عیدالفطر پر سینما گھروں کی رونقیں بحال

قیصر افتخار  اتوار 9 جون 2019
پاکستانی اور ہالی وڈ سٹارز کی فلمیں شائقین کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔ فوٹو: فائل

پاکستانی اور ہالی وڈ سٹارز کی فلمیں شائقین کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔ فوٹو: فائل

’ عید آئی خوشیاں لائی‘ واقعی ہی جب بھی ماہ رمضان کے بعد عید الفطر کا خوشیوں بھرا تہوار آتا ہے تو ہر چہرہ مسکراتا دکھائی دیتا ہے۔

عید کی نماز پڑھنے کے بعد جہاں شیر خرما اور سیویوں سے  منہ میٹھا کروایا جاتا ہے وہیں ایک دوسرے کو گلے لگا کر تمام گلے شکوے بھلا دیے جاتے ہیں۔  یہ اللہ تعالیٰ کا ایک ایسا خاص تحفہ ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ ویسے تو دنیا بھر میں امت مسلمہ روایتی مذہبی عقیدت اور احترام کے  ساتھ عید الفطر کی نماز ادا کرتی ہے  لیکن اس خوشیوں بھرے تہوار کو چارچاند لگانے میں فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں کا کردار  ہمیشہ ہی نمایاں رہتا ہے۔

اس بار بھی پاکستان میں سینما گھر آباد دکھائی دیئے، جس کی بڑی وجہ  پاکستانی اور بالی ووڈ کی کی فلمیں تھیں۔شائقین کی بڑی تعداد تعداد عید کے تینوں روز سینما گھروں میں دکھائی دی۔  کسی نے اردو فلم دیکھی تو کسی نے پنجابی ،کسی نے پشتو فلم دیکھی تو کسی نے انگریزی زبان میں۔  بس یوں سمجھ لیجئے کہ عید  میلہ پر لگنے والی فلمیں تمام عمر کے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی رہیں خاص بات یہ تھی کہ عید الفطر کے موقع پر  فیملیز کی بڑی تعداد میں سینما گھروں کا رخ کیا اور انٹرنیشنل معیار کی فلمیں دیکھ کر پاکستانی فنکاروں تکنیک کاروں کو خوب داد سے نوازا۔

جہاں تک بات علاقائی فلموں کی ہے تو پنجابی بی پی فلم و نے صوبہ پنجاب میں زبردست بزنس کیا یا پنجابی سینما کو پسند کرنے والے شائقین نے سینما گھروں کیا اور اور معروف فنکاروں کی اداکاری فلم کے میوزک  سے خوب لطف اٹھایا جبکہ پشتو زبان میں بننے والی فلم نے جہاں خیبرپختونخوا میں اچھا بزنس کیا وہیں وہی کراچی بلوچستان اور افغانستان کے کچھ علاقوں میں بھی فلم کا بزنس منافع بخش رہا۔ اس کے علاوہ وہ مڈل یس کی کچھ ریاستوں میں بھی پشتو فلم نمائش کے لئے پیش کی گئی اور وہاں بھی فلم نے اچھا بزنس کیا۔

لیکن نوجوان نسل  کی بڑی تعداد اس بار اس لیے مایوس دکھائی دں کیونکہ  بولی وڈ  فلموں کو پاکستان میں نمائش کی اجازت نہ تھی ، جس کی وجہ سے کچھ سینما مالکان  بھی مایوس دکھائی دیے۔ ماضی کی بات کریں تو عید الفطر جیسے اہم تہوار پر جب پاکستانی فلموں کے ساتھ بولی وڈ اسٹارز کی فلمیں نمائش کیلئے پیش کی جاتی تو متعدد بار ایسی شکایات موصول ہوتیں کہ سینما انتظامیہ پاکستانی فلموں کی بجائے  صرف بالی وڈ اسٹارز کی فلموں کے شو دکھانے پر بضد تھے جس کی وجہ سے پاکستانی فلموں  کو خاصہ بڑا مالی نقصان برداشت کرنا پڑتا تھا۔

مگر  گزشتہ چند برسوں سے بنی پالیسی کے مطابق عید کے موقع پر صرف پاکستانی فلمیں نمائش کیلئے پیش کی جاسکے گی اور اس بار صرف پاکستانی فلمیں سینما گھروں کی زینت بنیں اور ان کا بزنس  بہت اچھا رہا۔

ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ عید الفطر پر نمائش کیلئے پیش کی جانے والی اردو زبان کی دو فلموں کے درمیان کانٹے دار مقابلہ دیکھنے میں آیا لیکن ایک فلم کا بزنس  بہترین رہا لیکن دوسری فلم  بھی منافع میں رہی اور ابھی ان کی نمائش جاری ہے۔ جہاں تک بات بات ہالی ووڈ کی دوفلموں نو اعلیٰ دین اور گاڈزیلا کی ہے تو دنیا بھر کی طرح ان فلموں نے پاکستان میں بھی اچھا بزنس کیا کیونکہ آج بھی پاکستان میں انگریزی زبان میں بننے والی فلمیں دیکھنے اور پسند کرنے والوں کی بڑی تعداد بستی ہے خاص طور پر اللہ دین دین کو دیکھنے کے لیے بچے بڑی تعداد میں سینما گھروں میں دکھائی دیا کیا جس کی وجہ سے فیملیز کا رش دیکھنے میں آیا اور ان فلموں کا بزنس شاندار رہا۔

عید الفطر پر ریلیز ہونے والی فلموں کے بارے میں پاکستان فلم انڈسٹری کے سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ عید فیسٹیول ہمیشہ کی طرح اس بار بھی زبردست رہا ، جس طرح عید کی مناسبت سے شاندار فلمیں پروڈیوس کی گئیں ہیں  اسی طرح شائقین فلم کی بڑی تعداد نے سینما گھروں کا رخ کیا جو کہ پاکستان فلم انڈسٹری کے روشن مستقبل کے لیے خوش آئند عمل ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر پاکستان میں اسی طرح معیاری فلمیں بنانے کا سلسلہ جاری رہے اور فلموں کے میوزک پر خاص توجہ دی جائے تو وہ وقت دور نہیں جب پاکستانی سینما گھروں میں کسی اور ملک کی فلم لگانے کی ضرورت وقت پیش نہ  آئے۔ کیونکہ ماضی میں پاکستان فلم انڈسٹری نے جو کارنامے سرانجام دیے وہ سب کے سامنے ہیں۔

ہمارے ملک کے سپر اسٹارز اور تکنیک کاروں نے جس طرح سے اپنی صلاحیتوں کا اظہار سلور سکرین پر کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔  وسائل کی بے پناہ کمی کے باوجود ہمارے ہاں شاندار فلمیں پروڈیوس کی گئی،  اس کے علاوہ فلموں کے میوزک کی بات کریں تو آج بھی پاکستانی فلم کا میوزک اپنی مثال آپ ہے ، لیکن موجودہ دور میں ہمارے نوجوان فلم میکرز نے منفرد کہانی ، لوکیشن اور جدید ٹیکنالوجی سے فلمیں بنانے کا سلسلہ شروع کیا ہے اگر وہ تھوڑی توجہ فلم کے میوزک پر بھی دیں تو فلموں کا بزنس کئی گنا زیادہ بہتر ہو سکتا ہے۔

اس کی بڑی مثال ہمارا پڑوسی ملک ہے جہاں پر اکثر میگا اسٹارز کی  فلموں کی کہانیاں لوگوں کو سمجھ نہ آئیں مگر فلم کے میوزک نے تمام ریکارڈ بریک کئے۔ اس لیے ہمارے نوجوان فلم میکرز کو یہ بات سمجھنا  ہوگی اور اس پر توجہ دینا ہو گی کہ پاکستانی فلم کو اگر انٹرنیشنل مارکیٹ تک لے کر جانا ہے تو فلم کے میوزک پر خاص محنت کرنا ہوگی ، کیونکہ دنیا بھر میں اردو سینما کو پسند کرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں نہیں بلکہ کروڑوں میں ہے۔

اگر ہم بالی ووڈ کا ذکر کریں تو بالی وڈ میں بننے والی فلمیں  زیادہ تر اردو زبان میں بنائی جاتی ہیں جس کا مقصد دیار غیر میں بسنے والی کمیونٹی کے قریب پہنچنا ہے ، اس میں وہ بہت زیادہ کامیابی حاصل کرچکے ہیں لیکن ہم بھی اس سلسلے میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں مگر اس کے لیے ہمیں اپنی ڈائریکشن اور میوزک کو استعمال میں لانا ہوگا۔ اگر یہ سلسلہ شروع ہو جائے  تو آنے والے پانچ سالوں میں پاکستان فلم انڈسٹری کے سٹارز ، موسیقار ، گلوکار ، ڈائریکٹر ، رائٹر اور پروڈیوسر، کوریوگرافر اور دیگر تکنیکی شعبوں کے لوگ بالی ووڈ کو بہت پیچھے چھوڑ جائیں گے۔

ہمیں عید الفطر گھر کے موقع پر ہونے والے زبردست بزنس کو سامنے رکھتے ہوئے ہوئے اپنی فلموں کے معیار کو مزید بہتر کرنا ہوگا ہمیں اس سلسلہ میں ہالی ووڈ جیسی بڑی فلم انڈسٹری کے تکنیکاروکی خدمات حاصل کرنا ہوگی اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے پڑھے لکھے نوجوان تکنیک کاروں کو بھی تربیت دلوانا ہو گی جس سے پاکستان فلم انڈسٹری کو فائدہ پہنچے گا  اور ہم ایک ایسی مثال بن کر دنیا کے سامنے آئیں گے کہ پھر ہر کوئی بالی وڈ نہیں بلکہ پاکستانی فلموں کو دیکھنا چاہے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔