اور شہباز شریف پاکستان آگئے

مزمل سہروردی  پير 10 جون 2019
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

میاں شہباز شریف دو ماہ لندن میں قیام  کے بعد پاکستان واپس آگئے ہیں حکومت کا تو یہی خیال تھا کہ وہ واپس نہیں آئیں گے، حکمران جماعت کی کوشش بھی یہی تھی کہ وہ واپس نہ آئیں۔ اس ضمن میں ڈرانے کی بھر پور کوشش کی گئی لیکن شہباز شریف ان سب کوششوں کے باوجود واپس آگئے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان ٹھیک کوشش کر رہے تھے۔انھیں علم ہے کہ شہباز شریف صرف نام کے قائد حزب اختلاف نہیں ہیں بلکہ وہ ان کے متبادل بھی ہیں۔ جتنی یہ حکومت ناکام ہو رہی ہے اتنا ہی شہباز شریف کے آنے کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔ مقتدر حلقوں کی عمران خان سے محبت اپنی جگہ لیکن ملک بھی چلانا ہے۔ اب تک کی عمران خان کی ناکامی نے شہباز شریف کی واپسی کے راستے کھولے ہیں۔ جیسے جیسے عمران خان کی ناکامی مزید بڑھتی جائے گی ویسے ویسے شہباز شریف کے لیے بند دروازے کھلتے جائیں گے۔

شہباز شریف مسلم لیگ (ن) میں ایک مدبر سوچ کا نشان ہیں۔ وہ اداروں سے مفاہمت کے حامی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ حکومت شدید کوشش کے باجود بھی شہباز شریف کے خلاف کرپشن یا بد عنوانی کا کوئی مربوط کیس سامنے نہیں لاسکی ہے۔ تازہ ٹی ٹی اسکینڈل کو کاروباری حلقے انتقامی کارروائی سمجھ رہے ہیں۔ حکومت خود ہی ٹی ٹی اسکینڈل سامنے لانے کے بعد دفاعی پوزیشن میں چلی گئی ہے۔ اب حکومت اور نیب خو د ہی وضاحتیں دے رہے ہیں کہ شہباز شریف کے علاوہ کسی سے ٹی ٹی کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔ کسی کاروباری فرد سے ٹی ٹی کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔

حکومت کی طرف سے یہ اعلان صاف ظاہر کر رہا ہے کہ یہ صرف سیاسی اسکینڈل ہی تھا۔ ہر کاروباری فرد ٹی ٹی کا سہارا لیتا ہے۔سلمان شہباز تو ویسے بھی ایک غیر سیاسی فرد ہیں۔ انھوں نے کبھی بھی کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لیا۔ لیکن انھیں بھی سیاسی انتقام کا نشانہ ہی بنایا جا رہا ہے۔ اسی طرح آشیانہ سمیت دیگر کیس بھی بتا رہے ہیں کہ ابھی تک شہباز شریف کے خلاف کرپشن اور بد عنوانی کا کوئی مقدمہ نہیں ہے۔ ایک دور میں کمپنیوں کا بہت شور تھا۔ کمپنیوں میں کرپشن کا بہت شور تھا۔ لیکن اب وہ بھی دب گیاہے۔ اب تو دہائیاں دی جا رہی ہیں کہ کسی بھی افسر کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔

لوگ لندن میں شہباز شریف کی سامنے آنے والی تصاو یر پر بھی بہت بات کرتے ہیں۔ اگر لندن میں شہباز شریف کسی بس اسٹاپ پر بیٹھے نظر آئے ہیں تویہ اس بات کی گواہی ہے کہ ان کے اثاثے لندن میں نہیں ہیں۔ اگر وہ لندن کی سڑکوں پر چلتے نظر آتے ہیں تو یہ اس بات کی گواہی ہے کہ وہ وہاں مسافر ہی تھے۔ ورنہ جن کے لندن میں اثاثے ہیں وہ نہ تو لندن کے بس اسٹاپوں پر نظر آتے ہیں اور نہ ہی لندن کی سڑکوں پر چلتے نظر آتے ہیں۔ وہ لندن میں بھی عیاشی سے رہتے ہیں۔ حکومت کے جن وزرا کی لندن میں جائیدادیں سامنے آئی ہیں ان کی لندن میں عیاشی کی زندگی سب کے سامنے ہے۔

بہر حال شہباز شریف واپس آگئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ شہباز شریف کی وطن واپسی پر حکومت کی پریشانی قابل فہم ہے۔ عید کے بعد اپوزیشن حکومت کے خلاف ایک احتجاجی تحریک چلانے کی تیاری کر رہی ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ شہباز شریف کی واپسی اس حوالے سے اہم ہے کہ شہباز شریف اس تحریک میں بھی ن لیگ کو اداروں سے ٹکرانے نہیں دیں گے۔

انھوں نے گزشتہ ایک سال میں اپنی ذات کی نفی کرکے مسلم لیگ (ن) اور اداروں کے درمیان لڑائی میں سیز فائر کیا ہے۔ لوگ خاموشی کا سوال کرتے ہیں لیکن لوگ اس خاموشی کے ثمرات بھول جاتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ نواز شریف اس وقت جیل میں ہیں۔ لیکن اس جیل کو ختم کرنے کے لیے بھی جس مفاہمت کی ضرورت ہے وہ شہباز شریف کر رہے ہیں۔ ان کی مفاہمت کی پالیسی کے ناقدین بھی یہ مانتے ہیں کہ اس کے سوا کوئی حل نہیں ہے ۔

شہباز شریف پارلیمنٹ کے ا ندر بھر پور احتجاج کے حق میں ہیں۔ وہ ایک دائرہ کے ا ندر رہتے ہوئے پارلیمنٹ کے باہر بھی احتجاج کے حق میں ہیں لیکن میں نہیں سمجھتا کہ شہباز شریف ایک دائرہ سے باہر احتجاج کے حق میں ہوںگے۔ وہ نظام کو گرانے کے حق میں نہیں ہوںگے۔ وہ اداروں کو ٹارگٹ کرنے کے حق میں نہیں ہوںگے۔ پی ٹی ایم کے حوالے سے بھی شہباز شریف کی پالیسی بلاول سے بالکل مختلف ہوگی۔ شہباز شریف اس مسئلہ پر بھی اداروں کے ساتھ کھڑے ہوںگے۔

تا ہم وہ حکومت کی اس ضمن میں نالائقی کو تنقید کو نشانہ بنانے کے حق میں ہیں۔ شہباز شریف سمجھتے ہیں کہ ملکی مسائل کے حل کے لیے اداروں سے ٹکراؤ کی بجائے مفاہمت ہی ملکی مفاد میں ہے۔اپوزیشن کی اے پی سی میں بھی شہباز شریف کا کردار اہم ہوگا۔ویسے تو انھوں  نے بجٹ کے لیے پارلیمنٹ میں اپوزیشن کا مشترکہ اجلاس بلا لیا ہے جوایک اے پی سی ہی ہے۔ اپوزیشن کاا حتجاج بجٹ پر پارلیمنٹ سے ہی شروع ہوگا اور قیادت شہباز شریف کریں گے۔ اگر یہ احتجاج کامیاب ہو گا تو ہی پارلیمنٹ کے باہر احتجاج کے کامیاب ہونے کی کوئی امید ہوگی۔

شہباز شریف پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سے استعفیٰ کا اعلان کر چکے ہیں ۔ لیکن یہ استعفیٰ آسان نہیں ہوگا۔ ان کے استعفیٰ پر پی پی پی کو بہت تحفظات ہیں۔ ویسے تو شہباز شریف نے رانا تنویر کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے نئے چیئرمین کے لیے نامزد کیا ہے۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ شاید یہ ممکن نہ ہو سکے۔ اس ضمن میں شہباز شریف کو اپوزیشن کے اجتماعی موقف کو ماننا چاہیے۔ ویسے بھی پی پی پی اور دیگر اپوزیشن نے انھیں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنانے کے لیے ایک جدو جہد کی ہے جس کی یکطرفہ نفی نہیں کی جا سکتی۔

ایک سوال عام ہے کہ کیا شہباز شریف کی واپسی کسی مفاہمت کے نتیجے میں ہوئی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ممکن ہے۔ لیکن یہ مفاہمت حکومت کے ساتھ نہیں ہے اور نہ ہی حکومت اس میں فریق ہے۔ شہباز شریف یہ مانتے ہیں کہ ان کی نیب میں گرفتاری عمران خان کی ضد تھی کیونکہ عمران خان کو اندازہ ہے کہ شہباز شریف کو سیاسی طور پران کے لیے زہر قاتل سے کم نہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اس وقت نواز شریف عمران خان کے لیے خطرہ نہیں ہیں۔ حتیٰ کے مریم نواز بھی عمران خان کے لیے خطرہ نہیں ہیں۔

دونوں پارلیمنٹ میں موجود نہیں ہیں اور نہ ہی ان کا آنے کا کوئی امکان ہے۔ شہباز شریف پارلیمنٹ میں موجود ہیں۔ اس لیے اگر کوئی تبدیلی آنی ہے تو وہ پارلیمنٹ کے اندر سے آنی ہے اور اس میں وہی قوتیں کردار ادا کریں گی جو پارلیمنٹ کے اندر موجود ہیں۔

ویسے بھی آجکل عمران خان کو مائنس کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ شاہ محمود قریشی بھی وضاحتیں دے رہے ہیں کہ  وزیر اعظم کے امیدوار نہیں ہیں۔ حالانکہ ان سے یہ وضاحت کسی نے مانگی نہیں ہے لیکن دال میں کچھ کالا  ضرور ہے۔ لوگ تحریک انصاف کے اندر گروپ بندی کی باتیں کر رہے ہیں۔ سیاسی منظر نامہ میں اس سے بڑی تبدیلی کیا ہوگی کہ ایک سال پہلے ن لیگ میں ٹوٹ پھوٹ اور بغاوت کی باتیں کی جاتی تھیں آج یہ باتیں تحریک انصاف کے بارے میں کی جا رہی ہیں۔ عمران خان کی نہ صرف حکومت بلکہ پارٹی پر بھی گرفت کمزور نظر آرہی ہے۔ عمران خان کی کمزوری اپوزیشن کو طاقتور کر رہی ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔