بس میں بے بسی کا عالم

ایس نئیر  اتوار 1 ستمبر 2013
s_nayyar55@yahoo.com

[email protected]

میں سی این جی کے ناغے کو کوستے ہوئے اور اپنی پرانے ماڈل کی اسکوٹر کو یاد کرتے ہوئے بس میں داخل تو ہوگیا، لیکن بس کا اندرونی منظر دیکھ کر مجھے مرغیوں کا وہ کریٹ نہ جانے کیوں یاد آگیا، جس میں مرغیاںاس طرح ٹھونس دی جاتی ہیں کہ ایک کی چونچ دوسری کے پروں میں گھسی ہوتی ہے۔ حبیب اﷲ نے اب تک میرا ہاتھ تھاما ہوا تھا اور میں ان کے پیچھے ایسے چل رہا تھا جیسے نرسری کلاس کا بچہ پہلے دن اپنے باپ کے ساتھ اسکول کی طرف جاتا ہے۔ حبیب اﷲ نے میرا ہاتھ چھوڑ کر میرے کان میں سرگوشی کی ’’ میرے پیچھے پیچھے چلے آئیں‘‘۔ میں اب تک حیران تھا کہ حبیب اﷲ مجھ سمیت آخر کس طرح اس بس میں در آئے تھے، میں ان کے تجربے کو داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔ اب اس کی دونوں کہنیاں چپوئوں کی طرح چل رہی تھیں، وہ کشتوں کے پشتے لگاتے ہوئے مسلسل آگے بڑھ رہے تھے اور میں ان کے نقش قدم پر احتیاطاً ایک کہنی کا فاصلہ رکھ کر آگے بڑھ رہا تھا۔

میں نے دیکھا کہ وہ راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو اپنے قدموں تلے روندتے ہوئے مسلسل آگے کی طرف رواں دواں تھے، یہ رکاوٹ کسی مسافر کی توند بھی ہوسکتی تھی، کمر بھی، ٹوپی بھی اور پاؤں بھی۔ وہ دونوں جانب قطار میں کھڑے مسافروں کی نہ تو چیخ و پکار پر دھیان دے رہے تھے اور نہ ہی گالیوں پر۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور حیران رہ گیاکہ حبیب اﷲ کے پیروکاروں کی ایک پوری قطار میرے پیچھے چلی آرہی ہے۔ حبیب اﷲ کی منزل وہ جنگلہ تھا جو لیڈیز اور جینٹس کمپارٹمنٹ کو علیحدہ کرتا تھا۔ اچانک میری نظر کنڈیکٹر پر پڑی، وہ تحسین آمیز نظروں سے حبیب اﷲ کی اس پیش قدمی کو دیکھ رہا تھا اور مسلسل آواز لگا رہا تھا ’’آگے آجاؤ جوان، آگے آجاؤ، بہت جگہ ہے۔‘‘ کسی دل جلے کی آواز آئی ’’ابے اب جگہ کہاں ہے؟‘‘ کنڈیکٹر نے رٹا رٹایا ہوا پرانا جواب دیا ’’جگہ دل میں ہونی چاہیے۔ چلے آؤ جوان، شاباش‘‘۔ کنڈیکٹر خوش تھا کہ بغیر کسی محنت کے بس میں تیسری لائن حبیب اﷲ کی قیادت میں خود بخود وجود میں آرہی تھی۔

مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے ہم بس میں نہیں بلکہ محاذ جنگ پر دشمن کے علاقے میں یلغار کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ آخر کار ہم منزل پر پہنچ گئے۔ اب صورتحال یہ تھی کہ بس کی چھت میں نصب دونوں اطراف میں سیٹوں کے اوپر جو ڈنڈے کھڑے ہونے والے مسافروں کے پکڑنے کے لیے لگائے گئے تھے وہ بھی ہاتھ کے پنجوں سے جیم پیک تھے۔ دونوں طرف کے ڈنڈے اتنی دور نصب کیے گئے تھے کہ کھڑے ہوئے مسافر، سیٹ پر بیٹھنے والے مسافروں کے اوپر سایہ فگن تھے۔ دونوں اطراف کے کھڑے ہوئے مسافروں کے جسم ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ حبیب اﷲ نے پھر میرے کان میں کہا ’’یہاں ہم محفوظ ہیں، گیٹ کے قریب یا درمیان میں اترنے چڑھنے والے جو دھکم پیل کرتے ہیں اس سے مجھے بڑی الجھن ہوتی ہے، اب اگلہ مرحلہ بس کے جھٹکوں سے محفوظ رہنے کے لیے ڈنڈے کو گرفت میں لینا ہے اور ان ہاتھ کے پنجوں کے درمیان جگہ بنانی ہے۔‘‘

میں نے پوچھا ’’کیسے؟‘‘ بولے ’’کسی جھٹکے کے منتظر رہو، جیسے ہی جھٹکا لگے ڈنڈے کو پکڑ لینا یعنی ڈنڈے کو پکڑے ہوئے ہاتھوں پر ہاتھ مار کر جگہ بنانی ہے۔ بس پھر انگلی پکڑ کر کلائی پکڑنے والا محاورہ بروئے کار لانا ہے۔‘‘ لہٰذا ایسا ہی کیا گیا۔ اب ہم دونوں کی گرفت میں بس کا ڈنڈا آچکا تھا۔ وہ پھر بولے ’’اب آخری مسئلہ سیٹ حاصل کرنے کا ہے، اور یہ قسمت اور پھرتی کا کام ہے، قسمت اوپر والے کی مہربانی سے آواز دے گی اور پھرتی ہماری ہوگی۔ دعا کرو کہ کوئی مسافر راستے میں اترنے کے لیے اپنی سیٹ چھوڑ دے۔‘‘ لیکن اس دن شاید ہم دونوں کی قسمت ہی خراب تھی، آخر ی اسٹاپ تک ہمارے قرب و جوار کے کسی مسافر نے اپنی سیٹ چھوڑی ہی نہیں۔

ویسے بھی کھڑے ہوئے مسافر ایک نہیں کئی کئی سیٹوں پر بڑی مستعد نظریں رکھے ہوئے تھے۔ بالکل فٹ بال کے گول کیپر کی طرح جو پورے گول پوسٹ کی چوڑائی پر کڑی نظر رکھ کر بال کو روکنے یا دبوچنے کے لیے اس وقت بے چین و مضطرب نظر آنے لگتا ہے جب مخالف کھلاڑی گول کے نزدیک بال لے کر پہنچتا ہے۔ یہاں بھی سیٹ پر بیٹھا ہوا مسافر اگر پہلو بھی بدلتا تو قرب و جوار کے کھڑے ہوئے مسافروں میں بے چینی کی لہر دوڑ جاتی اور جب وہ مسافر سیٹ نہ چھوڑتا تو یہ لہر مایوسی کی لہر میں تبدیل ہوجاتی۔ اس دوران کنڈیکٹر کرایہ لیتے ہوئے ہر اسٹاپ پر کھڑے مسافروں کو بس میں سوار ہونے کی برابر دعوت دیتے ہوئے اعلان کرتا رہا کہ ’’ بہت جگہ ہے۔‘‘

بس چیونٹی کی رفتار سے رینگ رہی تھی، کنڈیکٹر بار بار مایوسی سے سر ہلا کر کہہ رہا تھا ’’استاد! آج پیسنجر نہیں لگ رہا ہے۔‘‘ اچانک وہ ڈرائیور کو مخاطب کرکے چیخا ’’استاد وہ آگے آگے ’چوہا‘ ٹہل رہا ہے۔‘‘ چوہا غالباً اسی روٹ کی اگلی بس کے ڈرائیور کا نام تھا۔ پھر اس نے استاد کو مشورہ دیا کہ ’’چوہے کو ادھر ہی کھینچ دو، یہ چل کر نہیں دے گا۔‘‘ استاد نے ایک خوفناک جھٹکے اور خطرناک کٹ کے ساتھ گاڑی کی رفتار طوفانی کردی اور پیسنجر نہ ملنے کی وجہ یعنی چوہے کی گاڑی کو اوورٹیک کیا اور مسلسل تیز رفتاری کے ساتھ اپنے فن کے جوہر دکھانا شروع کردیے۔ اب اترنے والے مسافروں نے چیخ و پکار شروع کردی کیونکہ بس ان کے مطلوبہ اسٹاپ پر رک ہی نہیں رہی تھی، لیکن کنڈیکٹر نے گیٹ کے باہر آدھا لٹک کر جو بس کی باڈی پر طبلہ بجایا تو مسافروں کی فریاد اس نقار خانے میں طوطی کی فریاد بن کر رہ گئی۔

کنڈیکٹر نے استاد کو پھر بتایا کہ ’’آلو گوشت‘‘ طوفان کی طرح سر پر آپہنچا ہے اور چوہا رک گیا ہے۔‘‘ آلو گوشت یقیناً استاد کی پچھلی گاڑی کے ڈرائیور کا نام تھا۔ استاد غالباً آلو گوشت سے بھی ٹکر لینے کا ارادہ کر رہے تھے کہ کنڈیکٹر نے ان کی خدمت میں ایک پیشہ ورانہ مشورہ پیش کردیا۔ کنڈیکٹر نے استاد سے کہا ’’استاد آلو گوشت کو جانے دو، آگے بمپر استاد ہے، آلو گوشت اور بمپر آپس میں لڑ جائیں گے۔ بمپر، آلو گوشت کو چھوڑے گا نہیں اور آلو گوشت رکے گا نہیں، دونوں لازمی لڑیں گے۔‘‘ آلو گوشت نے ایک زناٹے کے ساتھ ہماری بس کو اوورٹیک کیا اور غصیلے انداز میں پریشر ہارن کا برسٹ مارا۔ لیکن استاد کے کانوں پر جوں بھی نہ رینگی، کیونکہ وہاں پہلے ہی چوہا رینگ رہا تھا۔

باقی کا سفر پھر ویسے ہی ’’پرسکون‘‘ انداز میں کٹا، جیسا چوہے سے ملاقات ہونے سے قبل جاری تھا۔ آخرکار پونے دو گھنٹے کے بعد ہم آخری اسٹاپ پر پہنچ کر اتر گئے۔ بے اختیار میرا دل چاہا کہ میں فٹ پاتھ پر ہی سجدہ شکر بجا لاؤں۔ لیکن رش کی وجہ سے یہ ناممکن تھا۔ بس سے اترنے کے بعد میں نے حبیب اﷲ سے پوچھا ’’چوہا، آلو گوشت اور بمپر تو اسی روٹ کی تین گاڑیوں کے ڈرائیوروں کی عرفیت تھی، ہماری بس کے ڈرائیور اور کنڈیکٹر کی عرفیت معلوم نہ ہوسکی۔‘‘ حبیب اﷲ نے انتہائی سنجیدگی سے جواب دیا۔ ’’کنڈیکٹر ’سپیرا‘ اور ڈرائیور کا نام ’بھینسا‘ تھا۔‘‘ میں نے دل ہی دل میں سی این جی کے ناغے کو خراج تحسین پیش کیا، جس کے طفیل آج ایک نئی دنیا اور معلومات کے نئے خزانے سے واقفیت حاصل ہوئی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔