پی پی دور حکومت میں 19 کروڑ روپے مالیت کی گاڑیاں من پسند افراد میں بانٹی گئیں، رپورٹ

ویب ڈیسک  اتوار 1 ستمبر 2013
وزارت پیداوار نے سابق وزیراعظم کے حکم پر سیاستدانوں اور غیر سرکاری تنظیموں کو قومی خزانے سے کوچز، بسیں اور آٹو رکشے خرید کر دے دیے۔ فوٹو فائل

وزارت پیداوار نے سابق وزیراعظم کے حکم پر سیاستدانوں اور غیر سرکاری تنظیموں کو قومی خزانے سے کوچز، بسیں اور آٹو رکشے خرید کر دے دیے۔ فوٹو فائل

اسلام آباد: پیپلز پارٹی کے دورحکومت میں وزارت پیداوار نے 19 کروڑ روپے کی گاڑیوں اور بسوں کی بندر بانٹ کی، بہتی گنگا میں فردوس عاشق اعوان اور نبیل گبول سمیت بہت سے لوگوں نے ہاتھ دھوئے۔

وزارت پیداوار نے سابق وزیراعظم کے حکم پر سیاستدانوں اور غیر سرکاری تنظیموں کو قومی خزانے سے کوچز، بسیں اور آٹو رکشے خرید کر دے دیے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ وزارت پیداوار کی جانب سے قواعد کے برعکس کروڑوں روپے کی مالی بے ضابطگیوں سے مستفید ہونے والوں میں کوئی اور نہیں سابق وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان اور رکن قومی اسمبلی نبیل گبول بھی شامل ہیں۔

وزارت پیداوار نے 2010 سے 2012 کے دوران سابق وزیر اطلاعات کو اپنے حلقے میں تقسیم کرنے کے لئے 2 کروڑ 65 لاکھ روپے مالیت کی 33 سیٹوں  والی 6 کوچز خرید کر دیں جب کہ سیالکوٹ  کے حلقہ این اے 111 میں خواتین کو ٹرانسپورٹ کی سہولت دینے کے لئے 2 کروڑ 97 لاکھ روپے مالیت کی 53 سیٹوں والی 6 بسیں بھی خرید کر دی گئیں۔

آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رکن قومی اسمبلی نبیل گبول کے لئے بھی 3 کروڑ 31 لاکھ روپے سے زائد مالیت کے 200 سی این جی آٹو رکشے خریدے گئے۔ مظفر گڑھ میں بے نظیر بھٹو ویلفیئر آرگنائزیشن کو 48 لاکھ روپے مالیت کی بس سے نواز گیا۔ کراچی کی این جی اوز بھی وزرات پیداوار کی نوازشات سے مستفید ہوئیں، غیر سرکاری تنظیموں کو 9 کروڑ روپے سے زائد مالیت کی 12 بسیں، 2 ڈبل کیبن اور 6 سنگل کیبن گاڑیاں خرید کر دی گئیں۔

آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وزارت پیداوار نے بسیں، کوچز، رکشے اور ڈبل کیبن گاڑیاں کن قواعد کے تحت خریدیں اور تقسیم کیں ان کی تفصیل فراہم نہیں کی گئی۔ آڈٹ حکام نے جب وزارت پیداوار سے اس حوالے سے پوچھ گچھ کی تو جواب دیا گیا کہ تمام اخراجات سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے احکامات پر کئے گئے۔

آڈیٹر جنرل آف پاکستان کا کہنا ہے کہ بسیں، گاڑیاں اور رکشے خریدنا وزارت پیداوار کا کام نہیں ہے۔ آڈیٹر جنرل نے سفارش کی ہے کہ ان تمام خریداریوں کا جواز پیش کرنے کے لئے ٹرانسپورٹ کی تقسیم اور اس سے مستفید ہونے والوں کی مکمل فہرست پیش کی جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔