عدم برداشت پر قابو پانے کے لیے قومی بیانئے کو فروغ دینا ہوگا !

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  منگل 11 جون 2019
’’ماہرین نفسیات اور تجزیہ نگاروں‘‘ کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہارِ خیال

’’ماہرین نفسیات اور تجزیہ نگاروں‘‘ کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہارِ خیال

تحمل مزاجی، رواداری، برداشت، انصاف اور عفوو درگزرایک مثالی معاشرے کی وہ خوبیاں ہیں جن پر اس کی بنیاد قائم ہوتی ہے۔ اگر معاشرے میں یہ خوبیاں نہ ہوں تو منفی رجحانات کو پنپنے کا موقع ملتا ہے اور پھر وہاں شدت پسندی، تشدد، لاقانونیت، عدم برداشت و دیگر برائیاں پھیلتی ہیں جن سے شدید نقصان ہوتا ہے۔

وطن عزیز کی بات کریں تو گزشتہ چند برسوں سے اعلیٰ ایوانوں سے لے کر جھونپڑیوں تک، عدم برداشت، تشدد، نفسا نفسی، الزام تراشی دیگر منفی رویوں کو تیزی سے فروغ مل رہا ہے جس سے معاشرتی توازن بگڑ چکا ہے اور ابھی مزید خرابی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ یہ ایک ایسا سماجی مسئلہ ہے جسے حل کرنا ریاست سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کی ذمہ داری ہے۔ اس اہم مسئلے کو مدنظر رکھتے ہوئے ’’معاشرے میں عدم براشت کا بڑھتا ہوا رجحان اور اس کے اثرات‘‘ کے موضوع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین نفسیات اور تجزیہ نگاروں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

 پروفیسر ڈاکٹر راحیل کریم
(سائیکاٹرسٹ)

معاشرہ افراد کا مجموعہ ہے اور اس کا رویہ اس چیز کا عکاس ہے کہ اس معاشرے کے افراد کن حالات سے گزر رہے ہیں اور وہ خود کیسے ہیں۔ ہر بچہ ایک خاص شخصیت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے جس کے کچھ پہلو موروثی ہوتے ہیں جبکہ باقی اس بچے کی تربیت ہوتی ہے جس کے تحت اس کی شخصیت میں نکھار یا بگاڑ آتا ہے۔ڈنمارک میں جڑواں بچوں پر تحقیق کی گئی۔ ایک بچہ ڈنمارک میں رہا جبکہ دوسرا بھارت چلا گیا۔ انہوں نے دونوں پر نظر رکھی، تحقیق کی تو سامنے آیا کہ اگرچہ دونوں مختلف ماحول میں رہ رہے ہیں مگر ان کی شخصیت کے بہت سارے پہلو ایک جیسے ہیں۔

شخصیت کے موروثی پہلوؤں کی اہمیت اپنی جگہ مگر یہ تربیت پر بھی منحصر ہے کہ اس بچے کو سائنسدان، ڈاکٹر، انجینئر، چور بنا دیں یا کچھ اور۔ گھر پر ٹیلی فون آتا ہے، والد بچے کو کہتا ہے کہ کہہ دو پاپا گھر پر نہیں ہیں، بچہ فون اٹھا کر بول دیتا ہے اور پھر وہ جھوٹ بولنا شروع ہوکر دیتا ہے۔ بچے بڑوں سے سیکھتے ہیں، جو وہ دیکھتے ہیں وہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جو سنتے ہیں وہ بولتے ہیں۔ جینز کے ساتھ ساتھ معاشرتی چیزیں شخصیت کو نکھارتی یا بگاڑتی ہیں۔ اس میں برداشت بھی شامل ہے۔ برداشت شخصیت کا اہم پہلو ہے جس کا مطلب دوسروں کے رویوں اور عقائد کو سمجھنا ہے کہ وہ ایسا کیوں سوچتے ہیں۔جب تک اس قسم کا رویہ پیدا نہیں ہوگا تب تک معاشرہ مہذب نہیں ہوسکتا۔

نصاب کا جائزہ لیں تو ہم نے 86ء کے بعد سے میڈیکل کے نصاب میں Behavioural Sciences کو شامل کرایا کیونکہ یہ انتہائی ضروری ہے۔ ٹریفک کو ہینڈل کرنا،غصہ پر قابو پانا، صحیح راستہ بنانا، سب کا تعلق رویوں سے ہے۔ دنیا میں کوئی بھی معاشرہ ایسا نہیں جو ترقی یافتہ ہو مگرتعلیم یافتہ نہ ہو کیونکہ لوگوں کی سوچ، تربیت، شخصیت کی بہتری، سماجی ذمہ داریوں کا احساس و دیگر اہم معاشرتی چیزیں تعلیم سے جڑی ہیں لہٰذا اگر ہم نے ایک مہذب معاشرہ تشکیل دینا ہے تو لوگوں کی تعلیم پر زور دینا ہوگا۔میں اس پر یقین رکھتا ہوں کہ بہتری کا آغاز سب سے پہلے گھر سے ہوتا ہے۔ والدین بچوں کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو نکھار سکتے ہیں، اس کے بعد سکول و دیگر چیزیں آتی ہیں۔ نصاب بنانے سے معاملہ ٹھیک نہیں ہوگا، نصاب ترتیب دینے کے بعد اسے پڑھانے کیلئے بھی لوگوں کو تربیت فراہم کرنا ہوگی۔ہمیں اپنے ہیومن ریسورس کو بہتر کرنا ہوگا۔ فیڈل کاسترو کو پوچھا گیا کہ اگر آپ دوبارہ انقلاب لائیں گے تو کیا کریں گے؟

کیا غلطیاں ہوئیں؟ اس نے کہا کہ میں نے انقلاب میں اپنا ساراہیومن ریسورس بھگا دیا۔ مجھے ان لوگوں کو ڈویلپ کرنے میں 25 برس لگے۔ ہمیں بھی اپنے لوگوں کو ڈویلپ کرنا ہوگا۔ ترقی یافتہ ممالک میں تھنک ٹینک موجود ہیں جو حکومت کو مختلف تجاویز دیتے ہیں، ہمارے ملک میں بھی ایک ’’مارل تھنک ٹینک‘‘ کی ضرورت ہے جس میں سوشیالوجسٹ، ڈاکٹرز، سکالرز و دیگر ماہرین کو شامل کیا جائے اور ان کی تجاویز کے مطابق پالیسی بنائی جائے تاکہ معاشرے میں توازن قائم ہوسکے۔ معاشرے سے عدم برداشت کے خاتمے کیلئے ہمیں بطور رول ماڈل کام کرنا ہوگا، بچوں کی تربیت پر توجہ دینا ہوگی اور تعلیم کو فروغ دینا ہوگا۔ انصاف سے بھرپور معاشرہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے جس میں لوگوں کو یکساں سیاسی، سماجی و معاشی مواقع حاصل ہوں۔

ڈاکٹر صداقت علی
(ایڈکشن سائکاٹرسٹ )

’’ٹالرنس‘‘ کا معنی برداشت کیا جاتا ہے جو درست نہیں۔ ٹالرنس کا صحیح مطلب رواداری سے لے کر درگزر تک کا سفر ہے کہ آپ کسی کے ساتھ فرق کا احترام کریں۔ یہ فرق رنگ، نسل، مذہب، فرقہ، معاشی، تعلیمی و دیگر لحاظ سے ہوسکتا ہے، اس فرق کی وجہ سے کسی کی دل آزاری نہ کی جائے۔ زیادہ اوصاف کے مالک یا اچھے کام والوں کو اجر زیادہ ملتا ہے لیکن انسان ہونا ایک شرف ہے لہٰذا ہمیں انسان اور جانور کے فرق کو روا رکھنا چاہیے۔ دنیا میں جانوروں کے حقوق کا تحفظ کیا جارہا ہے لیکن ابھی تک انسانوں کے معاملے میں سنجیدگی کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آتا۔ہمارے ملک میں نصف صدی پہلے لوگ بلاخوف و خطراپنی بات کرتے تھے مگر اب ڈر کی وجہ سے کھل کر بات نہیں کرتے کیونکہ انہیں ڈر ہوتا ہے کہ انہیں تکلیف پہنچائی جائے گی۔

اکثر افراد سزا کے خوف سے اظہار خیال ہی نہیں کرتے جس کی وجہ سے وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں، ان کی صحت متاثر ہوتی ہے اور اس کا اثر معاشرے پر پڑتا ہے۔ہم معاشرے میں ان ٹالرنس کی بات کرتے ہیں، معاشرہ گھروں سے بنتا ہے جبکہ ان میں رہنے والوں کے رویوں کے باعث چیزیں خراب ہوتی ہیں۔ گھریلو تشدد کا رجحان زیادہ ہے، والدین اپنے بچوں کو مارتے ہیں مگر اس عمل کو اس لیے نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ وہ اس بچے کے والدین ہیں حالانکہ وہ اسے کسی اور طریقے سے بھی سمجھا سکتے تھے۔ اس ماحول میںجب یہ بچے جوان ہوتے ہیں تو وہ مارنے کو ٹھیک سمجھتے ہیں اور لڑکیاں مار کھانے کو ٹھیک سمجھتی ہیں کیونکہ ان کے ذہن میں ہوتا ہے کہ والدین جیسے مقدس لوگ مارتے ہیں لہٰذا اگر خاوند نے ایک دو تھپڑ مار لیے تو کوئی بات نہیں، وہ کھانا بھی تو دیتا ہے۔ ایسی عورت کو دنیا سے بھی سپورٹ نہیں ملتی، جب اولاد ہو جاتی ہے تو پھر اسے ان کا بھی خیال ہوتا ہے جس کے باعث وہ ظلم برداشت کرتی ہے۔ معاشرے کا بنیادی یونٹ گھر ہے۔

گھر میں چھوٹی سی بات پر سزا کا تصور ہے۔ سائیکالوجی اب سزا کو نہیں مانتی بلکہ ریوارڈ کو مانتی ہے یا پھر غلطی کرنے پر ریوارڈ روکنے کو۔ مدارس اور سکولوں میں سزا اور بے عزتی کا تصور زیادہ ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں بے عزتی کو اصلاح کا طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ اب دنیا بہت ترقی کر چکی ہے، تہذیب و تمدن بہت آگے جاچکا ہے لہٰذا ہمیں بات چیت کے نئے طریقے سیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم ایک دوسرے سے مذاکرات اور لین دین کر سکیں۔ بات چیت سیکھنے سے مراد یہ ہے کہ اس پر خصوصی توجہ دی جائے کیونکہ گھروں میں ہم جو زبان سیکھتے ہیںوہ گزارے کی زبان ہے۔ جب سب اچھا ہوتا ہے تو یہ زبان کام کرتی ہے لیکن جہاں معاملات خراب ہوں وہاں دیکھنے میں آتا ہے کہ والدین بچوں کی بے عزتی کرتے ہیں، اولاد ماں باپ کی بے عزتی کرتی ہے اور یہی چیز بہن بھائیوں کے درمیان بھی نظر آتی ہے۔ لوگ تگڑے پن سے معاملات حل کرنا چاہتے ہیں حالانکہ یہ انسانوں کی نہیں حیوانوں کی صفت ہے۔ ہمارے معاشرے میں رواداری کم ہوتی جارہی ہے۔

لوگ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے ہیں، الزام تراشی کرتے ہیں، دوسرے کو غلط اور خود کو پارسا بتاتے ہیں۔ کمزور افراد جو کسی کی بے عزتی نہیں کرسکتے وہ دوسروں کی بے عزتی ہوتے دیکھ کر اعتماد حاصل کرتے ہیں۔ افسوس ہے کہ اذیت پسندی روایتی چیز بن گئی ہے جس سے معاشرے کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ رواداری ایسی چیز ہے جو عمل کرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی جاتی ہے مگر برداشت جتنی کریں گے وہ وقت کے ساتھ کم ہوتی جائے گی۔ جس طرح باڈی بلڈر کے وزن اٹھانے کی ایک حد ہوتی ہے،جیسے جیسے وزن بڑھاتے جاتے ہیں اس کی سکت کم ہوتی جاتی ہے، اسی طرح برداشت کا بھی یہی عالم ہے، جتنا برداشت کرتے جائیں اس کا مادہ اتنا ہی کم ہوتا جائے گا اور ایک خاص حد کے بعد برداشت کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں ٹالرنس کا تعلق سوچ سے ہے۔

یہ ایمانیات کا معاملہ ہے۔ جب خیال درست ہوتا جاتا ہے تو اس کی طاقت بڑھتی جاتی ہے کیونکہ سوچ کی کوئی حد نہیں ہے۔ اگر ہم رواداری پہ کام کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں لوگوں کی نفسیات پر کام کرنا ہوگا اور ان کی سوچ بہتر کرنا ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے رویوں پر قابو پانا سیکھنا ہوگا۔ ایسے طبقات جو خدمت گزار ہیں اور پسماندہ ہیں، ہم انہیں برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ ہم اپنے اردگرد موجود لوگوں کی دل آزاری کرتے ہیں لیکن جب وہ دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں تو پھر ہم دنیا کو بتاتے ہیں کہ وہ کتنے اچھے تھے، ان کی تعریفیں کرتے ہیں۔ ٹالرنس ایک سیکھنے والا کام ہے۔ جیسے جیسے خیالات بہتر ہوں گے اور محض روایتی باتوں کو لے کر نہیں چلیں گے تو معاملات بہتر ہوں گے۔ جب ہم ماضی سے رہنمائی لیتے ہیں تو لڑائی جھگڑے بڑھتے ہیں،حال سے رہنمائی لینے سے الجھنیں سلجھتی ہیں لیکن جب ہم سائنس سے رہنمائی لیتے ہیں تو ہمارا اعتماد بڑھتا ہے اور ہماری نفسیات بہتر ہوتی ہیں۔ یہ سوچ ہی ہے جس سے رواداری جنم لیتی ہے۔

اس کے برعکس دوسرے کی بات کوبرداشت کرکے آگے بڑھنے کا عمل دماغی سطح پر ہوتا ہے، اس کے لیے ہماری صحت کا اچھا ہونا ضروری ہے۔ اگر جسم کے مختلف اعضاء میں تکلیف ہے، صحت اچھی نہیں ہے تو پھر ہمارا ردعمل زیادہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے اندر انسان کے علاوہ ایک حیوان بھی رکھا ہے، جس پر ہم بسا اوقات حیران بھی ہوتے ہیں کہ یہ کون ہے جو مجھ سے پہلے ہی آگے جھپٹ پڑتا ہے۔ اگر ہم انسان کو آگے اور حیوان کو پیچھے رکھنے میں کامیاب ہوجائیں تو ہماری زندگی میں بھی آسانیاں پیدا ہوجائیں گی اور ہمارا نفس مطمئن ہوجائے گا لیکن اگر ہم اپنے اندر موجود انسان کی پرورش نہیں کریں گے تو پھر حیوان جو طاقتور ہوتا ہے، وہ ہماری اجازت کے بغیر ہی آگے بڑھ کر معاملات خراب کردیتا ہے۔

جیسے ہم کسی نادان دوست کو مذاکرات کیلئے ساتھ لے جائیں تو وہ ہمارے ایجنڈے پر نہیں چلتا اور یوں مذاکرات ناکام ہوجاتے ہیں ۔ ہمارے اندر موجود انسان روایات سیکھتا ہے مگر حیوان وجدان پر چلتا ہے۔ اسے بھوک لگے تو روٹی چاہیے ، چاہے وہ چوری کی ہو لیکن اس کے برعکس انسان کو بھی روٹی چاہیے مگر چوری کی نہیں۔ انسان اور حیوان کا امتزاج انسان ہے۔ تعلیم و تربیت انسان کی کی جاسکتی ہے اور انسان کواگر اپنے اندر کے حیوان پر قابو پانے کا موقع ملتا رہے تو وہ نفس مطمئنہ بن جاتا ہے۔ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مومن تو وہ ہے جو خیر ہی خیر ہے۔ مومن تو وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے لوگ محفوظ رہتے ہیں۔ میں نے گزشتہ 50 برس میں اس میں انہتاط دیکھا ہے جس پر دکھ ہوتا ہے۔ اس حوالے سے منصوبہ بندی ہونی چاہیے جو انسانوں کی تعمیر کرے، انہیں آگے بڑھائے اوراقدار کو فروغ دے۔

ڈاکٹر روبینہ ذاکر
(ڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ آف سوشل اینڈ کلچرل سٹڈیز ،جامعہ پنجاب )

دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں برداشت کو کتنی اہمیت حاصل ہے۔ کیا لوگوں کو معلوم ہے کہ اگر ہم نے معاشرے میں ہم آہنگی اور امن کو فروغ دینا ہے تو اس کا طریقہ کیا ہے؟ کیا یہ برداشت سے ممکن ہے یا اس کے لیے کوئی اور طریقہ اپنانا پڑے گا؟ ہمارے معاشرے میں عدم برداشت بڑھنے کی وجہ یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کے مذہب، کلچر، نظریہ اور سوچ کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں اور نہ ہی ہم ان کے حقوق کو تحفظ فراہم کررہے ہیں۔ برداشت کسی بھی معاشرے کی بنیاد ہوتی ہے لیکن اگر برداشت کی کمی ہو تو مسائل جنم لیتے ہیں۔ برداشت نہ ہونے کا مطلب ہے معاشرہ عدم انصاف کی جانب بڑھ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تشدد میں اضافہ ہورہا جو صرف گھر تک محدود نہیں بلکہ ہمیں سڑکوں، بازاروں و دیگر مقامات پر بھی نظر آتا ہے۔

افسوس ہے کہ کوئی بھی شخص دوسرے کو سننے یا سمجھنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ جب معاشرے میں برداشت نہ ہو تو پھر امتیاز اور غربت جیسے مسائل سامنے آتے ہیں۔ یہ بات قابل فکر ہے کہ ہمارے بہت سارے مسائل کی بنیادی وجہ عدم برداشت ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں عدم براشت کے خاتمے کا عالمی دن منایا جاتا ہے مگر یہ صرف ایک دن میں حل ہونے والا مسئلہ نہیں ہے۔ ہمیں سال بھر اس پر کام کرنا ہوگا اور لوگوں کی تربیت کرنا ہوگی۔ ’’انا‘‘ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے انسان کسی دوسرے کو سننے یا سمجھنے کیلئے تیار نہیں ہوتا۔ مجموعی طور پر معاشرے کا جائزہ لیا جائے تو ہمارے ہاں یہ رجحان کافی زیادہ ہے۔ گھر ایک بنیادی تربیت گاہ ہے۔ اگر خاندان کا جائزہ لیا جائے تو جس طرح کے معاملات وہاں ہوتے ہیں اس کے اثرات بچوں اور معاشرے پر پڑتے ہیں۔ اسی طرح بچوں کی تلخ زبان کو والدین پیار میں سراہتے ہیں جس سے مستقبل میں مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ یہی ماحول پھر گلی، محلوں اور تعلیمی اداروں میں بھی نظر آتا ہے لہٰذا ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ان مسائل کا حل کہاں سے شروع کرنا ہے۔

اگر بچے کو گھر سے ہی ایک دوسرے کو تسلیم کرنے اور سننے کی تربیت دی جائے تو معاشرے میں برداشت پیدا کی جاسکتی ہے۔ ہم نے ملکی سطح کا ایک پراجیکٹ کیا جس کا مفروضہ یہ تھا کہ اگر ہمارے ہاں آرٹ اینڈ کلچر کی سرگرمیوں میں لوگوں کی شمولیت بڑھ جائے تو وہ ایک دوسرے کے کلچر کو تسلیم کرنے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں لہٰذا اگر ملک میں بسنے والے مختلف کلچر کے افراد کو ایک دوسرے کے کلچر کو سمجھنے کے مواقع دیے جائیں تو بہتری لائی جاسکتی ہے۔ ہماری تحقیق کے مطابق جن علاقوں میں آرٹ اینڈ کلچر کی سرگرمیاں زیادہ ہوتی ہیں وہاں کے لوگوں میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا مادہ زیادہ ہوتا ہے لہٰذا آرٹ اینڈ کلچر کے فروغ سے معاشرے سے عدم برداشت کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔

ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم دوسروں کی تضحیک کے لیے ان پر تنقید کرتے ہیں، اگر تنقید برائے اصلاح کی جائے تو بہتری آسکتی ہے۔ طلبہ کی کردار سازی کیلئے تعلیمی نصاب میں ایسا مواد شامل کرنے کی ضرورت ہے جس سے ان میں تنازعات سے بہتر طریقے سے نمٹنے کی صلاحیت پیدا ہو اور وہ ایک پرامن شہری کے طور پر اپنا کردار ادا کریں۔ نہم جماعت کے نصاب میں خواتین پر تشدد کے خلاف مضمون شامل کیا گیا ہے جو خوش آئند ہے، اگر اسی طرز پر دیگر معاشرتی مسائل کو بھی تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جائے تو معاشرے میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ ہمیں بطور رول ماڈل بچوں کی تربیت کرنا ہوگی اور انہیں عملی طور پر وہ سب کرکے دکھانا ہوگا جس کی ہم ان سے توقع کررہے ہیں۔ حکومت اکیلے عدم برداشت جیسے مسائل کا خاتمہ نہیں کرسکتی، اس کے لیے سول سوسائٹی، میڈیا و تمام سٹیک ہولڈرز کو مل کر کام کرنا ہوگا۔

 سلمان عابد
(سیاسی تجزیہ نگار)

عدم برداشت کے رجحان کی وجہ سے دنیا میں ہمارا تاثر ایک غیر مہذب معاشرے کے طور پر جارہا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں عدم برداشت بڑھتا جارہا ہے جسے بعض افراد مذہبی انتہا پسندی سے جوڑتے ہیں جبکہ میرے نزدیک مسئلہ محض مذہبی انتہا پسندی کا نہیں بلکہ سیاسی، سماجی اور معاشی انتہاپسندی بھی ہے۔ اگر ان تمام پہلوؤں کا جائزہ لیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ کس طرح ہمارے لوگوں میں عدم برداشت کا کلچر سرائیت کر گیا۔ تعلیم اور تربیت کا آپس میں گہرا تعلق ہے ۔ تربیت کے بغیر تعلیم اور تعلیم کے بغیر تربیت کا عمل مکمل نہیں ہوتا مگر بدقسمتی سے ہمارے سرکاری و غیر سرکاری تعلیمی اداروں میں تربیت کا فقدان غالب آرہا ہے جبکہ سوک ایجوکیشن بھی اب تعلیمی نصاب کا حصہ نہیں ہے۔

تربیت کا فقدان ہونے کی وجہ سے لوگوں میں رہن سہن کے آداب نہیں ہیں اور ہر شخص میں غصہ ہے۔ سماجی انصاف نہ ملنے کی وجہ سے لوگوں میں غصہ اور نفرت پیدا ہوتا ہے بلکہ اب لوگ قانون کی حکمرانی تسلیم کرنے کے بجائے اپنے معاملات خود لیڈ کرنا چاہتے ہیںجس کے منفی اثرات سامنے آرہے ہیں۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہماری حکومتیں پرُامن مطالبات کو تسلیم نہیں کرتی اور جب تک لوگ سڑکوں پر نہیں آتے تب تک ان کے مسائل حل نہیں ہوتے۔ حکومت خود لوگوں کو تشدد کی طرف راغب کرتی ہے لہٰذا اس طرف توجہ دینا ہوگی۔غصے کا اظہار، بلند آواز میں بات کرنا، لعن طعن کا کلچر، ایک دوسرے کی کردار کشی کرنا ہمارے ہاں کامیاب ماڈل بن گیا ہے۔لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر کسی پر غالب آنا ہے یا اپنی بات منوانی ہے تو یہ سب کرنا ہوگا۔ جمہوریت ایک مثالی نظام ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کس طرز کی جمہوریت چل رہی ہے۔ ہمارے سیاسی رہنما کس زبان میں بات کررہے ہیں ، اپنے ورکرز کی تربیت کس طرح کر رہے ہیں اور لوگوںکو کیا راستہ دکھا رہے ہیں؟ جون ایلیاء کا ایک مشہور مقولہ ہے کہ ’’آؤ اختلافات پر اتفاق کر لیں‘‘۔ یعنی آپ کا اور میرا اختلاف رہے گا لیکن یہ بھی اتفاق ہونا چاہیے کہ ہم مل جل کر رہ سکتے ہیں۔

ڈائیورسٹی کے معاشرے کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ اس میں مختلف مذاہب، رنگ، نسل، برادری و خیالات رکھنے والے لوگ اکٹھے رہتے ہیں مگر ہمارے ہاں جس طرح کا رویہ برتا جارہا ہے اس سے معاشرہ تنزلی کا شکار ہے۔ افسوس ہے کہ ہم سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں اورلوگوں میں ڈائیلاگ کے ذریعے بات منوانے کا رجحان اب ختم ہوتا جارہا ہے جس کی وجہ حکومت خود ہے۔ ہمارے ہاں تو نابینا افراد کو بھی اپنے مطالبات منوانے کے لیے سڑکوں پر آنا پڑتا ہے۔ بدقسمتی سے معاملات ٹھیک کرنے کیلئے جو اقدامات ہونے چاہئیں وہ ہماری ریاست نے نہیں کیے جس کے باعث ہمارے مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ والدین، اساتذہ، علماء،دانشور اور سیاستدان معاشرے کی تربیت کرتے ہیں مگر اب ان میں بھی برداشت کا مادہ کم ہوتا جارہا ہے جو تشویشناک ہے۔ ہم نوجوانوں میں عدم برداشت کی بات کرتے ہیں مگر ہمارے بڑوں میں بھی برداشت کم ہے جو بچوں میں منتقل ہورہی ہے اور وہ اسی طرح سے اظہار کرتے ہیں۔ افسوس ہے کہ عدم برداشت کا کلچر ہماری سرشت میں شامل ہوچکا ہے۔

ہم ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں مگر خود احتسابی کیلئے تیار نہیں ہیں۔ملک کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا جس کا ایک حصہ فوج نے کرنا تھا جبکہ دوسرا حصہ جس میں انتہا پسندانہ سوچ کا خاتمہ شامل ہے، سیاسی و سماجی اداروں نے کرنا تھا۔فوج نے تو دہشت گردوں کے ساتھ کامیاب جنگ لڑی مگر دوسرے حصے پر موثر کام نہیں ہوا۔ اس کا تعلق ہمارے تعلیمی اداروں سے ہے جہاں تربیت کا فقدان ہے۔ اگر ہم صحیح معنوں میں ایک مہذب معاشرہ تشکیل دینا چاہتے ہیں تو پہلے ہمیں اپنا احتساب کرنا ہوگا۔ ہم ایک دن میں اس نہج پر نہیں پہنچے بلکہ اس میں سالہا سال کی خرابیاں شامل ہیں۔ ہمارے ہاں سیاسی، مذہبی اور سماجی تقسیم پیدا ہوچکی ہے اور سب نے اسی پیغام کو فروغ دیا کہ ہم ٹھیک ہیں اور باقی سب غلط۔ اس سے معاشرہ بری طرح تقسیم ہوچکا ہے۔

جس کی وجہ سے عدم برداشت کا رجحان زیادہ ہوگیا ہے، ہمیں اس پر توجہ دینا ہوگی۔ میرے نزدیک ہمیں سائیکالوجیکل فریم ورک کا ازسر نو جائزہ لینا ہوگا۔ تعلیمی نصاب میں برداشت جیسے اہم موضوعات کو شامل کرنا ہوگا اور تعلیمی اداروں میں ایسی سرگرمیاں کروانا ہوں گی جس سے طلباء میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا رویہ پروان چڑھ سکے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ حکومت اکیلے عدم برداشت جیسے چیلنج سے نہیں نمٹ سکتی لہٰذا جب تک علماء، اساتذہ، دانشور، شاعر، ادیب ، سیاستدان سمیت تمام لوگ جو رائے عامہ کو فروغ دیتے ہیں، قومی بیانیے کو فروغ نہیں دیں گے تب تک کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔ معاشی تقسیم نے لوگوں میں نفرت پیدا کردی ہے۔

ہمارے سماجی انصاف کے ادارے لوگوں کو انصاف دینے میں ناکام ہو چکے ہیں جس کے باعث لوگوں میں بغاوت پیدا ہوتی ہے اور وہ اپنے غم و غصے کا اظہار پرتشدد ریلیوں و احتجاج کی صورت میں کرتے ہیں۔ میرے نزدیک ہمیں اپنی پالیسیوں کا از سر نو جائزہ لے کر جامع ضابطہ اخلاق تیار کرنا ہوگا جو پارلیمنٹ سے لے کر نچلی سطح تک لاگو ہو،اگر ایسا ہوگیا تو معاشرہ بہتر ہوجائے گا۔ نوجوانوں کو اس میں شامل کرنے کیلئے سوشل میڈیا کو بطور طاقت استعمال کیا جائے اور وہاں موجود خرابیوں کو دورکیا جائے تاکہ برداشت سے بھرپور معاشرہ تشکیل دیا جاسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔