وہی بھیڑیے اور میمنے کی کہانی

زمرد نقوی  اتوار 1 ستمبر 2013

شام کی صورت حال سنگین سے سنگین تر ہو رہی ہے۔ وہاں جو کچھ ہونے جا رہا ہے اس کے اثرات پاکستان سمیت پورے خطے پر مرتب ہوں گے۔ شام پر متوقع حملے کی فوری وجہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال قرار دیا جا رہا ہے۔ شامی باغی جن کا حامی امریکا اور اس کے اتحادی ہیں، ان میں یورپی ممالک کے علاوہ اسرائیل اور سعودی عرب اوردیگر عرب بادشاہتیں بھی شامل ہیں، یہ سب کیمیاوی ہتھیاروں کا الزام بشار الاسد حکومت پر لگا رہے ہیں جب کہ شام کی حکومت نے کہا ہے کہ باغیوں کے زیر استعمال رہائشی یونٹوں سے کیمیائی ہتھیار ملے ہیں۔

سرکاری ٹی وی کے جاری کردہ فوٹیج میں دکھایا گیا ہے کہ فوج جب باغیوں کے زیر استعمال گھروں میں داخل ہوئی تو فوجی اہلکار بھی دم گھٹنے کا شکار ہو گئے اور انھیں سانس لینے میں شدید دشواری ہوئی۔ ان متاثرہ فوجیوں میں سے بعض کی حالت تشویش ناک ہے۔ کہانی وہی ہزاروں سال پرانی ہے۔ بھیڑیے اور میمنے کی کہانی پھر سے دہرائی جا رہی ہے اور یہ اس وقت تک دہرائی جاتی رہے گی جب تک  دنیا میں طاقتور اور کمزور موجود ہے ۔ جب تک مظلوموں کی اکثریت قلیل تعداد میں ظالموں پر غالب نہیں آ جاتی، اس وقت تک ظلم کا یہ نظام نہیں بدلے گا جو ہزاروں سال سے جاری ہے۔

شام کی صورت حال ڈرامائی طور پر روزانہ بدل رہی ہے۔ امریکی وزیر دفاع کی طرف سے کہا گیا کہ شام پر فوری حملہ ہونے والا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وائٹ ہائوس نے بیان جاری کیا کہ فوجی حملہ دیگر آپشنز میں سے ایک ہے۔ شام پر حملے کے حوالے سے امریکا کے اتحادیوں میں پھوٹ پڑ گئی ہے برطانیہ جو امریکا کا انتہائی اہم اتحادی ہے اس کی پارلیمنٹ نے شام پر حملے کی مخالفت کر دی ہے۔ یہی حال اٹلی جرمنی کا ہے۔ برطانوی وزیر اعظم نے کہا ہے کہ وہ اس کے باوجود شام پر حملے میں امریکا کا ساتھ دیں گے۔ یہی حال فرانس کا ہے کہ وہ اندرونی مخالفت کے باوجود شام پر امریکی حملے کی ہر صورت حمایت کرے گا۔ ادھر امریکا نے کہا ہے کہ کوئی ساتھ دے یا نہ دے وہ اکیلا ہی شام پر حملے کے لیے کافی ہے۔

امریکا، برطانیہ اور دوسرے یورپی ممالک میں شام پر حملے کے خلاف وہاں کے عوام مظاہرے کیوں کر رہے ہیں، انھیں پتہ ہے کہ ان کی حکومتیں بشار الاسد پر جو الزامات لگا رہی ہیں وہ  جھوٹ پر مبنی ہیں کیونکہ ایسے ہی بے شمار جھوٹے الزامات وہ ایران عراق کے حوالے سے بھی لگا چکے ہیں۔ دوسری طرف مسلم دنیا پر سکوت مرگ طاری ہے اور وہ ہمیشہ کی طرح  خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ مسلمانوں کو مذہب کے نام پر تقسیم کر دیا گیا ہے۔مختلف گروہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ رہے ہیں۔ ان حرکتوں سے عام مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ان سے بدظن ہو گئی ہے۔ نتیجہ اس کا یہ نکلا ہے کہ جب مذہب کے علمبردار گروہوں پر  جارحیت ہوتی ہے تو لوگ لاتعلق ہو جاتے ہیں یا وہ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ یہ سب ان کے کیے کا ہی ردعمل ہے۔ یہ صورت حال افسوسناک ہی نہیں المناک ہے۔ مسلمانوں کے درمیان اس پھوٹ کا فائدہ ان کے دشمن  اٹھا رہے ہیں کیونکہ وہ چاہتے بھی یہی تھے۔ اس کا حل یہی ہے کہ  انتہا پسند گروہ مسلک کی بنیاد پر دوسرے مسلمان کی گردن کاٹنے سے باز آ جائیں ورنہ وہ چن چن کر مارے جائیں گے اور دوسرے مسلمان ان کا تماشا دیکھیں گے۔

مذہب کے نام پر جو انتہا پسندی آج سے تیس سال پہلے شروع ہوئی، اس نے مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا ہے۔ امریکا نے مسلمانوں کو مذہبی جنون میں مبتلا کر کے اپنے سب سے بڑے دشمن سوویت یونین کو جو سرمایہ دارانہ نظام کا دشمن تھا جس کے نتیجے میں آج دنیا کی پانچ ارب سے زائد آبادی کو ایک وقت کی روٹی بہ مشکل میسر ہے کا خاتمہ کر دیا۔ اس جنگ میں لاکھوں مسلمان مارے گئے، کروڑوں تباہ برباد ہوئے اور سارے کا سارا فائدہ امریکا کو مل گیا کہ وہ پوری دنیا کا بلا شرکت غیرے مالک بن گیا۔ اس میں امریکا کی مدد گار ہماری مذہبی جماعتیں تھیں جو اس نیک کام میں امریکا کے ساتھ تھیں۔ آج یہی جماعتیں پاکستانی عوام سے اپنے ماضی کو چھپانے کے لیے امریکا مردہ باد کے نعرے لگا رہی ہیں۔ مذہبی جنونیت اچھے بھلے انسان کی عقل کو مائوف کر دیتی ہیں۔ اس طرح وہ ملک دشمن اور مسلمان دشمن قوتوں کا آسان شکار بن جاتا ہے۔

سوویت یونین کے خاتمے کے بعد، بقول نیٹو کے ایک سابق سیکریٹری جنرل کے، امریکا کا سب سے بڑا ہدف مسلمان ہیں۔ ان کو غلام اسی طرح بنایا جا سکتا ہے کہ ان پر مسلسل جنگیں مسلط رکھی جائیں اور پچھلے تیس سال سے یہی کچھ ہو رہا ہے اور یہ نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ اگلی کئی دہائیوں تک مسلمانوں پر جنگ مسلط رکھی جائے گی، ایک حکمت عملی کے تحت یعنی ایک تو مسلمان ملکوں میں بیرونی طور پر جنگیں مسلط کی جائیں گی، دوسری  فرقہ وارانہ فسادات کرائے جائیں گے جو آخر میں مسلمانوں کے درمیان اور مسلمان ملکوں میں مذہبی جنگ میں بدل جائیں گے۔ یعنی اندرونی و بیرونی دونوں طرف سے مسلمانوں کو کاٹا جائے گا۔یورپ کے تاریک دور میں عیسائیت کے دو فرقوں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ نے ایک دوسرے کے کروڑوں آدمی مارے دیے،  اب یہ سازش مسلمانوں کے ساتھ ہو رہی ہے۔

آج یہی مذہبی جنونیت شام کے معاملے میں پھر سے عروج پر ہے۔ سامراجی میڈیا نے شام کی جنگ کو مذہبی جنگ بنا دیا ہے جس طرح سوویت یونین کے خلاف لڑائی کو جہاد قرار دے کر مسلم دنیا کو بے وقوف بنایا گیا۔ شامی باغی دانستہ یا نا دانستہ امریکی ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں جن کے ذریعے امریکا اور اسرائیل شام پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ شام پر قبضہ بذات خود کوئی مقصد نہیں بلکہ اس کے ذریعے مشرق وسطیٰ سے پاکستان تک ایسی ہولناک تبدیلیاں لائی جائیں گی جن کے بارے میں سوچ کر بھی خوف آتا ہے۔ اس کے لیے زمین ہموار ہو چکی ہے۔ ان تبدیلیوں کے لیے تمام عوامل پچھلے 30 سال سے اس خطے میں جاری جنگ نے مہیا کر دیے ہیں۔ وہ جنگ جس نے مذہب کا نقاب اوڑھا ہوا ہے۔

شام پر حملے کے حوالے سے 4 سے 9,8 ستمبر اہم تاریخیں ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔