اس منصوبے میں جہاں کئی دشواریاں اور رکاوٹیں حائل ہیں، وہیں اس منصوبے میں چینی و پاکستانی ماہرین کے مابین ابلاغ کے مسائل نے بھی جنم لیا ہے اور دونوں ملکوں کے باشندوں میں زبان کی مشکلات کے باعث ایک دوسرے سے آزادانہ تبادلہ خیال کا فقدان ہے۔ اس سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے میں ہچکچاہٹ اور دشواری ہوتی ہے۔

اگرچہ چینی طالب علموں کو ابتداء میں ہی انگریزی زبان سکھائی جاتی ہے اور ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ بھی اچھی انگریزی سمجھتا ہے لیکن اس کے باوجود چینیوں نے اس کا آسان حل نکالا ہے کہ پاکستانی ماہرین اور کارکنان کو چینی زبان بولنا آنا چاہیے تاکہ انہیں کام کے دوران مشکلا ت نہ ہوں۔ چینی اپنی زبان کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور یہ زندہ قوموں کی پہچان بھی ہے۔

چنانچہ ان دنوں ہمارے یہاں چینی سیکھنے اور سکھانے کا رحجان زور پکڑ رہا ہے، جو خاصا منافع بخش بھی نظر آتا ہے اور نوجوانوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ وہ چینی زبان سیکھ کر سی پیک کے بڑے پروجیکٹس میں اچھی ملازمت حاصل کرسکتے ہیں۔ اس صورتحال میں ایک عمومی تاثر نے بھی جنم لیا ہے کہ کیا یہ نو آبادیاتی نظام یا استعماریت کا نیا حملہ ہے؟ کیا اب انگریزی کے ساتھ چینی زبان جاننے والوں کی بھی جیت ہوگی؟ یہ وہ سوالات ہیں جو عام پاکستانی کے ذہن میں آرہے ہیں کیونکہ مالی طور پر طاقتور اقوام یا حکمرانی کی زبان ہی کو ’’غالب زبان‘‘ (ڈو می ننٹ لینگویج) کہا جاتا ہے۔

ماضی میں یونانیوں کے دورِ عروج میں یونانی زبان کا اثر 500 سال تک قائم رہا۔ اسی طرح انگریزوں کے عروج کے دور سے لے کر سپر پاور امریکا تک انگریزی زبان نے دنیا پر غالب زبان کے طور پر اپنا سکہّ جمایا ہوا ہے۔ اگرچہ چین اور پاکستان کا معاملہ آقا یا رعایا جیسا ہرگز نہیں، ہم ہمیشہ سے باوقار دوستی کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ معاملے کی نوعیت کے لحاظ سے چینیوں کو اپنے لوگوں کو اُردو بھی سکھانا چاہیے جیسا کہ چینی بھائیوں کی خواہش بھی ہوتی ہے۔

بدقسمتی سے چین کے ساتھ اچھے رَوابط کے باوجود سرکاری احباب نے سنجیدگی سے چینی زبان سیکھنے اور چینیوں کو اردو سکھانے کی کبھی کوششیں ہی نہیں کیں۔ اگر یہی کام ابتدائی برسوں میں کرلیا جاتا تو آج دونوں ممالک اس کمیونی کیشن گیپ کا شکار نہ ہوتے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ چینی زبان کا سیکھنا اتنا آسان نہیں۔ اس کا تعلق زبانوں کے جس گروہ سے ہے انہیں مشکل ترین زبانیں یا ہارڈ لینگویجز کہا جاتا ہے۔ ان میں چینی زبان کے ساتھ کوریائی، جاپانی اور عربی زبانیں بھی شامل ہیں۔ ایک یورپی تجزیئے کے مطابق، دوسرا نمبر اوسط مشکل زبانوں کا آتا ہے جن میں فنش، عبرانی، یونانی، سربین، تھائی، پولش، ترکش، ویت نامی، روسی، ہندی اردو اور انگریزی زبانوں کو رکھا گیا ہے۔ تیسری کٹیگری میں آسان زبانیں ہیں جن کا سیکھنا نسبتاً آسان ہے اور ان کے سیکھنے میں وقت بھی کم درکار ہوتا ہے۔ ان زبانوں میں نارویجین، افریقی، سوئیڈش، ڈچ، رومانی، اٹالین، فرانسیسی، پرتگالی اور اسپین کی زبانیں ہیں۔

مشکل ترین کٹیگری کےلیے 22 ماہ میں 2,200 گھنٹے کی کلاسیں، درمیانی زبانوں کےلیے 11 ماہ میں 1,100 گھنٹے، اور آسان زبانوں کو سیکھنے کےلیے محض 6 مہینوں میں 600 گھنٹے کی کلاسیں درکار ہوتی ہیں۔

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر ہم چینی زبان کیوں سیکھیں؟ جو مشکل ترین زبان ہے اور بظاہر معاشی سرکار کی زبان بھی نظر آتی ہے۔ یہاں یقینی طور پر یہاں کسی ایسی زبان کی اشد ضرورت ہے جو غیر جانبدار حیثیت کی حامل ہو اور کسی ملک یا قوم سے تعلق نہ رکھتی ہو؛ اور جس کا سیکھنا اور سکھایا جانا بھی دیگر زبانوں سے نسبتاً آسان ہو، جبکہ یہ کم وقت طلب بھی ہو۔

اس ذیل میں ہمیں صرف ایک مصنوعی زبان ’’اسپرانتو‘‘ ہی اس کی اہل نظر آتی ہے۔ 150 گھنٹوں کی مشق سے بنیادی اسپرانتو سیکھی جاسکتی ہے۔ جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا ہے، دوسری بڑی یورپی زبانیں سیکھنے میں 600 گھنٹے لگتے ہیں اور مشکل ترین زبانیں کوریائی، جاپانی اور چینی کورسز میں 2200 گھنٹے درکارہوتے ہیں۔ لگ بھگ چھ ماڈیولز میں دو سال سے زائد عرصہ لگ جاتا ہے۔ لیکن اسپرانتو سیکھنے کا وقت نہایت کم ہے اور مدمقابل زبانوں سے واضح فرق ہے۔

دنیا میں ترقی کی رفتار تیز تر ہے اور اسی لیے ہمیں اب کم سے کم وقت میں معاشی ترقی میں حائل کمیونی کیشن گیپ یا مواصلاتی رابطوں میں فقدان جیسی خرابیوں کو فی الفور دور کرنا ہوگا اور وقت کے ساتھ دنیا کے شانہ بشانہ چلنا ہوگا جس کےلیے چین جیسے دوست ملک کی مکمل حمایت ہمارے ساتھ ہے۔

یہ تحریر بھی پڑھئے: زامن ہوف

اسپرانتو زبان کو آج سے 132 سال پہلے پولینڈ کے ماہر لسانیات ڈاکٹر زامن ہوف نے ترتیب دیا تھا۔ اسپرانتو دنیا بھر میں اپنی شناخت رکھتی ہے اور بین الاقوامی زبان کی حیثیت سے اپنے آپ کو منوا رہی ہے۔ یہ رنگ و نسل، مذہب، سماج، غالب اکثریت یا اقلیت میں بغیر کسی تفریق کے تیزی سے فروغ پارہی ہے جس کا ہر ساتواں لفظ عربی النسل ہے۔ 1996 میں اسپرانتو کی حمایت میں یونیسکو نے درخواست کی تھی جس کا 64 برسوں سے اسپرانتو سے اشتراک ہے۔ اس درخواست میں اقوام متحدہ کے رکن ممالک سے اسپرانتو کو عالمی رابطے کی زبان بنانے اور نصاب میں شامل کرنے کی سفارش کی گئی۔ اسپرانتو نے دوسری روایتی زبانوں کے مقابلے میں، جن کی عمر صدیوں میں ہے، بہت تیزی سے ترقی کی ہے جو اس کی کامیابی اور غیر جانبداری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

یہ تحریر بھی پڑھئے: ایجاد کردہ زبان ’’ اسپرانتو‘‘سے متعلق دل چسپ حقائق

دنیا میں بولی جانے والی ساڑھے تین ہزار (3500) زبانوں میں اب یہ 100 بڑی اور اہم زبانوں کی فہرست میں شامل ہوچکی ہے۔ آج دنیا کی 35 ٹاپ زبانوں میں یہ معروف زبان کے طور پر سرفہرست ہے۔

وکی پیڈیا میں 2,5000 لاکھ آرٹیکلز اسپرانتو میں موجود ہیں جبکہ یہ گوگل ٹرانسلیٹ اور فیس بک کی بھی ایک اہم زبان بن چکی ہے۔ قرآن پاک اور بائبل کے علاوہ داس کیپٹل، شیکسپیئر سمیت ہزاروں کتابوں کے تراجم اس میں ہوچکے ہیں جبکہ سیکڑوں اسپرانتو جرائد و اخبارات 100 سے زائد ممالک میں باقاعدہ شائع ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں، اسپرانتو میں ریڈیو نشریات چین کے علاوہ کئی ممالک سے ہو رہی ہیں۔

اسپرانتو کی انفرادی اہمیت اس کا آسان ہونا ہے جس کی وجہ زبان کی منطقی گرامر ہے جسے سمجھ کر مزید الفاظ خود بنائے جاسکتے ہیں۔ اس کا سلیبس آسان ہونے کے علاوہ قیمت میں بھی بہت کم پڑتا ہے۔ ایک کے جی کلاس کے برابر خرچ میں میٹرک لیول کی اسپرانتو آجاتی ہے۔ صرف 16 قواعد یا اصولوں کو چند گھنٹے میں سمجھا جاسکتا ہے اور 150 گھنٹوں کی مشق سے تین ہفتوں میں ابتدائی اسپرانتو کو سیکھا جاسکتا ہے۔

چین میں اسپرانتو کی تاریخ کا مختصر جائزہ لیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ چینی اسپرانتو سے کتنی والہانہ محبت رکھتے ہیں، اسے کس طرح اپنی زندگیوں میں شامل رکھے ہوئے ہیں اور کیونکر اسپرانتو نے چینیوں کے دلوں میں اپنی جگہ بنائی ہے؟

چین کے نوجوان بڑے شوق سے اسپرانتو سیکھتے آئے ہیں۔ چینی انسائیکلو پیڈیا کے مطابق، 2001 تک چار لاکھ سے زائد چینی طلباء و طالبات اعلی درجے کی کلاسوں میں اسپرانتو پڑھ رہے تھے۔ چین کی جنگ آزادی میں روسی رضا کاروں نے ان کی بڑی مدد کی تھی، جن کی زبان یہی اسپرانتو تھی جس سے وہ باہم مربوط تھے۔ اسی طرح چینیوں نے امریکا کے خلاف ویت نامیوں کی مدد کی۔ اس وقت کے صدر ویت نام ہوچی منہ نے اس کا اعتراف بھی کیا تھا کہ اسپرانتو کی بدولت ہمیں کامیابی نصیب ہوئی جس کے بعد امریکیوں نے اسپرانتو پر توجہ دی۔

چین کے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے اسپرانتو دانوں نے مل کر ’’دوست‘‘ نامی تنظیم قائم کی تھی جس کے 130 سرگرم کارکن ہیں۔ ان میں معروف سیاست دان، سائنس دان، ماہرینِ تعلیم اور نامور ادیب وغیرہ شامل ہیں۔ یہاں اسپرانتو کو سرکار ی سرپرستی کے علاوہ چینی صحافیوں کی مد د و ہمدردیاں حاصل ہیں۔

1978 میں چین کا الحاق ’’عالمی اسپرانتو تنظیم‘‘ (UEA) سے ہوا تھا جبکہ 1980 میں ’’چین اسپرانتو لیگ‘‘ (CEL) نامی چینی تنظیم کے ذریعے چین نے باضابطہ طور پر UEA کی رکنیت حاصل کی۔ چین دو مرتبہ عالمی اسپرانتو کانگریس کا میزبان بھی رہ چکا ہے۔ 1981 میں جناب باکن چن یوآن اور جناب یوہویز کو عالمی اسپرانتو ایسوسی ایشن کی اعزازی نگراں کمیٹی کا رکن منتخب کیا گیا۔

یہ تحریر بھی پڑھئے: انگریزی یورپ میں اجنبی ہونے کو ہے

ڈنمارک کے ایک پروفیسر رونالڈ گلوسوپ نے چین کے اسپرانتو تعلق کے بارے میں ایک مضمون لکھ ڈالا ہے جسکا عنوان ہے: ’’چین کیوں اسپرانتو سکھانے کےلیے زرخیز زمین ہے؟‘‘ وہ کہتے ہیں کہ اسپرانتو ایک مغربی زبان ہے اس لیے عام گمان کیا جاتا ہے کہ یہ چین کے باسیوں کو یورپی باشندوں کی طرح سرعت کے ساتھ نہیں سکھائی جاسکتی۔ لیکن وہ اس کی نفی کرتے ہوئے دلائل سے ثابت کرتے ہیں کہ ایسا نہیں بلکہ چین میں اسپرانتو نے بہت ترقی کی ہے۔ اس کی وجوہ کے بارے وہ کہتے ہیں: ’’چین کی حکومتوں نے سرکاری و قومی سطح پر اسپرانتو کی کھل کر حمایت و سرپرستی کی ہے جبکہ اکثر ممالک کی حکومتیں ایسا نہیں کر رہیں۔ یہاں اس زبان پر غور و فکر کے ساتھ میگزین کی بھی اشاعت ہوتی ہے اور چینی براڈ کاسٹرز اسپرانتو میں روزانہ نشریات کے ذریعے عوام کو باخبر رکھتے ہیں۔‘‘

دوسری وجہ چین کی عظیم آبادی ہے جو ایک ارب 34 کروڑ (1.34 بلین) نفوس پر مشتمل ہے، یعنی قریب قریب دنیا کے ہر پانچ لوگوں میں سے ایک چینی ہے۔ اگر وہ چاہے تو ایک عالمی اہمیت کی زبان اسپرانتو سیکھ بہت سے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ کہتے ہیں کہ چینی اثر و رسوخ کا عالمی سطح پر ابھرنا بھی اسپرانتو کےلیے بڑا سودمند ہوسکتا ہے بشرطیکہ بڑی تعداد میں چینی اس کا استعمال کریں۔ تیسرا اہم سبب، ان کے نزدیک، چین کے تمام بچوں کو سکھایا جانے والی لازمی چینی زبان کا ورژن ’’پن ین‘‘ (Pinyin) ہے، جس کا رسم الخط انگریزی زبان سے مماثلت رکھتا ہے۔ اس میں چینی بچے لکھائی میں آوازوں کو استعمال کرنا سیکھتے ہیں جو اسپرانتو سیکھنے میں کام آتا ہے، البتہ وہ الفاظ کے مطالب نہیں جانتے۔ یہی وہ وجوہ ہیں جن کی بناء پر انہوں نے چین کو اسپرانتو کےلیے زرخیز زمین قرار دیا ہے۔ چین کی ابتدائی زبانوں میں بچے و جوان انگلش کا مطالعہ کرتے ہیں جو اسپرانتو کے تلفظ کے قریب تر ہے۔ بالکل اسی طرح چینیوں کو پہلے اسپرانتو سکھانا کارآمد ہوتا ہے جو ان کےلیے انگریزی سیکھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ اس طرح وہ بیک وقت دو زبانیں سیکھ رہے ہوتے ہیں۔

چینی اسکول کے ایک پرنسپل وی یوبن کے مطابق، وہ بچے جو انگریزی سیکھنے میں بہتری اور تیزی دکھاتے ہیں، وہ پہلے سے اسپرانتو سیکھ گئے ہوتے ہیں۔ اسی طرح جو نوجوان انگریزی سیکھ چکے ہوتے ہیں ان کےلیے اسپرانتو سیکھنا بہت آسان ہوجاتا ہے یا اسپرانتو کی بنیاد اچھی ہوجاتی ہے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ ایک چینی کےلیے بھی مغربی باشندے کی طرح اسپرانتو آسان ہے۔

ایک امریکی اسپرانتو دان چک اسمتھ نے ایک چینی کے بارے میں دلچسپ طور پر لکھا ہے جس نے بذریعہ آن لائن اپنے ہم وطن سے پانچ ماہ میں اسپرانتو سیکھ لی تھی۔ چینی ژو ژن نے براہ راست نیٹ پر اسپرانتو سیکھی۔

سی پیک جیسے منصوبے میں چینیوں کےلیے بہترین مواقع ہیں کہ اپنے اسپرانتو کے تجربات کو بروئے کار لائیں اور اسے رابطے کی زبان کے طور پر نافذ کریں۔ اس سے بین الاقوامی قومیت کے ماہرین و کارکنان کے مابین ایک بہترین پیشہ ورانہ ماحول میسر آسکے گا اور وہ زبان کی مشکلات اور جھنجھٹ سے آزاد ہوکر دوستانہ ماحول میں کام کریں گے۔ اس طرح ایک طرف خطے میں معاشی ترقی کے ساتھ اسپرانتو اور مقامی زبانوں کو بھی فروغ حاصل ہوگا کیونکہ اسپرانتو کسی زبان کی مخالف نہیں بلکہ یہ دوسری زبانیں سیکھنے کےلیے ایک پلیٹ فارم بھی مہیا کرتی ہے۔ اسپرانتو سے واقفیت کے بعد یورپیائی زبانیں سیکھنا پانچ فیصد آسان ہوجاتا ہے۔ اسپرانتو سکھانے میں سب سے زیادہ انگریزی زبان اور اس کے ماہرین کا رہا ہے کیونکہ اسپرانتو سکھانے کی کتابوں اور ویب سائٹس کی اکثریتی ڈیفالٹ زبان انگلش رہی ہے۔

1939 سے قائم برطانیہ کی ’’اسپرانتو ٹیچرز ایسوسی ایشن‘‘ ہے جس نے 1956 سے ’’انگلش اسپرانتو ڈکشنریوں‘‘ Nixon کے متعدد ایڈیشنز شائع کیے ہیں۔

اسپرانتو سیکھ کر چینی بھائیوں سے ہم اپنے تعلقات کو مزید بہتر بنا سکتے ہیں اور اس طرح ہم اپنی اردو زبان کو بھی چینیوں میں زیادہ بہتر انداز سے روشناس کراسکتے ہیں۔ جس طرح چینی بھی اب سی پیک کی وجہ سے اردو میں دلچسپی رکھتے ہیں، اسی طرح اسپرانتو کو ذریعہ بناتے ہوئے چینی زبان کو بھی زیادہ بہتر اور آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔ رابطے کی یہ زبان دوسری زبانوں کےلیے بھی بہتری لاسکتی ہے۔

صرف چین اور پاکستان ہی نہیں، بلکہ جہاں جہاں سے یہ پروجیکٹ گزرے گا وہاں مختلف زبانیں بولنے والے ممالک ہیں جو ایشیا سے لے کر مشرق وسطی سے ہوتے ہوئے یورپ اور پھر افریقہ تک چلے گئے ہیں۔ حال ہی میں جی 8 کے ایک رکن ملک اٹلی نے چین کے ساتھ نئی شاہراہ ریشم ( سلک روڈ) کی تعمیر کےلیے منصوبے پر دستخط کردیئے ہیں۔ اس طرح وہ یورپ کا پہلا ملک بن گیا ہے جو براہ راست سی پیک پروجیکٹ کا حصہ بنا ہے۔ نئی شاہراہ ریشم چین سے روس ہوتی ہوئی اٹلی (یورپ) تک جائے گی۔ زمانہ قدیم سے اس مقصد کےلیے بحری راستے شاہراہ ریشم کام کرتے آرہے ہیں۔

اس طرح خطے کے یہ تمام ممالک ’’ون بیلٹ، ون روڈ‘‘ کے ساتھ جڑے ہیں وہ ’’ون لینگویج‘‘ کے ذریعے ایک عالمگیر زبان اسپرانتو سے پیوستہ ہوسکتے ہیں جو ان کے مابین دوستی بھائی چارے اور امن کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کرسکتی ہے؛ کیونکہ محض سیمینار اور ثقافتی وفود کے تبادلوں سے اچھی اور بے تکلف دوستی قائم نہیں ہوسکتی، اس کےلیے عوام کا ایک دوسرے کے ساتھ آزادانہ تبادلہ خیال بھی بہت ضروری ہے اور وہ رابطے کی ایک زبان ہی سے ممکن ہے۔

اسی لیے ناچیز کی رائے میں سی پیک کا وژن ’’ون بیلٹ، ون روڈ، ون لینگویج‘‘ ہونا چاہیے، تو پھر سی پیک کے آفیشل باہمی رابطوں کی زبان اسپرانتو کیوں نہیں ہوسکتی جو اس کی مکمل اہلیت بھی رکھتی ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔