پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ

ایڈیٹوریل  اتوار 1 ستمبر 2013
حکومت نے ایک بار پھر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 2.31 روپے فی لیٹر سے دس روپے فی لیٹر تک اضافہ کر دیاہے۔ فوٹو: فائل

حکومت نے ایک بار پھر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 2.31 روپے فی لیٹر سے دس روپے فی لیٹر تک اضافہ کر دیاہے۔ فوٹو: فائل

حکومت نے ایک بار پھر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 2.31 روپے فی لیٹر سے دس روپے فی لیٹر تک اضافہ کر دیاہے جس کے بعد پٹرول ایک سو نو روپے چودہ پیسے، ہائی اسپیڈ ڈیزل ایک سو بارہ روپے چھبیس پیسے، مٹی کا تیل ایک سو پانچ روپے ننانوے پیسے ہو گئی ہے۔گزشتہ تین مہینوں میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں چوتھی بار اضافہ کیا گیا ہے حالانکہ ارباب اختیار بخوبی جانتے ہیں کہ  پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں رد و بدل سے پورے ملک کی معیشت اتھل پتھل ہو جاتی ہے اور ٹرانسپورٹر اور تاجر اپنی قیمتوں میں من مانا اضافہ کر دیتے ہیں ۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اوگرا نے سابقہ قیمتیں برقرار رکھنے کے لیے سفارش کی تھی جسے وزارت پٹرولیم نے مسترد کر دیا۔

تاہم وزیر اعظم کی ہدایت پر ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں تجویز کردہ 3.57روپے کے اضافہ کے بجائے 2.50 روپے فی لیٹر اضافہ کیا گیا۔ وزیر اعظم نے ہائی اسپیڈ ڈیزل پر مزید ایک روپے سات پیسے فی لیٹر سبسڈی دینے کی ہدایت کی ہے جس کے باعث ہائی اسپیڈ ڈیزل پر حکومت کی طرف سے دی جانیوالی سبسڈی بڑھ کر 3.63 روپے فی لیٹر ہو گئی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے ایک اور بوالعجبی جو مسلسل نظر آ رہی ہے وہ ہے روپوں کے ساتھ عشاریہ لگا کر آگے پیسوں کا ذکر حالانکہ یہ حقیت اظہر من الشمس ہے کہ ملک میں اس وقت روپے سے چھوٹا اور کوئی سکہ ہی نہیں ہے۔

یعنی صارفین کو چند پیسوں کے اضافے کی صورت میں پورا روپیہ ادا کرنا پڑے گا لیکن روزانہ کے کروڑوں اربوں  لیٹر پٹرول کی فروخت میں عوام کے کتنے کروڑ یا ارب روپے کا خسارہ ہوتا ہے اس کا حکمرانوں کو کوئی احساس ہی نہیں۔ ایک اور اہم سوال جواب طلب ہے وہ یہ کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں اضافہ عالمی مارکیٹ میں اضافے کے بہانے سے کیا جاتا ہے لیکن جو بہت سا تیل اندرون ملک بھی پیدا ہوتا ہے لیکن عالمی قیمتوں کا اطلاق اس تیل پر تو نہیں کیا جانا چاہیے۔

انھی کالموں میں متعدد بار یہ تجویز پیش کی جا چکی ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو بار بار بڑھانے کے بجائے انھیں ایک برس تک قائم رکھا جائے تا کہ دیگر اشیائے ضرورت کی قیمتیں بھی مستحکم رہ سکیں اور ٹرانسپورٹروں کو بھی کرائے بڑھانے کا جواز نہ رہے۔بھارت میں تیل کی قیمت سالانہ میزانیہ میں ہی بڑھتی یا کم ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ بھارت میںمعاشی سرگرمیوں میں استحکام رہتا ہے۔ پاکستان کے پالیسی سازوں کو اس طریقے کو اختیار کرنا چاہیے۔پاکستان میں اب سالانہ میزانیہ کی حیثیت صرف اتنی رہ گئی ہے کہ اس میں ٹیکسوں کی شرح ہی ہوتی ہے، عام اشیاء کے نرخوں پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز میں مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔