دھیاں کیوں پردیس کلہیاں نی مائے!!

شیریں حیدر  اتوار 9 جون 2019
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’ عید مبارک، میرے جگر کے ٹکڑے! ‘‘ اماں کے عید کارڈ کو کھولا تو اس پر ان کے ہاتھوں کی تحریر نظر آئی اور اماں کی خوشبو میرے ارد گرد پھیل گئی، ’’ لکھنا کہ تمہاری عید کیسی گزری، تمہاری عید کا احوال پڑھ کر میری عید ہو گی!!‘‘ میں نے ہنس کر اماں کے عید کارڈ کو بند کر کے سینے سے لگایاا ور ان کے ہاتھوں کو اپنے اردگرد لپٹتے ہوئے محسوس کیا، آنکھیں ان کی یاد سے نم ہو گئیں۔ انھیں کال کر کے عید مبارک بھی کہنا ہے، ان کی عید تو یوں بھی ہم سے ایک دن کے بعد ہی ہو گی۔ وقت میں ہم ان سے آٹھ دس گھنٹے پیچھے ہوتے ہیں مگر ہمارے ہاں چاند پہلے پہنچ جاتا ہے، شاید چاند کو بھی علم ہے کہ اسے تیسری دنیا کے ملکوں میں پہلے نہیں جانا ہوتا۔

آج کے دور میں عید کارڈ کون بھیجتاہے کسی کو اماں، کس کے پاس وقت ہے کہ وہ عید کارڈ خریدے، پھر لکھے، ٹکٹ لگائے، ڈاک خانے جائے اور پوسٹ کرے؟ لیکن یہ ہے کہ آپ کے عید کارڈ نے مجھے چند منٹ کے لیے اپنے بچپن اور لڑکپن میں دھکیل دیا جب ہم یہ سب کچھ کرتے تھے۔ اب اسمارٹ فون کا دور ہے لیکن اماں کے پاس اسمارٹ فون صرف اپنے پردیسی بچوں کی تصاویر دیکھنے کے کام آتا ہے۔ ویڈیو کال بھی کرو تو اماں نم آنکھوں سے بار بار کہہ رہی ہوتی ہیں، ’’آواز صاف نہیں ہے بیٹا!!‘‘ آواز تو صاف ہوتی ہے مگر اماں کا گلا اور آنکھیں صاف نہیں ہوتیں سو انھیں چھپانے کی غرض سے وہ جلد ہی کال بند کر دیتی ہیں… ’’خط کا جواب جلدی دینا بیٹا! ‘‘ وہ فون بند کرتے ہوئے کہنا نہیں بھولتیں۔

اب کے بار میں آپ کے کارڈ کے جواب میں اپنی عید کا احوال ضرور لکھوں گی اماں! لکھوں گی… جس وقت پاکستان میں آخری روزہ کھول کر اور مٹی کے پیالے میں مہندی گھول کر آپ کی لخت جگر، گھر کی چھت پر سکھیوں کے سنگ کھڑی ہو کر چاند دیکھنے کی کوشش کیا کرتی تھی، اس وقت میں یہاں دیار غیر میں اپنے کام سے واپسی پر چار بسیں بدل بدل کر تھکاوٹ سے چور گھر پہنچتی ہوں تو کچن کے سنک میں وہ برتن انتظار کر رہے ہوتے ہیں جنھیں وقت کی کمی کے باعث سحری میں نہیں دھو پاتی اور دو گھنٹے کی نیند کے لالچ میں چھوڑ دیتی ہوں کہ کام پر جانے سے پہلے دھو دوں گی مگر کام پر جانے سے پہلے بچوں کے ناشتے اور لنچ باکس بناتے ہوئے ان میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے کہ میرے شوہر کی ’’جلدی، جلدی‘‘ کی گردان شروع ہو جاتی ہے اور میں پیدل بس اسٹاپ تک کا تردد بچانے کے لیے فورا پرس اٹھاتی ہوں اور چل پڑتی ہوں۔

سال کا کوئی بھی دن ہو اماں، یہاں سب دن ایک سے ہوتے ہیں، عید کا دن بھی اسی طرح ہوتا ہے اور آخری روزہ بھی، چاند رات بھی عام راتوں جیسی ایک رات ہوتی ہے مگر وہ میرے لیے ذمے داریوں کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ لے کر آتی ہے۔ عید کی نماز پڑھ کر میری ساری سسرال والے ہمار ے ہاں ناشتے پر آتے ہیں اس لیے میں برتن دھونے سے پہلے ایک فہرست بنا کر اپنے شوہر کو دیتی ہوں کہ جتنی دیر میں میں برتن دھوتی ہوں، وہ سودے لے آئے۔ چاند کا اعلان سن کر جس وقت آپ کی راج دلاری اپنی سہیلیوں کے ساتھ اپنے ہاتھوں پر مہندی کے بیل بوٹے بنوا رہی ہوتی تھی اور ڈیزائن اچھا نہ بننے پر منہ بسورتی تھی اور ہاتھ دھو کر دوبارہ نئے ڈیزائن کی مہندی لگوانے بیٹھ جاتی تھی اس وقت اب آپ کی راج دلاری، برتنوں کا وہ ڈھیر دھو رہی ہوتی ہے جو دن بھر سے اس کا منتظر ہوتا ہے۔ ا س کے بعد فرج سے گوشت نکال کر، خوداپنے ہاتھوں سے اسے دھو کر اس کے ٹکڑے کرکے ان پر مسالے لگاتی ہے۔

عید کا اعلان ہونے کے بعد، جس وقت آپ شام کو دیر سے شیر خرمہ بنا کر اس پر پستے کی ہوائیاں چھڑکتی تھیں اور آپ کی لاڈلی اپنے آنگن کے جھولے پر جھولتے ہوئے کچھ گنگناتے ہوئے اپنی مہندی سکھاتی تھی، اب اس وقت آپ کی لاڈلی، اگلے دن کے لیے استعمال ہونے والے برتن دھو کر سکھا کر میز پر سجاتی ہے۔ بچوں کو نہلا کر سلاتی ہے اورچولہے پر شیر خرمہ اور سالن چڑھا کر پاس ہی استری لگا لیتی ہے، عید کے دن کے لیے سب کے کپڑے استری کرتی ہے اور رات دیر سے اپنے تھکے ہوئے وجود کو لے کر بستر پر گرتی ہے تو دیس کی یاد اور اگلے دن کے کاموں کی فکر اسے سونے ہی نہیں دیتی، بیچینی سے کروٹیں بدلتے ہوئے رات گزرتی ہے۔ دن کو کام سے عید کے دن لیے، آدھے دن کی چھٹی کا مطالبہ کرنے کے جواب میں جو سو جلی کٹی سننا پڑی ہوتی ہیں، انھیں یاد کر کے رونا آ جاتا ہے۔

ابھی سوئی بھی نہیں ہوتی کہ جاگنے کا الارم بج جاتا ہے، اٹھ کر فورا غسل لیتی ہے کہ اس کے بعد دن بھر چل سو چل ہے، منہ دھونے کا وقت بھی نہیں ملے گا۔ جس وقت ابا اور بھائی عید کی نماز پڑھنے جاتے تھے اور آپ کی شہزادی دونوں ہاتھوں میں بھر بھر چوڑیاں پہنے، مہندی کا لال رنگ خوشی کا عکس بن کر چہرے پر چمکتا تھا اور منتظر ہوتی تھی کہ ابا اور بھائی عید کی نماز پڑھ کر آئیں اور اس کی تیاری کو سراہنے کے ساتھ ساتھ اس کا پرس لال نوٹوں سے بھر دیں … اس وقت آپ کی شہزادی اپنے بچوں کو کئی کئی بار بستر سے گھسیٹ کر نکالنے کی کوشش میں جھنجلا جاتی ہے، ادھر میز پر ناشتہ سیٹ کرنے کی ایمر جنسی ہوتی ہے اور ادھر کان منتظر کہ کسی بھی وقت مہمان پہنچ جائیں گے اور اطلاعی گھنٹی بجے گی۔ مہمانوں کے درمیان لپکتی، بھاگتی… چائے بناتی اور تھک کر نڈھال ہوتی ہوئی آپ کی شہزادی یہ تک یاد نہیں کر پاتی کہ اس وقت آپ کے گھر آنگن میں اس وقت، عید کے دن وہ چڑیا کی طرح چہک رہی ہوتی تھی۔

مہمان ناشتہ کر کے جاتے ہیں تو آپ کی بیٹی برتنوں کا جمع شدہ ڈھیر دیکھ کر بے ہوش ہونے کو ہوتی ہے کہ یہ سوچ کر بے ہوش نہیں ہوتی کہ آخر کار بھی تو یہ برتن اسی کو دھونا ہیں تو بے ہوش ہونے میں وقت کیوں ضایع کرے۔ برتنوں کا ایک ڈھیر ڈش واشر میں لگا کر، کچھ ہاتھوں سے دھو کر سارے کاؤنٹر بھر جاتے ہیں توسوچتی ہے کہ ان برتنوں کے ذرا سے سوکھنے کا انتظار کرنے کے دوران قالینوں اور فرشوں کا صاف کر لیا جائے، اتنی دیر میں ڈش واشر رک جاتا ہے، پہلے برتن نکال کر اگلے برتن اس میں ڈال کر اسے دوبارہ چلا کر، دھلے ہوئے برتنوں کو سمیٹتے ہوئے ساتھ واشنگ مشین چلا کر کپڑے بھی دھو لیے جائیں۔

بچوں کے لیے دوپہرکا کھانا بنا کرساتھ ساتھ اپنی تیاری کرتے ہوئے سوچتی ہے کہ اس وقت میں اپنے عید کے کپڑے پہن کر ا پنی سہیلیوں کے سنگ تتلیوں کی طرح اڑتی پھرتی تھی اور ان کے گھروں میں جا کر ان کے ساتھ کھیلتی اور ان کے والدین سے بھی عیدی اور پیار وصول کرتی تھی۔ بچے ناشتہ کر کے پھر سوچکے ہوتے ہیں، میرے شوہر ناشتہ کرتے ہی کام پر چلے جاتے ہیں اور میں نے برتن دھونے اور سمیٹنے کے لیے آدھے دن کی چھٹی لے رکھی ہوتی ہے۔ کام سمیٹنے کے بعد میں آپ کا بھجوایا ہوا عید کا جوڑا جسے آپ نے اتنے شوق اور تردد سے بنوایا اور بھجوایا ہوتا ہے، بس گھنٹہ بھر کے لیے ہی پہننا ہوتا ہے، تبدیل کر کے معمول کے کاموں میں جٹ جاتی ہوں۔ گھر کا کام سمیٹ کر، کام پر جانے کے لیے تیار ہوتی ہوں اور کام کی وجہ سے بس اسٹاپ تک کی لفٹ سے بھی محروم ہو چکی ہوتی ہوں۔

اپنے تھکے ہوئے وجود کے ساتھ بس میں بیٹھی ہوئی یاد کر تی ہوں کہ اس وقت ابا چاند نظر آنے کے بعد سب کو کالیں کر کے مبارک باد دے رہے ہوں گے، بھائی عید کی نماز کے اوقات چیک کر رہے ہوں گے، بھابیاں ملازموں سے عید کے کپڑے استری کروا رہی ہوں گی، بھتیجیاں اور بھانجیاں ہاتھو ں پر مہندی لگوانے کے لیے باہر گئے ہوں گی، بھانجے اور بھتیجے دوستوں کے ساتھ باہر گھومنے اور چاند رات منانے گئے ہوں گے، بہنیں اماں کو ملنے آئی ہوں گی اور ان کے کمرے میں محفل لگائے، بھابیوں سے خاطریں کروا رہی ہوں گی۔ میری آنکھیں یہ سب سوچتے ہوئے نم ہو گئیں، میرے اندر سے نا دانستگی میںگنگناہٹ ابھری،

’’ مٹی دا بت میں بنانی آں نی مائے۔ اوہدے گل لگ کے میں رونی آ نی مائے

مٹی دا بت نہ بولدا نہ مائے… میں رو رو حال گنوانی آں نی مائے…

کنکاں نسریاں نی مائے … دھیاں کیوں وسریاں نی مائے …

کنکاں لمیاں نی مائے… دھیاں کیوں جمیاں نی مائے… ‘‘ میں سسکی، ’’دھیاں کیوں پردیس کلہیاں نی مائے!! ( بیٹیوں کو پردیس کیوں بھیجا؟ ) یہ اضافہ میںنے خود ہی کر دیا تھا۔

’’ تم ٹھیک تو ہو؟ ‘‘ کسی کے سوال سے میں چونک گئی۔

’’ ہاں ہاں … ‘‘ میں سنبھلی۔ ہاتھ کی پشت سے آنسو پونچھے، پرس سے فون نکالا، ’’عید بہت اچھی گزر رہی ہے اماں ! ‘‘ اماں کو فون پر پیغام بھیجا ہے، اماں میں کبھی بھی خط لکھ کر نہیں بتا سکتی کہ پردیس میں میری عید کیسی گزرتی ہے۔ پردیسی بیٹیوں کی مائیں کبھی جان ہی نہیں سکتیں کہ ان کی لاڈلی بیٹیاں پردیس میں کس کس وقت دیس کو یاد کر کے آنسو بہاتی ہیں مگر اپنے آنسوؤں کی نمی کو ماؤں سمیت سب سے چھپا کر، وڈیو کال پر مسکرا مسکرا کر بتاتی ہیں کہ وہ بہت خوش ہیں !!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔