سامراجی حربے

زبیر رحمٰن  اتوار 1 ستمبر 2013
zb0322-2284142@gmail.com

[email protected]

سامراج اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے مختلف حربے استعمال کرسکتا ہے۔ جن میں آج کل اس کا سب سے بڑا حربہ مذہبی رجعت پسندی کا ہے۔ ان حربوں کے ذریعے عالمی سامراج پسماندہ ملکوں کے وسائل کو کوڑیوں کے دام لوٹتا ہے۔ ان میں سب سے اہم اور بنیادی وسائل تیل، معدنیات اور گیس ہے۔ آئیے! اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ بنیاد پرستی کیسے، کب اور کس نے شروع کی اور سامراج کا انجام کیا ہوگا۔ اسلامی ممالک خاص کر مشرق وسطیٰ اور عرب ممالک میں بائیں بازو کے رجحانات اور حکومتوں کو سبوتاژ کرنے کے لیے اسلامی بنیاد پرستی ایجاد کی گئی۔ صدر آئزن ہاور کے عہد میں امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ جان فاسٹر ڈیلس کو جدید اسلامی بنیاد پرستی کا بانی یا موجد کہا جاسکتا ہے۔

مصر میں جمال عبدالناصر اور مشرق وسطیٰ میں بائیں بازو کے دوسرے عوامی رہنماؤں کا ابھار عالمی سامراج کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بجا رہا تھا۔ سوئز کنال کے تنازعے پر مصر کے ہاتھوں برطانیہ اور فرانس کی شکست کے بعد امریکی پالیسی ساز شدید تشویش میں مبتلا تھے۔ چنانچہ عرب میں کمیونزم کا راستہ روکنے کے لیے اسلامی بنیاد پرستی اور Politicali Islam کو پروان چڑھایا گیا۔ ترقی پذیر ممالک میں سماجی بدحالی بڑے پیمانے پر پسماندگی اور نفرت کو جنم دیتی ہے۔ سماج کی یہی پسماندہ پرستی رجعتی نظریات کی علمبردار ہیں جنھیں انقلابی تحریکوں کو سبوتاژ یا کچلنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ سامراج اور تیسری دنیا کے ممالک کی ریاستیں آج بھی رجعتی عناصر کی پشت پناہی میں مصروف ہیں تاکہ بوقت ضرورت انھیں استعمال کیا جاسکے۔

سرد جنگ کے دوران مصر اور شام جیسے ممالک میں بائیں بازو کی حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے کے لیے اخوان المسلمون جیسی بنیاد پرست تنظیموں کا استعمال کیا گیا۔ فلسطینی تحریک آزادی کو سبوتاژ اور تقسیم کرنے کے لیے حماس جیسے جہادی گروہوں کو پروان چڑھایا گیا۔ انڈونیشیا میں شراکت الاسلام اور نہدۃ العلماء جیسی بنیاد پرست تنظیموں نے لاکھوں کمیونسٹوں کے قتل عام میں ریاست کے ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔ افغانستان میں ثور انقلاب کو کچلنے کے لیے ڈالر جہاد کا آغاز کیا گیا اور اس رجعتی جنگ کی مالی ضروریات پوری کرنے کے لیے سی آئی اے نے اسلامی بنیاد پرستوں کو منشیات کی تیاری اور اسمگلنگ کا فن سکھایا۔ اس جہاد کے سیاسی محاذ کے طور پر بعض مذہبی جاعتوں جیسی رجعتی سیاسی جماعتوں کو مالی امداد کے ذریعے مضبوط کیا گیا۔ آج کل شام میں بشارالاسد کے خلاف جاری خانہ جنگی میں ان مذہبی عناصر کو استعمال کیا جارہا ہے۔

غرض یہ کہ اسلامی بنیاد پرستی اور امریکی سامراج ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور ان کا حتمی مقصد استحصالی نظام کی حفاظت اور تسلسل ہے۔ افغانستان میں طالبان امریکا کی آشیر باد سے ہی 1996 میں برسراقتدار آئے تھے لیکن ان کے ساتھ امریکا کے تنازعات تب شدت اختیار کرگئے جب افغانستان گیس پائپ لائن کا ایک منصوبہ امریکی کمپنی کے بجائے ارجنٹائن کی کمپنی کو دے دیا گیا۔ معاملات کو ہاتھ سے نکلتا ہوا دیکھ کر ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے نام پر اکتوبر 2001 میںافغانستان پر چڑھائی کردی گئی جس کے نتیجے میں یہ خطہ تاریخ کے بدترین عدم استحکام کا شکار ہوچکا ہے۔ افغان تنازعے میں کئی فریق ملوث ہیں اور یہ روز بروز پیچیدہ ہوتا جارہا ہے۔

2010 میں کیے گئے زمینی سروے کے مطابق افغانستان کے مختلف علاقوں میں قدرتی گیس، لوہے، کاپر، لیتھیم، کوبالٹ اور سونے سمیت کئی دوسرے معدنیات کے بڑے ذخائر موجود ہیں جن کی مالیت ہزاروں ارب ڈالر ہے۔ امریکا سمیت کئی علاقائی گدھ اس بیش بہا معدنی دولت پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر سال افغانستان سے اربوں ڈالر کی منشیات دنیا بھر میں اسمگل کی جاتی ہے۔ منشیات کے اس نیٹ ورک میں طالبان کے کئی گروہ ملوث ہیں جو بوقت ضرورت اپنی وفاداریاں بدلتے رہتے ہیں۔ اس جنگ میں کوئی بھی قابل اعتماد نہیں ہے اور امریکا بری طرح پھنس چکا ہے۔ طالبان سے قطر میں ہونے والے مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ہی ناکام ہوچکے ہیں۔ آخری تجزیے میں امریکا طالبان سے نہیں بلکہ پاکستان کے ساتھ نبرد آزما بھی ہے اور ساتھ ہی دونوں بہترین دوست بھی ہیں۔ دونوں قوتوں کے مالیاتی تضادات افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام کو بھی تاراج کر رہے ہیں۔

امریکا نہ تو اس جنگ کو جاری رکھ سکتا ہے اور نہ مکمل انخلا کی صورت حال میں اپنے مفادات پر ضرب کاری برداشت کرنا چاہتا ہے۔ امریکا کی فوجی تنصیبات اس وقت دنیا کے مختلف ممالک میں 800 سے زیادہ ہیں اور اتنی بڑی فوجی تنصیبات کو چلانے کے لیے 700 ارب ڈالر سالانہ خرچ کیے جارہے ہیں۔ داخلی طور پر امریکا کا اقتصادی بحران بڑھتا جارہا ہے۔ امریکا کا ریاستی قرضہ جی ڈی پی کے 100 فیصد (16 ہزار ارب روپے) سے تجاوز کرچکا ہے جب کہ تمام تر ذمے داریاں شامل کی جائیں تو کل امریکی قرضہ 59 ہزار ارب روپے سے زیادہ بنتا ہے۔ 2007 سے امریکا کے قومی قرضے میں 3.8 ارب ڈالر روزانہ کا اضافہ ہورہا ہے۔ بجٹ خسارہ 1500 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ دوسرے الفاظ میں امریکا کے سامراجی تانے بانے کو قائم رکھنے کی سکت سرمایہ داری میں ختم ہوتی جارہی ہے۔ لیکن اس صورت میں ہم امریکی سامراج کی ’’پرامن‘‘ موت کی پیش گوئی نہیں کرسکتے۔ ایک درندہ بڑھاپے میں زیادہ خونخوار ہوجاتا ہے۔

سرمایہ داری جس بحران کا شکار ہے اس کے پیش نظر سامراجی قوتیں آنے والے دنوں میں دنیا کے ایک ایک انچ پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے درندوں کی طرح باہم برسر پیکار ہوں گی، ایسا ہو بھی رہا ہے۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی پیداوار سامراجیت خودبخود ختم نہیں ہوں گے، انھیں انقلاب کے ذریعے اکھاڑنا پڑے گا۔ امریکا میں 2008 کے بعد بے روزگاری کی شرح 42 فیصد سے تجاوز کرچکی ہے۔ 35 لاکھ امریکی بے گھر ہیں اور 2008 کے بعد سے 80 لاکھ گھر بینکوں نے ضبط کرلیے ہیں۔ مالی بحران کے دوران عام آدمی کی حالت جہاں بدتر ہوئی ہے وہاں امریکی اجارہ داریوں اور ان کے مالکان کی آمدن میں اضافہ ہوا ہے، جس کے نتیجے میں طبقاتی خلیج بڑھی ہے۔

بڑھتی ہوئی معاشی بدحالی، مسلسل عدم استحکام اور سماجی نفسا نفسی نے ذہنی بیماریاں، جرائم اور خودکشیوں کو امریکی طرز زندگی کا حصہ بنادیا ہے۔ خودکشی کی سب سے زیادہ شرح محاذ جنگ سے واپس آنے والے فوجیوں میں ہے اور اوسطاً 22 فوجی ہر روز خودکشی کر رہے ہیں۔ امریکا معاشی طور پر غیر ہموار ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ انھیں طبقاتی تضادات نے 2011 میں وال اسٹریٹ قبضہ تحریک کو جنم دیا تھا جس کی حمایت میں دنیا بھر میں 900 سے زائد شہروں میں ایک ہی دن مظاہرے ہوئے تھے۔ 2008 سے پہلے امریکا میں ایسی کسی تحریک کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ یہ تحریک فی الوقت بظاہر آگے نہیں بڑھ رہی لیکن معاشی کٹوتیاں اور سرمایہ داری کا بحران ختم ہونے والا نہیں۔ بدتر ہوتے ہوئے معاشی حالات، گرتی ہوئی آمدن اور بڑھتی ہوئی بیروزگاری امریکا کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو ایک بار پھر جھنجھوڑے گی اور وہ تاریخ کے میدان عمل میں کودنے پر مجبور ہوں گے۔

دنیا بھر کے محنت کشوں کی طرح امریکی سامراج نے امریکی عوام کا بھی بدترین استحصال کیا ہے۔ مذہب، قوم پرستی اور جمہوریت کے نام پر ان کے شعور کو مجروح کیا ہے۔ مالیاتی طور پر انھیں مفلس اور مغلوب رکھا گیا ہے۔ بے روزگاری کے ستائے ہوئے امریکی جوانوں کو سرمائے کی جنگوں کا ایندھن بنایا گیا ہے۔ امریکی سامراج اور اس کے نظام کے خلاف سب سے بڑی اور فیصلہ کن بغاوت امریکا کے محنت کش اور نوجوان ہی برپا کریں گے اور نسل انسانی کو دیے گئے ایک ایک زخم کا بدلہ امریکی حکمران طبقے سے لیں گے۔ آزاد منڈی کی بربریت نے امریکا کو سماجی عبرت کدہ بنادیا ہے۔امریکی محنت کش اسے سرمایہ داروں کا قبرستان اور عوام کی جنت بنائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔