جنرل باجوہ کے زیر کمان افواجِ پاکستان کے شاندار فیصلے

تنویر قیصر شاہد  پير 10 جون 2019
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

الحمد للہ ، افواجِ پاکستان کے تینوں بازو اپنے بے مثال نظم کے اعتبار سے دُنیا بھر میں اعزازو اکرام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ وقار اور اعتبار کا یہی تقاضا تھا کہ پاکستان کے خلاف مبینہ جاسوسی کرنے کے ملزمان کا جرم ثابت ہونے پر وہی فیصلہ منصہ شہود پر آتا جو سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر کمان فوجی عدالت کی طرف سے سنایا گیا ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ اس فیصلے کی گونج اور بازگشت ساری دُنیا میں سنائی دی گئی ہے ۔ غیرملکی ایجنسیوں کو پاکستان کی سلامتی بارے حساس معلومات دینے کے جرم میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) جاوید اقبال کو 14سال کی سزا سنائی گئی ہے اور بریگیڈیئر(ر) راجہ رضوان اور سویلین ڈاکٹر وسیم کے خلاف سزائے موت کا فیصلہ دیا گیا اورآرمی چیف نے ان سزاؤں کی توثیق بھی کر دی ہے۔

ہمیں اپنی افواج اور اس عظیم ادارے کے ہر فرد سے محبت ہے ۔وطنِ عزیز کا ہر شخص اس ادارے سے وابستہ ہر فرد کی دل سے تکریم کرتا ہے ۔ افسوس ہے مذکورہ تینوں افراد پر جنہوں نے مختلف النوع لالچوں سے مغلوب ہو کر پاکستان کے 22کروڑ عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔ہمارے دل دکھائے۔ شاباش ہے ہمارے ان اداروں پر بھی جنہوں نے ایسے عناصر کی ملک دشمن سرگرمیوں پر نظریں رکھی تھیں۔ ان کو رنگے ہاتھوں دھر لیا گیا اور اب یہ کیفرِ کردار کو پہنچ چکے ہیں ۔

سپہ سالارجنرل قمر جاوید باجوہ کا یہ تازہ فیصلہ مگر اس لیے خصوصیت اور اہمیت کا حامل ہے کہ آج پاکستان کو سیکیورٹی کے بڑے بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ کئی عالمی طاغوتی قوتیں ایکا کرکے پاکستان پر حملہ آور ہیں۔ ایسے نازک ماحول میں ایسا ہی عبرتناک فیصلہ کیا جانا چاہیے تھا۔یہ دراصل مملکتِ خداداد کے ایک عظیم الشان عسکری ادارے کی تطہیر بھی ہے اور کئی عناصر کو انتباہ بھی ہیں۔جنرل باجوہ نے نہایت جرأت اوردلیری سے فیصلہ کرتے ہُوئے درحقیقت انصاف اور شفافیت کا پرچم بلند کیا ہے ۔

ہمیں اُن سے ایسے ہی بڑے اقدام کی توقع تھی ۔ یہ فیصلہ دراصل ملک سے کیے گئے پیمان کوتوڑنے والوں کی سرکوبی ہے ۔ اسلام نے بھی ملک اورقوم سے وفاداری نہ کرنے والوں اور عہد شکنوں کو سنگین سزائیں دینے کا حکم دے رکھا ہے ۔ اس سے پہلے لیفٹیننٹ جنرل(ر) اسد درانی کو بھی سزا دی جا چکی ہے۔ اُن کا جرم یہ تھا کہ اُنہوں نے بھارتی خفیہ ادارے کے سابق سربراہ ، اے ایس دُلت، کے ساتھ مل کر ایک ایسی کتاب لکھی جس سے اہلِ پاکستان کے دل دکھے۔ہماری فوج بھی عوام کے ان جذبات سے خوب آگاہ تھی ؛ چنانچہ فوج نے یہاں بھی انصاف کا جھنڈا بلند رکھا۔

ہم پاکستانیوں کو طیش اس بات کا تھا کہ جنرل (ر) اسد درانی نے بھارتی ’’را‘‘ کے سابق چیف کے ساتھ مل کر کتاب لکھی کیوں؟ دُلت کے ساتھ بیٹھے کیوں؟ ہماری افواج نے ان عوامی جذبات کا پورا پورا خیال رکھا اور فیصلہ کرتے وقت درانی کے سابقہ بلند عہدے کو بھی خاطر میں نہ لایا گیا۔

رواں سال کے دوسرے مہینے ہی راز داں صحافتی حلقوں میں یہ خبر گردش کررہی تھی کہ ہماری سیکیورٹی فورسز کے کچھ سینئر افسران ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہیں اور اب گرفتار بھی کیے جا چکے ہیں۔  وفاقی دارالحکومت کے باخبر میڈیا میں اس بارے بلند آہنگ سے سرگوشیاں بھی کی جارہی تھیں ۔ چونکہ معاملہ خاصا حساس اور قومی سلامتی کا حامل تھا، اس لیے کھل کر اور پورے اعتماد کے ساتھ بات بھی نہیں ہو رہی تھی ۔ یہ سرگوشیاں ہمارے حساس اداروں کے کانوں تک بھی پہنچ رہی تھیں۔ سلام ہے ہماری اُن خفیہ ایجنسیوں کے شاہین صفت اہلکاروں اور عسکری قیادت کو جنہوں نے بروقت ضمیر فروشوں کا سراغ لگایا، رنگے ہاتھوں گرفتار کیا، سرعت سے ان کے خلاف مقدمات چلائے اور اب اُنہیں نشانِ عبرت بنا دیا ہے ۔

یہ کریدنے اور ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ تینوں مجرم دراصل کس ملک کی ایجنسی یااداروں کو کونسے قومی راز فروخت کررہے تھے اور اس کے بدلے کیا کیا مفادات حاصل کررہے تھے ؟ اس بارے میں آئی ایس پی آر کا خبر دیناہی کافی ہے ۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ابھی تو ہم ڈاکٹر شکیل آفریدی کی غداریوں کا بھگتان بھگت رہے تھے کہ یہ داستان سامنے آ گئی ہے۔

پاکستان کو آجکل جن سنگین معاشی مسائل اور عالمی سفارتی دباؤ( از قسم ایف اے ٹی ایف) کا سامنا ہے ، دُنیا کی کوئی اور فوج ہوتی تو شاید ایسا فیصلہ کرنے سے اجتناب کرتی لیکن جنرل قمر جاوید باجوہ نے ان سزاؤں کی توثیق بھی کرکے ثابت کر دیا ہے کہ خصوصاً افواجِ پاکستان مختلف النوع دباؤ کے سامنے جھکنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ اس وقت ملک میں جس طرح کی اقتصادی افرا تفری ہے، شمالی وزیرستان میں چند شرپسند عناصر کی طرف سے پاک فوج کے خلاف جس انداز میں ملک دشمنی کی گئی ہے۔

جسٹس فائز عیسیٰ صاحب کے بارے جس مبینہ ریفرنس کی بازگشت ہے، نیب کے خلاف بے پر کی اُڑائی گئی ہے ،بجٹ کی آمد آمد پر عوام جس خوف کا شکار ہیں،ایسے میں تو قومی سلامتی کے اداروں کو کوئی گزند نہیں پہنچنا چاہیے ۔ افغان طالبان کو ’’راہِ راست‘‘ پر لانے کے لیے امریکا جس طرح پاکستان پر دباؤ بڑھاتا جارہا ہے ، پاکستان کے خلاف افغان انٹیلی جنس ادارے (این ڈی ایس) کی وارداتیں جس اسلوب میں بڑھ رہی ہیں ،یہ سب دباؤ تنہا جنرل قمر جاوید باجوہ اپنی چھاتی پر سہ رہے ہیں۔

ان متنوع دبا ؤ کا مقابلہ کرتے اور ملک کے مفاد میں کوئی راستہ تلاش کرنے کی غرض سے وہ جس طرح مسکراتے ہُوئے افغان نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر ( حمد اللہ محب )سے ملاقاتیں کرتے اور افغانستان میں ’’ناٹو‘‘ کے ترجمان (سر نکولس) سے مذاکرات کرتے دکھائی دے رہے ہیں ، یہ اُنہی کا حوصلہ ہے ۔عید الفطر سے تیسرے روز، 7جون کو شمالی وزیر ستان میں دہشت گردوں نے پاک فوج کے تین افسروں اور ایک جوان کو جس طرح دھوکے سے شہید کیا ہے ،یہ ملک دشمن ہتھکنڈے جنرل باجوہ کا عزم متزلزل نہیں کر سکتے ۔

آئی ایس پی آر کے ڈی جی بھی جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا ئے کھڑے ہیں ۔ہر اُس خبر کی فوری خبر لیتے ہیں جس میں پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے خلاف ہلکا سا بھی کوئی شائبہ پایا جاتا ہو ۔ مثال کے طور پر اگلے روزایک غیر ملکی نشریاتی ادارے نے  ایک  خاصی دل آزار خبر شائع کی تو افواجِ پاکستان کے ترجمان نے فوری طور پر اس کا نوٹس لیا اور اس کی تردید کرتے ہُوئے اسے ’’جھوٹ کا پلندہ اور صحافتی اخلاقیات کی خلاف ورزی‘‘ قرار دیا ۔ ضرورت مگر اس امر کی بھی ہے کہ میجر جنرل آصف غفور مذکورہ ’’جھوٹی‘‘ خبر دینے والے کو گھر تک پہنچاکر آئیں ۔

اِسی  ادارے نے کچھ عرصہ قبل یوکرائنی صدر،پیٹرو پوروشینکو، کے بارے بھی ایک جھوٹی اور من گھڑت خبر شائع اور نشر کی تھی ؛ چنانچہ ادارہ مذکور کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی۔ عدالت میں یہ خبر جھوٹی ثابت ہو گئی ؛چنانچہ نشریاتی ادارے نے صدر مذکور سے معافی بھی مانگی ہے اور اُنہیں بھاری ہرجانہ ادا کرنے پر بھی تیار ہوگیا۔

افواجِ پاکستان کے ترجمان کو بھی انھی خطوط پر مذکورہ ادارے کے خلاف بروئے کار آناچاہیے تاکہ آئندہ اسے افواجِ پاکستان کے خلاف خود ساختہ خبریں شائع کرنے کی جرأت نہ ہوسکے ۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرف سے دفاعی بجٹ میں رضا کارانہ کمی کرنے کے فیصلے کی بھی تحسین کی جارہی ہے ۔ پاکستان اس وقت جن خطرات میں گھرا ہے، ایسے میں جنرل باجوہ کے اس فیصلے نے سب کو ششدر کر رکھا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔