دنیا ہم سے خوفزدہ ہے یا آپ سہمے ہوئے ہیں؟

زوہیب اختر  منگل 11 جون 2019
اگر آدھا ہاتھ ملانے کی عادت سے ملکوں کو خطرات لاحق ہوتے تو امریکا، ٹرمپ کی وجہ سے اب تک صفحۂ ہستی سے مٹ چکا ہوتا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اگر آدھا ہاتھ ملانے کی عادت سے ملکوں کو خطرات لاحق ہوتے تو امریکا، ٹرمپ کی وجہ سے اب تک صفحۂ ہستی سے مٹ چکا ہوتا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے صدر ہیں۔ یہ 14 جون 1946 کو امریکی شہر نیویارک میں پیدا ہوئے اور 70 سال کی عمر میں دنیا کے سب سے طاقتور ملک کے صدر منتخب ہوئے۔ یہ دنیا کے سب سے طاقتور انسان ہیں اور دنیا میں اس وقت اس پاور بریکٹ میں کوئی نہیں آتا۔ امریکی عوام نے نومبر 2016 میں ٹرمپ کو امریکا کا صدر منتخب کیا اور اس سے پہلے یہ 3 بلین ڈالر کی کل مالیت کے ساتھ امریکا کی نامور اور مشہور ترین شخصیات میں شمار کیے جاتے تھے۔

الیکشن مہم کے دوران ان سے سوال کیا جاتا تھا کہ وہ زندگی میں کس کس موڑ پر ناکام ہوئے تو ان کا جواب ہوتا کہ وہ کبھی ناکام نہیں ہوئے۔

انہوں نے 1968 میں 22 سال کی عمر میں وارٹن اسکول یونیورسٹی پنسلوانیا سے معاشیات میں بی ایس کی ڈگری حاصل کی اور ساتھ ہی اپنے کاروبار ’’ایلزبتھ ٹرمپ اینڈ سنز‘‘ کو سنبھال لیا۔ کامیابیاں ان کے قدم چومتی رہیں اور جلد ہی وہ امریکا کی امیر ترین اور بارسوخ شخصیات کی فہرست میں شامل ہوگئے۔ 41 سال کی عمر میں انہوں نے امریکا کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ڈیموکریٹک میں شمولیت اختیار کی۔ یہاں سے ان کا سیاسی سفر شروع ہوا، جو انہیں نومبر 2016 تک ریپبلکن پارٹی کی طرف سے امریکا کا صدر منتخب ہونے تک لے آیا۔

الیکشن مہم کے دوران ان کی نجی و کاروباری زندگی اور عام امریکیوں کے مسائل سے ناآشنائی کے بارے میں سوال کیے جاتے تھے، لیکن وہ امریکی عوام کو قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

آج دنیا ٹرمپ کو جن نظروں سے بھی دیکھے لیکن امریکیوں کےلیے وہ امریکا کی تاریخ کے کامیاب ترین صدر بن کر سامنے آئے ہیں۔ اپنے دور حکومت کے ابتدائی دو برسوں میں ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکیوں کےلیے 40 لاکھ نوکریاں مہیا کیں، جو گزشتہ حکومت سے 35 فیصد زیادہ شرح تھی اور امریکا کی تاریخ میں سب سے زیادہ۔ ترقی کی شرح جو گزشتہ حکومت میں 1.6 فیصد تھی، وہ ٹرمپ حکومت کے پہلے سال میں 3 فیصد ہوگئی۔ امریکیوں کی ہفتہ وار تنخواہوں میں پہلے سال 40 فیصد اضافہ ہوا اور بے روزگاری کی شرح، جو 13 فیصد کم تھی، 23 فیصد کمی کے ساتھ امریکی تاریخ میں پہلی بار ریکارڈ ہوئی۔ خواتین کی بے روزگاری کی شرح 65 فیصد کم اور نوجوانوں کی بے روزگاری کی شرح 50 فیصد کم ہوئی۔

امریکا میں صحت کے شعبے پر خصوصی توجہ دی گئی۔ واک اِن کلینکس متعارف کروائے گئے۔ محکمہ تعلیم بہتر ہوا۔ احتساب کے نئے ادارے اور قوانین بنائے گئے۔ غیر ضروری سرکاری اداروں کو ختم کیا گیا۔ جرائم میں واضح کمی آئی۔ دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ نہیں ہونے دیا گیا۔ کھیلوں کے معاملے میں 2028 کے اولمپکس مقابلوں کا معاہدہ طے پایا۔ فیفا 2026 عالمی کپ کی میزبانی کا معاہدہ جیتا گیا۔ دفاعی اخراجات میں 700 بلین ڈالر کی بچت کرنے کے باوجود اسپیس فورس کے نام سے فوج تشکیل دی گئی۔ دوسرے ممالک میں لڑی جانے والی جنگوں سے جان چھڑائی جارہی ہے۔ یہ اور ایسے بے شمار اقدامات ہیں جن کی وجہ سے لڑکھڑاتا ہوا امریکا آج دوبارہ معاشی محاذ پر چین کے مقابلے میں آن کھڑا ہے اور چین کو معاشی سپر پاور نہیں بننے دے رہا۔

یہ کالم بھی پڑھیے: دنیا ہم سے خوفزدہ ہے

گزشتہ دنوں ملک کے سب سے معروف، معتبر اور نامور صحافی کا کالم نظر سے گزرا جن کی میں بہت عزت کرتا ہوں۔ انہوں نے ملک کی موجودہ تباہ حالی کو وزیراعظم کے آدھا ہاتھ ملانے کی عادت سے منسوب کیا اور تمام ناکامیوں کی ذمہ داری وزیراعظم کے جوتے پہن کر مدینہ جانے کو قرار دیا۔

ناکامی کو آپ نے روایتی طور پر کامیابی کی پہلی سیڑھی بتایا اور دودھ، چینی اور سبزی خریدنے کو بجٹ بنانے کی کوالیفکیشن۔ بھٹو امیر اور اناپرست ہونے کے باوجود آپ کےلیے بہت بڑے لیڈر تھے لیکن ان ہی خصوصیات کی بنا پر عمران خان آپ کی نظر میں ملک کےلیے خطرہ ہیں۔ میرا مقصد صرف ان پر یہ واضح کرنا ہے کہ بجٹ بنانے کےلیے وزیراعظم کا دودھ اور سبزی خریدنے جانا لازمی نہیں اور نہ ہی بجٹ وزیراعظم تن تنہا بیٹھ کر خود بناتے ہیں۔

ناکامیاں انسان کو کامیاب ہونے کےلیے سبق سکھاتی ہیں لیکن کامیابی کی شرط نہیں۔ کسی انسان کے آدھا ہاتھ ملانے کی عادت سے ملکوں کو خطرات لاحق ہوتے تو امریکا، ٹرمپ کے زیر صدارت اب تک صفحۂ ہستی سے مٹ چکا ہوتا۔ اگر بھٹو اناپرست ہو کر بھی بڑا لیڈر ہوسکتا ہے، ٹرمپ اناپرست ہوکر بھی امریکا کےلیے ترقی کی راہ ہموار کرسکتا ہے تو اناپرستی کی بنیاد پر آپ کسی اور کی بھی قائدانہ صلاحیتوں پر سوال نہیں اٹھاسکتے۔

دنیا میں قوموں کی زندگی بدلنے والے سبھی قائد چھوٹے قصبوں، غریب خاندانوں اور ناکامیوں کے راستوں سے ہی نہیں نکل کر آئے، بلکہ قائدانہ صلاحیت خدا کی بخشش ہے اور وہ جسے چاہے نواز دیتا ہے۔

دنیا ہم سے خوف زدہ ہے یا آپ سہمے ہوئے ہیں؟ فیصلہ خود کرلیجیے!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

زوہیب اختر

زوہیب اختر

بلاگر سوشل میڈیا پیج ایڈمن ہونے کے ساتھ ساتھ شاعری بھی فرماتے ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے اکاؤنٹنٹ ہیں اور بسلسلہ ملازمت آج کل متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔